تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     21-06-2014

ٹیکس اپیلیٹ سسٹم کی تباہی

2014ء کے فنانس بل میں وزیر ِ مالیات مسٹر اسحاق ڈار ٹیکس اپیلیٹ سسٹم کوفیئر اور انتظامی کنٹرول سے آزاد کرنے کے مطالبے کو نظر انداز کرگئے حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی اس ضمن میں واضح ہدایت بھی موجو د تھی۔ حتیٰ کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 130 میں (Appellate Tribunal Inland Revenue) ATIR کو اصل حالت میں نافذ کرنے کے لیے تجویز کردہ ترامیم کو ایف بی آر کے افسران نے مسترد کردیا۔ سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق اسے کابینہ کے سامنے پیش ہی نہیںکیا گیا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت ٹیکس اصلاحات لانے اور ٹیکس جسٹس سسٹم کو سہل اور موثر بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ 
ایف بی آر دوسری مرتبہ بھی نواز حکومت کو چکما دینے میں کامیاب ہوگیا۔ اگرچہ فنانس ایکٹ 2013ء میں کئی ایک غیر آئینی شقوں کا اضافہ کیا گیا تھا لیکن آئین کی سب سے واضح اور سنگین خلاف ورزی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن نمبر 130 میں شامل کی گئی ایک ترمیم تھی۔ اس کے تحت محکمے کے افسران کو ''جوڈیشل ارکان‘‘ کی طرح متعین کیا جاتا ہے۔ وزیر ِ اعظم صاحب کادعویٰ ہے کہ وہ مالیاتی امور ، خاص طور پر ٹیکسز کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن اُنھوںنے بھی ان مذکورہ تجاویز کی منظوری دے دی اور ایسا کرتے ہوئے یہ نہ بھانپ سکے کہ ایف بی آر کے افسران دراصل اے ٹی آئی آر کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں ۔ اس بات کا ثبوت اس وقت ملا جب حکومت نے اس شخص، جسے اکیسویں گریڈ میں ترقی دینے کے لیے نظر انداز کردیا گیا تھا، کو 2014ء میں جوڈیشل ممبر بنا دیا۔ 
اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ فنانس بل کے معاملے میں پارلیمنٹ صرف ایک ربڑ کی مہر ہی ثابت ہوتی ہے۔غالباً فاضل ممبران کو ان مالی امورکے گورکھ دھندے کا مطلق علم نہیںہوتا ۔ اسی طرح وہ آئین سے انحراف کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں۔ ایف بی آر کے اعلیٰ افسران کچھ عوامی نمائندوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے من پسند مقاصد بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس سسٹم میں ریاست کے جوڈیشل آرگن کو تباہ کردیا گیا۔ یہ آرگن سات عشروںسے فعال تھا۔ ایسا کرتے ہوئے آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز189 اور 201 کی خلاف ورزی کی گئی۔ محکمے افسران نے نہایت چالاکی سے منتخب شدہ عوامی نمائندوں کی ٹیکس قوانین سے لاعلمی کا فائدہ اٹھایا۔ 
ٹیکس افسران کو بطور جوڈیشل ممبران متعین کرنے سے اے ٹی آئی آر ایک طرح کا ایف بی آر کا ''کیمپ آفس‘‘ بن جائے گا۔ ٹیکس افسران چاہتے ہیں کہ ان کے جابرانہ اور غیر قانونی احکامات کی تعمیل ہر صورت ہوتاکہ وہ بجٹ کا ٹارگٹ پور ا کرسکیں۔ تمام ٹیکس بارز نے اس پیش رفت پر احتجاج کیا، اس کے باوجود پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دے دی۔ اب فنانس بل 2014ء میں بھی اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی گئی حالانکہ مسٹر ڈار نے ٹیکس بارز کے سامنے اس کا وعدہ کیا تھا۔ ایف بی آر کے اکائونٹ ممبران عام طور پر اکیسویں گریڈ کے افسر ، یا پھر بیسویں گریڈ کے کمشنر ، جن کا پانچ سالہ تجربہ ہو، لگائے جاتے ہیں۔ فنانس ایکٹ 2012ء میں تجربے کی حد کم کر کے تین سال کردی گئی۔ اس سے جونیئر افسران کو بھی موقع مل گیاکہ وہ ایف بی آر میں کام کریں اور پھر واپس اپنے اصل محکموں میں جاکر مزید اعلیٰ عہدہ حاصل کرسکیں۔تاہم فنانس ایکٹ 2013ء میںکی جانے والی ترمیم کے مطابق جوڈیشل ممبران بیسویں سکیل کے افسران ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ قانون میں گریجوایشن کرچکے ہوں۔ یہ ترمیم صریحاً غیر قانونی تھی۔ اس سے ٹیکس جسٹس کے نظام میں مزید خرابیاں در آنے کا خدشہ تھا۔ انڈیا میں برطانوی حکومت کی طرف سے 1941ء میں ٹربیونل قائم کرنے سے ٹیکس کے شعبے میں سامنے آنے والی شکایات کا ازالہ ہونے لگا۔ اس ٹربیونل میں اعلیٰ درجے کے پیشہ ور ماہرین تھے جنھوںنے نہایت سہل اور صارف فرینڈلی طریقِ کار وضع کررکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایف بی آر کو اس روایت سے کوئی سروکار نہیں۔ 73 سالہ تاریخ کے دوران یہ مستحکم روایت رہی ہے کہ جوڈیشل ممبران لگانے کے لیے وہی اہلیت درکار تھی جو ہائی کورٹس میں جج صاحبان کی تقرری میں مدِ نظر رکھی جاتی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی حکومتیں بہت سی تقرریاں اقربا پروری کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے ملکی ادارے تباہ ہورہے ہیں۔ اکائونٹنٹ ارکان کے لیے وزارت ِ قانون ایف بی آر کے نامزد کردہ افراد کو منتخب کرتی ہے، تاہم 2014ء میں نواز شریف کی حکومت نے سات دہائیوں سے جاری اس روایت کا خاتمہ کردیا۔ 2013ء میں کی گئی ترمیم کے ذریعے ایف بی آر کے 2914 افسران کو جوڈیشل ممبران لگادیا گیا۔ یہ ترمیم نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009ء کی خلاف ورزی تھی۔ اس کے مطابق۔۔۔'' تمام خصوصی عدالتیں یا ٹربیونل جوایگزیکٹو کے کنٹرول میں ہیں، کو متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی زیر ِ نگرانی ہونا چاہیے۔‘‘ تاہم2013ء میں کی گئی ترمیم کے موقع پر ہم نے آل پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکس بار ایسوسی ایشن والے معاملے کو فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھیں تاکہ نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009ء کے پیراگراف نمبر پانچ کی تعمیل کرائی جاسکے۔
2007ء کی ترمیم سے قبل، اکائونٹنٹ ارکان اکیسویں گریڈ سے لیے جاتے تھے۔ 2007ء میں کی گئی ترمیم کے تحت بیسویں گریڈ کے افسران جو پانچ سالہ تجربہ رکھتے تھے، کو لیا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد فنانس بل 2012ء میں تجربہ پانچ سال سے کم کرکے تین سال کردیا گیا۔ تاہم بدترین ترمیم فنانس ایکٹ 2013ء میں دیکھنے میں آئی جس کے مطابق آئی آر ایس افسران کو جوڈیشل ارکان لگادیا گیا۔ یہ تمام ترامیم یقینی طور پر غیر ضروری تھیں کیونکہ ایف بی آر میں کام کرنے والے افسران کے پاس اپیلیٹ یا جوڈیشل کام کا تجربہ نہیںہوتا؛ چنانچہ ان ترامیم کا مقصدمحکمے کو تباہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اے ٹی آئی آر وزارت ِ قانون کے زیر ِ کنٹرول نہیںہونا چاہیے۔اس کی بجائے اسے عدلیہ کے زیر کنٹرول دیا جانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ اے ٹی آئی آر کو ایک مکمل طور پر آزاداور خود مختار فورم بنایا جائے۔ ایف بی آر سے کوئی شخص بھی اس کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اکائونٹ ممبران کو چارٹرڈ اکائونٹینٹ ہونا چاہیے اور ان کے پاس کم از کم دس سالہ تجربہ بھی ہو۔ ان کی تعیناتی کا عمل عدلیہ کی نگرانی میںہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved