تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-06-2014

سوالات

شریف خاندان کا عہد تمام ہوا۔ متبادل کیا ہے؟ ایک جمہوری متبادل ممکن ہے مگر اس کے لیے حقیقت پسندی درکار ہے۔ تعصبات سے رہائی۔ یہ مگر یاد رہے کہ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت صورتِ حال کی ہوتی ہے‘ افراد اور جماعتوں کی نہیں۔ 
رانا ثناء اللہ تو قابل فہم مگر ڈاکٹر توقیر کیوں برطرف ہوئے؟ عرض کیا تھا کہ عملاً وہ چیف سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل کئی دن ان کی میز پر پڑی رہی۔ ظاہر ہے کہ یہ منصوبے وزیراعلیٰ کی ہدایات کے مطابق بنے ہوں گے۔ جو افسر کسی ذمہ دار پوزیشن پر برقرار رہنا چاہتا ہے‘ اس کی مجال کیا کہ بتائی گئی ترجیحات کو ترک کرے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر توقیر شاہ کی توثیق ضروری تھی کہ جزئیات تک‘ ہر چیز شریف خاندان کی پسند ناپسند کے مطابق ہو۔ 
ظاہر ہے کہ منہاج القرآن مرکز پر یلغار کی حکمت عملی چند لوگوں نے مرتب کی‘ ان میں وہ سرفہرست تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جن کے نام ابھی سامنے آئیں گے‘ مثلاً فواد حسن فواد جو رابطے میں رہے اور بعض ہدایات بھی جاری کیں۔ 13 اور 16 جون کے اولین اجلاسوں میں‘ جہاں مہم کا نقشہ مرتب ہوا‘ پولیس افسر شریک نہ تھے۔ آئی جی مشتاق سکھیرا نے سانحے سے ایک دن پہلے منصب سنبھالا‘ عمران خان نے جن کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ اب ان کے خلاف پروپیگنڈا ہے‘ وہ پولیس افسر خاص طور پہ سرگرم ہیں‘ محکمے کی اندرونی چپقلش میں جو ان کے حریف ہیں۔ کہا گیا کہ بلوچستان میں کون سا کارنامہ انہوں نے انجام دیا۔ انجام تو دیا ہے۔ بدترین حالات میں اگر اغوا برائے تاوان کا خاتمہ ہوا اور کوئٹہ میں پولیس ناکوں کی تعداد نصف رہ گئی تو یہ آئی جی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ غلطیاں ان سے سرزد ہوئی ہوں گی۔ تفصیلات سامنے آئیں تو ان کے کردار کا تعین ہو جائے گا؛ با یں ہمہ وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں اور کوئی سکینڈل ان سے منسوب نہیں۔ 
کس طرح مان لیا جائے کہ باقی سب تو ذمہ دار ہیں مگر وزیراعلیٰ معصوم۔ رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کو ذمہ داری کس نے سونپی؟ کس کی آسودگی کے لیے وہ سرگرم کار تھے؟ بہت بنیادی سوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ لاشیں گرنے کے بعد بھی‘ وزیراعلیٰ جب معذرت پہ معذرت کر رہے تھے‘ رانا ثناء اللہ اگر دھمکیاں دیتے رہے تو کس اعتماد کی بنا پر۔ ظاہر ہے کہ انہیں روکا نہ گیا اور ان کی پیٹھ تھپکی گئی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو اگر بے گناہوں کے قتل کا واقعی صدمہ تھا تو ڈاکٹر طاہر القادری کے فرزندکے خلاف ایف آئی آر کیوں درج ہوئی۔ پولیس افسر جناح ہسپتال کیوں پہنچے اور جعلی رپورٹیں لکھنے پر اصرارکیوں کرتے رہے۔ بدترین پہلو وہ ہے‘ جس میں اپوزیشن نے حکومت اور حکومت نے اپوزیشن کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ ضرب عضب کو ناکام بنانے پر تلے ہیں۔ اس مہم کا ماڈل ٹائون کے واقعات سے تعلق ہی کیا؟ ساری قوم اس پر متفق تھی؛ اگرچہ ماحول خراب ہوا۔ کارروائی مگر اسی شدت اور اسی اہتمام سے جاری رہی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا طرزِ عمل قابل فہم ہے کہ مبالغہ ہی ان کا مزاج ہے اور اب تو وہ مظلوم بھی ہیں۔ جس شخص نے کبھی یہ مان کر نہ دیا کہ شریف خاندان کے اس پر احسانات ہیں‘ اس سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ ایسے میں وہ حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے‘ جب وہ ریاستی قوت کا ہدف ہے۔ 
عمران خان اپنے موقف کا البتہ کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے۔ مظلوموں کی دست گیری کے لیے وہ لاہور پہنچے اور بجا طور پر پوری قوت سے احتجاج کیا مگر ضرب عضب؟ اس کے اردگرد ہونق جمع ہیں اور کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ سچائی کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑنے والے ہی سرخرو ہوا کرتے ہیں۔ 
خیر وہ تو اپوزیشن لیڈر ہیں‘ وفاقی وزیر اطلاعات بے پر کی کیوں ہانکتے رہے۔ اب ایک اور سوال: ادارہ منہاج القرآن پہ یلغار کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ اخبارات کی فائل نکالیے۔ پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ سمیت سرکاری لیڈروں کے دھمکی آمیز بیانات دیکھ لیجیے۔ فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ وہ اس کے ایما پر بروئے کار آئے۔ خیر یہ الزام تو کپتان پر بھی لگا۔ عام آدمی اس طرح کی افواہوں کا خریدار ہو تو ایک بات ہے‘ اچھے بھلے‘ پڑھے لکھے‘ جہاندیدہ اخبار نویس بنیادی حقائق یکسر نظرانداز کیسے کر سکتے ہیں۔ الیکشن 2013ء سے پہلے چودھری نثار علی خان کی قیادت میں کیا نون لیگ نے یہ مہم برپا نہ کی تھی کہ آئی ایس آئی تحریک انصاف کی پشت پناہ ہے۔ نون لیگ کے قائدین کو چھوڑیئے کئی آزاد اخبار نویس بھی‘ قائل نظر آئے۔ بعد میں ہوا کیا؟ فوج نے کس کی مدد کی؟ کسی کی بھی نہیں۔ امریکہ بہادر‘ عرب ممالک اور کاروباری طبقات سے سمجھوتہ کر لینے کے بعد‘ نگران حکومتوں کی مدد سے دھاندلی کا منصوبہ بنایا گیا تو عسکری قیادت غیر جانبدار ہو گئی۔ سبکدوشی کے بعد ایک ملاقات میں جنرل اشفاق پرویزکیانی نے اس اخبار نویس کو بتایا: الیکشن کمیشن نے 80 ہزار پولنگ سٹیشنوں پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار افسروں کے تقرر کا مطالبہ کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ افسروں کی کل تعداد 25 ہزار ہے۔ زیادہ حساس مقامات پر وہ مقرر کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر دھاندلی ہو تو کیا انہیں روکنے کا اختیار ہوگا؟ الیکشن کمیشن کے جسٹس کیانی نے بوڑھے‘ بیمار اور پژمردہ چیف الیکشن کمشنر کی جگہ جو کاروبار چلا رہے تھے‘ چیف آف آرمی سٹاف کو بتایا کہ ایسا ممکن نہیں۔ دنیا ٹی وی کی انتخابی نشریات میں‘ میں نے کہا تھا کہ کم از کم کراچی کی حد تک‘ جہاں الیکشن ہوئے ہی نہیں‘ فوج اور رینجرز بھی ذمہ دار ہیں۔ جنرل نے مجھ سے کہا: ان حالات میں میرے لیے اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ لاتعلق رہوں اور کم از کم فوج کی عزت بچا لوں۔ خیر‘ یہ ایک طویل موضوع ہے لیکن یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی اور بڑے پیمانے پر ہوئی۔ نہ صرف پولیس اور نگران انتظامیہ بلکہ عدلیہ کے بعض عناصر بھی ذمہ دار تھے۔ ابھی یہ جملہ میں لکھ رہا ہوں اور خبر آئی ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے نیک نام فرزند ارسلان کو بلوچستان میں سرمایہ کاری بورڈ کا چیئرمین لگا دیا گیا ہے۔ براہ کرم یہ اخذ نہ کیجیے کہ انتخابی فتوحات سے اس واقعے کا کوئی تعلق ہے۔ ایک تازہ خبر آئی‘ میں نے آپ کو سنا دی۔ سیاق و سباق اور اسباب و عوامل پر غور کرنا آپ کا کام ہے۔ 
آزادانہ الیکشن ہوتے تو نون لیگ کی سیٹیں 85 سے زیادہ اور تحریک ا نصاف کی 65 سے کم نہ ہوتیں۔ الیکشن کے نتائج اس کے باوجود قبول کر لیے گئے۔ عمران خان کی حکمت عملی ناقص تھی اور کب ناقص نہ تھی‘ ان کا مطالبہ مگر یہی تھا کہ چار سیٹوں پر انگوٹھوں کے نشان جانچ لیے جائیں۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں یہ مطالبہ مان لیا گیا مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ نادرا کے چیئرمین کی برطرفی الگ‘ چودھری نثار بھی ہمیشہ بیمار اور ہمیشہ چپ نہ رہیں گے۔ بہت سے حقائق منظر عام پر آنے والے ہیں۔ عمارت کی بنیاد کمزور ہو تو کب تک وہ کھڑی رہ سکتی ہے۔ اس کے باوجود کہ پیچ در پیچ بحرانوں سے دوچار قوم مہلت دینے پر آمادہ تھی‘ مواقع خود شریف خاندان نے گنوائے۔ دہشت گردی اور بجلی کے بحران سے نمٹنے‘ امن و امان اور ٹیکس وصولی بہتر بنا کر‘ معیشت بحال کرنے کی بجائے‘ وہ فوج اور مخالفین پہ چڑھ دوڑے۔ مشکوک میڈیا گروپ کی پشت پر وہ جا کھڑے ہوئے اور اب تک کھڑے ہیں۔ اے آر وائی کے لائسنس کا تعطل اسی طرزِ فکر کا شاخسانہ ہے۔ بھارتی صنعت کاروں‘ چینی اور ترک کمپنیوں کے تعاون سے ذاتی کاروبار کا فروغ اور مخالفین سے انتقام ان کی طے شدہ پالیسی ہے۔ ایک ہدف طاہر القادری ہیں‘ ایک اے آر وائی کے حاجی محمد اقبال کہ میاں محمد منشا کے معتوب ہیں۔ خواجہ آصف نے ایک بار مجھ سے کہا تھا: ہماری قیادت ابھی تک 90 کے عشرے میں زندہ ہے۔ زیادہ خطرناک باتیں خواجہ سعد رفیق نے بتائی تھیں۔ کبھی عرض کروں گا۔ 
شریف خاندان کا عہد تمام ہوا۔ متبادل کیا ہے؟ ایک جمہوری متبادل ممکن ہے مگر اس کے لیے حقیقت پسندی درکار ہے۔ تعصبات سے رہائی۔ یہ مگر یاد رہے کہ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت صورتِ حال کی ہوتی ہے‘ افراد اور جماعتوں کی نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved