تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     22-06-2014

سیاسی بھول بھلیاں

کل ایک ٹی وی پروگرام میں‘ سدابہار سیاستدان‘ قمرزمان کائرہ نے اپنی پارٹی کا موقف دہرایا۔'' اگر کسی غیرجمہوری قوت نے جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش کی‘ تو سب سے آگے ہم ہوں گے۔‘‘ بات شروع کرنے سے پہلے وضاحت ضروری ہے کہ میں نے کائرہ صاحب کو سیاسی اعتبار سے سدابہار نہیں لکھا۔ وہ اپنی باغ و بہار طبیعت کی وجہ سے سدابہار ہیں۔ منظوروٹو طرز کے سدابہار نہیں۔ اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کائرہ صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ''جمہوریت کو خطرہ ہوا‘ تو ہم غیرجمہوری قوتوں کے خلاف سب سے آگے ہوں گے۔‘‘ ان سے میرا سوال ہے''کیا میاں صاحبان بھی ہوں گے؟‘‘مسلم لیگ (ن) آخر کار ''مسلم لیگ‘‘ ہے۔ وہ ق ہو‘ ن ہو‘ م ہو‘ دوسرا ق ہو(قیوم لیگ)‘ مسلم لیگ ف ہو‘ مسلم لیگ کنونشن ہو‘ غرض تمام حروف تہجی والی مسلم لیگیں ہوں‘ ان کی ایک خوبی مشترک ہے۔ مشکل کے وقت میں کبھی آگے نہیں رہتے۔ پیچھے رہتے ہیں۔ وقت آنے پر کھسکنے میں آسانی رہتی ہے۔ نوازشریف یادکرتے ہیں کہ ''مجھے کہا جاتا تھاقدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب وقت آنے پر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا‘ تو کوئی بھی نظر نہ آیا۔سب سے پہلے وہ دوڑا‘ جو یہ نعرے لگا رہا تھا۔‘‘ یہ صرف میاں صاحب کے ساتھ نہیں ہوا۔ ہر مسلم لیگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ پرویزمشرف نے بھی ایک مسلم لیگ گھڑ کے‘ چوہدری برادران کے حوالے کی۔وہ خاندانی مسلم لیگی ہیں۔ مسلم لیگیوں سے کام لینا جانتے ہیں۔ ترکیب استعمال زیادہ مشکل نہیں۔ بس ذرا دل بڑا کر لیں۔ ہاتھ کھلا کر لیں۔مسلم لیگی آپ کے ساتھ رہیں گے۔ مشکل وقت آئے‘ تو وہ چوہدریوں کے ساتھ بھی نہیں رہتے۔ ایک وقت تھا کہ خان عبدالقیوم خان مرحوم مسلم لیگ کے لیڈر بنے۔ لیگی روایت کے عین مطابق ‘مسلم لیگیوں کو اندازہ ہوا کہ اب قیوم خان کی باری آنے والی ہے۔ خان صاحب کے ساتھ روایتی سلوک شروع ہو گیا۔ ''قدم بڑھائو خان صاحب‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ خان صاحب نے ایک زبردست جلوس نکالا۔ ایوب خان، جو اقتدار کی کرسی پر تاک لگائے بیٹھے تھے۔ جلوس کا سائز دیکھا‘ توجلدی میں آ گئے اور وہی کام کر لیا‘ جو ایک خاص وقت کے بعد پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں فوجی حکومت کے لئے دس بارہ سال وقف ہیں اور منتخب حکومت کو دوچار سال ملتے ہیں۔ یحییٰ خان کے دور کو میں علیحدہ نہیں گنتا۔ وہ ایوب خان کا تسلسل تھے۔ درمیان میں جمہوری حکومت ہی نہیں آئی۔ 90ء کے عشرے میں روایات کے خلاف جمہوری حکومتیں ضرور آئیں۔ لیکن یاد کر لیں‘ کسی کو تین سال سے زیادہ کی مہلت نہیں ملی۔ صاف ظاہر ہے‘ زیادہ وقت ملتا‘ تو سیاست دانوں کو حکومت کرنے کا طریقہ آ جاتا۔ سیاستدان طریقہ سیکھ لیتے‘ تو اصلی حکمرانوں کا کیا بنتا؟ صرف ایک زرداری صاحب نے 5 سال کا عرصۂ اقتدار پورا کیا۔ اس انداز سے جیسے ایک سردار جی نے رب کو دیکھ کر اپنی طرف اشارہ کر کے پوچھ لیا تھا ''ایہہ بندہ بنایا اے؟‘‘ یہاں بندہ کی جگہ صدر کر لیں۔بندہ تو بہرحال وہ ہیں۔ لیکن نہ سیاستدان تھے، نہ حکمران تھے۔ ان کا واحد کریڈٹ یہ ہے کہ 5 سال ایوان اقتدار کے اندر رہنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ جانتے ہیں ہمارا ایوان صدر کتنا پرشکوہ ہے؟ زرداری صاحب کو چاربیڈروم کا گھر بھی مل جائے تو ان سے قبضہ لینا مشکل ہوتا ہے۔ وہ تو نوازشریف کی مہربانی تھی کہ زرداری صاحب نے 5سال پورے کر کے‘ ایوان اقتدار چھوڑ دیا۔ ورنہ کس کی مجال تھی کہ انہیں کوئی وہاں سے نکالتا۔ حکومتیں بدلتی رہتیں۔ زرداری صاحب ایوان صدر ہی میں رہتے۔ نوازشریف نے انہیں‘ اگلی ٹرم میں دوبارہ صدر بنانے کی امید پر لگا دیا۔ اسی چکر میں وہ ایوان صدر چھوڑ گئے۔ زرداری صاحب سے نوازشریف کو سمجھنے میں چوک ہو گئی۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ موصوف کو زیادہ عرصہ‘ ایوان اقتدار میں رہنے کا شوق نہیں۔ بڑی محنت و مشقت کے بعد اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ ایک سال کے اندر اندر بیزار ہو جاتے ہیں اور پھر وہاں سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں۔ دونوں مرتبہ ان کی وزارت عظمیٰ فوج نے سنبھالی۔ دونوں مرتبہ ہی‘ وہ اقتدار کے پہلے آٹھ دس مہینوں کے اندر‘ باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگتے تھے۔ یہ فوج تھی جو انہیں جذبات پر قابو پانے کا مشورہ دے کر‘ ایوان اقتدار کے اندر مزید سال ڈیڑھ سال رکھ لیا کرتی تھی۔ اس کے بعد انہیں فوج بھی نہیں سنبھال سکتی۔ جب وہ اقتدار چھوڑنے پر تل جائیں‘ تو انہیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ بیگم کلثوم نواز ہوں‘ شہبازشریف ہوں یا ان کے دیگر خیرخواہ۔ پھر وہ کسی کی نہیں مانتے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ انہیں عالمی انتظامات کے تحت اقتدار ملا۔ انہیں لانے والوں کا خیال تھا کہ عالی جناب اپنا کام سیکھ چکے ہوں گے۔ 2013ء کے انتخابات میں انہیں پنکچر لگا کر ایوان اقتدار میں پہنچا دیا گیا۔ سب نے کہا ‘ الیکشن میں دھاندلی ہو گئی۔ میاں صاحب اقتدار لے چکے تھے۔ انہوں نے بھی کہا دھاندلی ہو گئی۔ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے باری باری یہی بات کہی۔ ایسے خوش نصیب بہت کم ہوتے ہیں‘ جنہیں تمام سیاسی مخالفین دھاندلی کی شکایت ہونے کے باوجود‘ تسلیم کر لیتے ہیں۔ میں اس کی وجہ آج تک نہیں سمجھ پایا کہ میاں صاحب اوول آفس میں‘صدر اوباما کے سامنے‘ امتحانی پرچہ نکال کر کیوں بیٹھ گئے؟حکمران اعلیٰ سطحی کانفرنسوں میں تو کاغذات سے مدد لیتے ہیں،لیکن ون ٹو ون میٹنگ میں ایسا نہیں ہوتا۔ سنا ہے‘اوباما کے ساتھ میاں صاحب کی ون ٹو ون میٹنگ کے بعد‘ اوباما کے کسی مشیر نے کہا''ہمیں پتہ ہوتا تو ملاقات کا وقت ہی کیوں نکالتے؟ میاں صاحب سے پرچہ لے کر اوباما کو پہنچا دیتے۔ تکلفات میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی؟‘‘
میاں صاحب نے اسی پر بس نہیں کیا۔ بحران زدہ ملک کو اس کے حال پر چھوڑ کر سیرسپاٹے کرنے لگے۔ ان کے سٹاف کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پچھلے دورے سے واپسی کے بعد‘ نئے دورے کے انتظامات شروع کردیں۔ یہ آسان کام نہیں ہوتا۔ 
میاں صاحب کے سٹاف نے حیرت انگیز چابکدستی کے ساتھ ان کے لئے‘ فٹافٹ فٹافٹ دوروں کا بندوبست کرنا شروع کر دیا۔اب وہ ایک دورے سے واپس آنے کے بعد‘ اپنے سٹاف سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ ''اگلے دورے کا کیا انتظام ہوا؟‘‘ عام طور پر ان کے سامنے تین چار ملکوں کی فہرست رکھ دی جاتی ہے۔ ہر فہرست میں صومالیہ اور سوڈان کا نام بھی ہوتا ہے۔ سٹاف یہ جانتا ہے کہ میاں صاحب ان ملکوں میں جانا پسند نہیں فرمائیں گے، لیکن یہ بتانے کے لئے کہ تین ملک ان کی میزبانی کے منتظر ہیں‘ وہ صومالیہ اور سوڈان کے نام بھی لکھ دیتے ہیں۔ اصل میں دورے کا انتظام تیسرے ملک کے ساتھ کیا گیا ہوتا ہے۔جس دن میاں صاحب نے موڈ میں آ کر صومالیہ یا سوڈان کا نام لے لیا‘ سٹاف کو ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔ ان دونوں ملکوں کے دورے کا تو کوئی انتظام ہی نہیں ہوتا۔ بہرحال ابھی تک یہ پریکٹس کامیابی سے چل رہی ہے۔ میاں صاحب گزشتہ دورے سے واپس آئے‘ تو آئندہ دورے کے لئے کوئی نیا ملک ہتھے نہیں چڑھا تھا۔ جلدبازی میں تاجکستان پر ٹرائی کی گئی۔ وہاں مدتوں سے کوئی بیرونی حکمران نہیں آیا تھا۔ فوراًدعوت نامہ آ گیا۔ سٹاف کی عزت رہ گئی۔ تاجکستان سے واپسی پر سوڈان اور صومالیہ کے علاوہ کس تیسرے ملک کا نام لکھا جائے گا؟ یا تو اس کا بندوبست ہو چکا ہو گا ورنہ دوچار دن میں ہو جائے گا۔ میاں صاحب اتنا وقت اپنے ملک میں گزار ہی لیتے ہیں۔ اس بار حالات کے تیور بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے بھائی شہبازشریف ‘ میاں صاحب کے مختصر دوروں پر خوش نہیں تھے۔ انہیں اپنی معیت میں طویل دورے پر بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن پیپلزپارٹی بضد ہے کہ وہ اقتدار کے 5سال پورے کریں۔ انہیں اپنا لالچ ہے۔ میاں صاحب 5سال پورے کریں گے‘ تو زرداری صاحب کی باری آئے گی۔ میاں صاحب نے اپنی عادت کے مطابق‘ معاملہ درمیان میں ہی ختم کر دیا‘ تولوگ کیا کہیں گے؟ لوگ یہی کہیں گے کہ میاں صاحب نے زرداری کی باری مارنے کے لئے‘ اپنا اقتدار قبل ازوقت چھوڑ دیا۔
تصحیح: 1977ء میں جن21نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگاوہ صوبائی نہیں ‘قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں۔صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔اس سہو پر معذرت خواہ ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved