تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-06-2014

مولانا کی وزارتیں اور بلوچستان میں سرمایہ کاری

ماڈل ٹائون لاہور میں ہونے والے سانحے پر یک سطری تبصرہ یہی ہو سکتا ہے کہ یہ حکومت کی انتظامی نااہلی کی بدترین مثال ہے۔ درجن بھر لوگوں کی جان چلی گئی اور بے رحم سیاست کا یہ حال ہے کہ پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ حکومت جو پہلے سے افواہوں کی زد میں تھی‘ اس واقعے کے بعد مزید پریشر میں ہے۔ اس بڑھتے ہوئے دبائو کو کسی حد تک کم کرنے کی غرض سے وزیراعلیٰ پنجاب نے جہاں اپنے چہیتے ترین وزیر رانا ثنااللہ اور اپنے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے مدارالمہام اور ا پنے پسندیدہ ترین بیوروکریٹ ڈاکٹر توقیر شاہ کو قربان کیا ہے‘ وہیں اس سانحے کی ٹوپی کے نیچے سے مولانا فضل الرحمن نے اپنے دو چہیتوں کے لیے وزارت کا کبوتر برآمد کیا ہے۔ میاں نوازشریف نے حالات کی نزاکت کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر مولانا فضل الرحمن کو بالآخر ہائوسنگ کی مرکزی وزارت عطا کردی۔ اکرم درانی نے وفاقی وزیر ہائوسنگ کا چارج لے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست میں موقع پاتے ہی اپنا چراغ الہ دین رگڑ کر من چاہی خواہشات کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ 
جہاں تک رانا ثناء اللہ کے استعفے کا تعلق ہے خواہ یہ بادل نخواستہ ہی لیا گیا ہے مگر اس استعفے سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ ان کی زبان بندی کی جائے کہ معاملات کو ان کی وزارتوں نے نہیں بیانات نے زیادہ بگاڑا ہے۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ حکومت اس وقت مسائل میں گھری ہوئی ہے اور حسب معمول والی بلاوجہ ایڈونچر پسندی نے صرف ایک سال میں معاملات کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں پہلے دو سال میں پہنچتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب کی ہر بار سینگ پھنسائی بھی اپنے ہی پسندیدہ لوگوں سے ہوئی ہے۔ غلام اسحاق خان میاں صاحب کے محسن و مربی تھے۔ آئی جے آئی کے سلسلے میں مددگار تھے اور ایک حد تک سرپرست بھی تھے۔ ان کی پہلی حکومت کا دھڑن تختہ ان کے اسی محسن کے ہاتھوں ہوا۔ دوسری بار ان کو گھر بھجوانے کا سہرا جنرل پرویز مشرف کے سر رہا۔ پرویز مشرف کو کئی جنرلوں پر فوقیت دے کر چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا۔ سینئر جنرلوں کو گھر بھیج کر ان کو نوازا گیا۔ اس آئوٹ آف ٹرن نوازے گئے جنرل نے بارہ اکتوبر کو میاں نوازشریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اب میاں صاحب نے نہایت سوچ بچار کے بعد (جتنا کہ وہ سوچ سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں) سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر آنے والے جنرل راحیل شریف کا انتخاب کیا اور حسب معمول اپنے اس انتخاب کے ساتھ بھی وہ چند ماہ سے زیادہ سہولت سے نباہ نہیں کر سکے اور حال یہ ہے کہ معاملات افواہوں کی زد میں ہیں اور بھائی لوگ تاریخیں دینے پر آ گئے ہیں۔ 
گزشتہ ہفتے میں اپنے ایک دوست کے پاس لاہور میں بیٹھا تھا۔ وہاں ایک صاحب اور آ گئے۔ میرے دوست نے بتایا کہ یہ صاحب علم نجوم کے ماہر ہیں اور ستاروں کی چال دیکھ کر بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ میں نے ازراہ تفنن حکومت کا حال پوچھا تو وہ صاحب کہنے لگے کہ جولائی سے اکتوبر کے درمیان حکومت کی رخصتی کا امکان ہے۔ اگر اکتوبر خیریت سے گزر گیا تو پھر راوی چین لکھتا ہے مگر اس کا امکان ہے کم۔ کل ایک باخبر دوست ملا‘ اس نے بھی ایسی ہی خبر سنائی اور کہا کہ یہ حکومت جا رہی ہے۔ میں نے پوچھا‘ اب کہاں جا رہی ہے؟ میرے دوست نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ کیا سوال ہے؟ میں نے کہا‘ بھائی یہ حکومت جس دن سے آئی ہے کہیں نہ کہیں جا رہی ہے۔ کبھی چین‘ کبھی ترکی‘ کبھی برطانیہ‘ کبھی امریکہ‘ کبھی کہیں اور کبھی کہیں۔ یہ ملک میں تو ٹک کر بیٹھی نہیں۔ پرسوں بھی دو شنبے گئی ہوئی تھی۔ کل ہی واپس آئی ہے۔ اب کہاں جا رہی ہے؟ وہ دوست کہنے لگا‘ تم تجاہل عارفانہ سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہو۔ میرا مطلب ہے‘ حکومت گھر جا رہی ہے۔ میں نے کہا‘ اول تو میرا خیال ہے کہ یہ صرف افواہیں ہیں اور بہت سے لوگوں کی محض خواہش ہے مگر بفرض محال ایسا ہونے جا ہی رہا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ وہ دوست کہنے لگا‘ ان ہائوس تبدیلی آ رہی ہے۔ دوسرا دوست بول اٹھا کہ مڈٹرم الیکشن ہو رہے ہیں۔ تیسرا کہنے لگا‘ قومی حکومت بن رہی ہے۔ میں نے کہا‘ پہلے آپ لوگ کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں پھر بات آگے چلے گی۔ تینوں دوست آپس میں بحث کرنے لگ گئے۔ 
ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس حکومت کو کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ نہ اپوزیشن سے نہ عمران خان سے۔ نہ فوج سے اور نہ طاہرالقادری سے۔ اگر اس حکومت کو خطرہ ہے تو خود اپنے سے۔ میاں صاحب کو غیر ملکی دوروں سے فرصت نہیں اور ان کے حواریوں اور وزراء کو الٹے سیدھے بیانات سے فراغت نہیں۔ ہمہ وقت دنگا فساد پر تیار اور مخالفین کو لڑائی پر اکسانے کے علاوہ کسی وزیر کے پاس 
کوئی کام نہیں۔ خاص طور پر خواجہ سعد رفیق‘ رانا ثناء اللہ‘ عابد شیر علی اور میرے عزیز دوست پرویز رشید۔ ہر وزیر کا رویہ اس سردار جیسا ہے جس نے کسی راہ چلتے سے پوچھا کہ تم کتنے بھائی ہو؟ راہ چلتے ہوئے شخص نے کہا کہ ہم پانچ بھائی ہیں۔ سردار نے نہایت اشتعال انگیز لہجے میں کہا کہ اگر تم چھ بھی ہوتے تو میرا کیا کر لیتے؟ اگر اس حکومت کا وقت سے پہلے خاتمہ ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری حکومتی وزراء پر ہوگی۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ حکومت کرنے کے لیے تحمل‘ بردباری اور قوت برداشت بہت ضروری عوامل ہیں‘ خصوصاً پاکستانی سیاست میں۔ ان کے سامنے آصف علی زرداری کے گزشتہ پانچ سال ایک روشن مثال کے طور پر موجود ہیں مگر ان مسلم لیگی وزراء سے کیا توقع رکھیں۔ ان کے لیڈر نے خود دس سال کی جلاوطنی سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘ یہ تو محض عام تام وزیر ہیں۔ 
میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے اور خواہش بھی کہ یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے۔ میری شدید ترین خواہش ہے کہ یہ نظام آئین کے مطابق چلتا رہے‘ مگر اب ضروری ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے۔ الیکشن ہر پانچ سال کے بجائے ہر چار سال بعد ہوں اور نظام حکومت پارلیمانی کے بجائے صدارتی ہو کہ ملک کو بچانے اور چلانے کا یہی حل ہے۔ فوج کو بھی ادارہ بن کر کام کرنا چاہیے اور دیگر معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ مگر یہ میری خواہشات ہیں... ایک عام آدمی کی خواہشات۔ یہاں ہماری پہلے کس نے سنی ہے جو اب سنے گا‘ لیکن خواہشات پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ ہم جیسے بے نشان لوگوں کی آخری جائے امان ہے۔ 
گزشتہ روز دوستوں نے ایک لمبی بحث کے بعد متفقہ فیصلہ سنایا کہ ان ہائوس تبدیلی آ رہی ہے اور اس کے لیے انہوں نے میاں صاحبان کے ایک چہیتے لیکن آج کل کچھ ناراض ناراض سے پوٹھوہاری کا نام لیا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اس مغرور اور متکبر شخص کا نام لوگوں کو بھگانے کے کام تو آ سکتا ہے اکٹھا کرنے کے کام نہیں آ سکتا۔ آپ لوگوں کا سارا تھیسس اور کہانی اس نام کے آتے ہی ختم ہو گئی ہے۔ 
مجھے ڈاکٹر توقیر شاہ کو زیادہ جاننے کا دعویٰ تو نہیں مگر میرے بہترین علم کے مطابق ڈاکٹر توقیر ایک انتھک‘ محنتی‘ سمجھدار‘ متحمل‘ بردبار اور ایماندار افسر ہے۔ اپنا کام کرنا جانتا ہے اور دبائو میں بھی اعصاب قابو میں اور مزاج ٹھنڈا رکھتا ہے اور حد سے آگے نہیں بڑھتا جب تک اسے اشارہ نہ ملے۔ اس کی شخصیت اور انداز کار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ وہ بالا ہی بالا کچھ احکامات دیتا۔ اگر اس کی قربانی دی گئی ہے تو پھر معاملہ دوسرا ہے وگرنہ یہ ممکن نہیں کہ ڈاکٹر توقیر تو قصوروار ہو اور خادم اعلیٰ بے قصور۔ 
اور ہاں ایک اور خبر جو اس سارے شور شرابے میں دب گئی ہے‘ وہ ہے ڈاکٹر ارسلان کی بطور چیئرمین بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ تعیناتی۔ چیف جسٹس زادے کی اس سے بہتر مقام پر تعیناتی روئے ارض پر ممکن نہیں تھی۔ گزشتہ چند سالوں میں ان کی ذاتی سرمایہ کاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہوشربا مالی ترقی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص ہیں۔ گمان غالب ہے کہ اب ان کی کاوشوں اور صلاحیتوں کے طفیل بلوچستان میں سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں گے۔ میری دعا ہے کہ بلوچستان کے مالی معاملات بھی ڈاکٹر ارسلان کی طرح دن دو ہزار گنا اور رات چار ہزار گنا ترقی کریں۔ آمین! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved