ماڈل ٹائون لاہور میں پولیس اور ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے ''تصادم‘‘ نے فضا کو اس طرح آلودہ کیا ہے کہ بہت کچھ نظر آنے کے باوجود کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ ایک سوال کا جواب تلاش کرنے بیٹھیں تو کئی اور سوالات جنم لے لیتے ہیں اور کسی ایک الجھن کو سلجھانے کی کوشش کریں تو کئی اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ حادثہ جسے اب دنیا بھر میں سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کے عنوان سے یاد کیا جا رہا ہے، اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اب تک11افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں میں سے بعض زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ادارہ منہاج القرآن کی طرف سے ان کے بعض کارکنوں کے ''غائب‘‘ ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے اور چودھری پرویز الٰہی نے آگے بڑھ کر یہ الزام بھی لگا دیا ہے کہ کسی ایک قبر میں کئی افراد دفنا ڈالے گئے ہیں۔ گویا، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد انتظامیہ کی طرف سے فراہم کردہ فہرست سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ دعویٰ ( یا الزام) ایسا ہے کہ جب تک اس کی تصدیق نہ ہو جائے، اس کو تسلیم کرنے میں دشواریاں حائل رہیں گی۔
وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی شمشیر برہنہ اور اپنی کابینہ کے سینئر وزیر رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ طلب کر لیا ہے اور اپنے انتہائی معتمد پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ رانا ثناء اللہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے ایک بہادر سیاسی کارکن سمجھے جاتے تھے اور اُن کا لہجہ اہل ِ اقتدار کو بدمزہ کیے رکھتا تھا۔ ان کو اغوا کر کے ان کی مونچھیں مونڈ ڈالی گئیں اور یوں بزعم خود اس جیالے راجپوت کی بے عزتی کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس حرکت نے رانا صاحب کی عزت اور توقیر میں اضافہ کر دیا۔ ان کو مونچھیں دوبارہ اُگ آئیں، لیکن انہوں نے (محاورے کی زبان میں) انہیں نیچا کرنے سے انکار کر دیا۔ رانا صاحب شہباز شریف کابینہ میں مسلسل سینئر وزیر کے عہدے پر فائز رہے اور عام اندازہ یہی تھا کہ ان کا عرصہ ٔ اختیار، مسلم لیگ(ن) کے دورِ اقتدار کا ہم سفر رہے گا۔ رانا صاحب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے فرسٹ کزن بھی ہیں۔ راجپوتوں نے یہ سہولت حاصل کر رکھی ہے کہ وہ چودھری، رانا یاخان کچھ بھی کہلا سکتے ہیں۔ افتخار محمد چودھری کا خاندان بلوچستان جا بسا، تو اس نے چودھری کا لبادہ اوڑھ لیا، جبکہ رانا صاحب، رانا بن کر فیصل آباد میں سینہ سپر رہے۔ افتخار محمد چودھری رانا صاحب کی خاموش طاقت ضرور تھے، اگر وہ آج موجود ہوتے تو شاید ان سے اس طرح استعفیٰ طلب نہ کیا جا سکتا۔ رانا صاحب مسلم لیگ(ن) کی گروہی سیاست میں بھی ملوث تھے اور ان کے مخالف فیصل آباد (براستہ لاہور) تا اسلام آباد موجود ہیں۔ اُن کی کابینہ سے رخصتی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ یقینا شہباز شریف صاحب نے ایک بڑی جست بھری ہے۔ پرنسپل سیکرٹری بھی وزیراعلیٰ کے انتہائی معتمد تھے اور ان کے سیاسی رفقا، ان کو اپنے اور وزیراعلیٰ کے درمیان دیوار سمجھتے تھے، لیکن وزیراعلیٰ کا اعتماد ان پر متزلزل نہیں ہوا۔ وہ اپنا سیکرٹریٹ ان کے سپرد کر کے مسرور و مطمئن رہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر توقیر بھی شاید اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکے، اس لئے وزیراعلیٰ نے اُن کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ان اقدامات سے سانحہ ٔ لاہور کے متاثرین مطمئن نہیں ہوئے، مسلم لیگ(ن) کے مخالفین میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جنہوں نے اسے ناکافی قرار دیا ہے، اس کی ٹائمنگ پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ادارہ منہاج القرآن تو ذمہ داری براہ راست ان پر، اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر عائد کر رہا ہے، اس لیے اس کے جذبات کی شدت بدستور موجود ہے۔ اسے رانا ثناء اللہ کا ''خون‘‘ آسودہ کرنے سے رہا۔
تلخیوں، خرابیوں اور بربادیوں کے درمیان لاہور ہائی کورٹ کا یک رکنی عدالتی ٹریبونل اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اپنا کام کس طرح مکمل کرتا اور اس کی رپورٹ لوگوں کا اعتماد کس طرح حاصل کر پاتی ہے، یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ ابھی تک تو اس کا معاملہ یکطرفہ ہو کر رہ گیاہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے متعلقین اور متوسلین کسی بھی طرح کا تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔ اس میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی فضا کو اس واردات نے متاثر کیا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ادارے کی ترجیحات سے جو بھی اختلاف کیا جائے، اس بات سے تو سب آگاہ ہیں کہ وہ شدت پسندوں اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف پوری طاقت سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔اس حوالے سے ان کی شخصیت کا بین الاقوامی سطح پر بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد تو ان کے گھر اور دفتر کے گرد حفاظتی انتظامات میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی، نہ کہ پہلے سے موجود حصار کو مسمار کر دیا جاتا۔یہ سارا انتظام ماڈل ٹائون پولیس کے ساتھ ایک تحریری مفاہمت کی صورت میں ریکارڈ پر ہے اور اس میں ادارے کی کوئی خود سری یا یکطرفگی کہیں موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر اور ان کے دفتر کے گرد حفاظتی بیرئیرز کو اولاً تو مسمار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اگر کسی کے دماغ میں یہ فتور سما ہی گیا تھا تو اسے ادارے کے ذمہ داران کو نوٹس دینا چاہیے تھا اور رات کی تاریکی میں شب خون مارنے کے بجائے ، دن کے اُجالے میں اقدام کرنا چاہیے تھا۔ ایک غلط فیصلے کو غلط طریقے پر نافذ کرنے کی کوشش کی گئی،مقابل جمع ہونے والے ہجوم نے پتھروں اور اینٹوں سے استقبال کیا۔ اس پر سیدھی گولیاں چلا دی گئیں۔موقع پر موجودجس پولیس افسر نے یہ ہدایت جاری کی اور اس جارحیت کی کمان سنبھالے رکھی، اس کی ذہنی کیفیت اور صلاحیت کے بارے میں کوئی مثبت رائے ظاہر نہیں کی جا سکتی۔
پہلے پہل یہ دفاع پیش کیا گیا کہ پولیس پر ڈاکٹر طاہر القادری کے حامیوں (یامحافظوں) نے گولی چلائی تھی، جس کے جواب میں گولی چلانا پڑی، یعنی جو کچھ ہوا وہ کراس فائرنگ کا نتیجہ تھا، یا پولیس کی اپنے دفاع میں کی گئی کارروائی تھی۔ اگر یہ ثابت کیا جا سکتا تو صورت حال مختلف ہو سکتی تھی، لیکن تاحال ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں لائے جا سکے۔ بہرحال جو ہوا، بہت بھونڈے انداز میں اور بے حد غلط ہوا۔یہ سب المناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے، اس سے انتظامیہ کا کھوکھلا پن بھی واضح ہوا،اور پولیس افسرو ںکی عدم صلاحیت بھی آشکار ہوئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گلوبٹ نامی ایک شخص نے پولیس کی نگرانی میں جس طرح گاڑیاں توڑیں، جس طرح پولیس کے جوان اس کی قیادت میں نعرہ زن رہے اور جس طرح ایک ایس پی کے درجے کے افسر اس کی بلائیں لیتے نظر آئے، اس نے بہت سوں کا بھرم کھول دیا۔ کیمرے کی آنکھ اگر یہ سب مناظر محفوظ نہ کر لیتی، تو شاید کوئی بھی اس کا یقین نہ کر پاتا۔
ایک ایک دن اور ایک ایک لمحے کی تفصیل ایسی ہے کہ جسے معلوم کرکے سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے، لیکن قوموں کے معاملات صرف سر پیٹنے سے نہیں چلتے ۔انہیں ماتم کرنے کے علاوہ مجرموں کی نشاندہی اور مستقبل کی صورت گری بھی کرنا ہوتی ہے، اس لحاظ سے یہ سب اہل سیاست اور اہل دانش کا امتحان ہے کہ وہ ایک سانحے کا تعاقب کرتے کرتے کسی دوسرے سانحے کی نوبت نہ آنے دیں۔ ایک پائوں اگر زخمی ہو جائے تو پیٹ میں چاقو گھونپ کر اس پر اترایا نہیں جا سکتا۔ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر مسائل کا حل تلاش کرنے ہی سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اس ایک المیے کی آڑ میں اجتماعی زندگی کو کسی بڑے المیے کے سپرد کرنا چاہتے ہیں، ان کو سمجھانا اور ان کے راستے میں روک لگانا لازم ہے کہ جیب تراش اگر جیب کاٹ لے تو پورے گھر کو ڈاکوئوں کی نذر کرکے اپنے آپ سے اس کا ''انتقام‘‘ نہیں لیا جاتا۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)