تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     22-06-2014

شہباز شریف کے آنسو

ایک ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔یہ اﷲ کی آخری کتاب کا فیصلہ ہے، دوسری رائے کا تو سوال ہی نہیں۔ سوالات البتہ دوسرے ہیں اور ان کا تعلق عقلِ عام سے ہے۔
1۔کوئی سیاسی حکومت، جو اتفاق رائے کی تلاش میں ہے، ایک ایسے سانحے میں کیسے ملوث ہو سکتی ہے، جس میںاس کے لیے سراسر خسارہ تھا؟
2۔اس واقعے کا تمام تر فائدہ کسے پہنچا اور کون تھا ،سارا نقصان جس کی جھولی میں آیا؟
3۔ ایک طرف طاہرالقادری صاحب کا بے کنار جوش ہے اور دوسری طرف شہباز شریف کے آنسو۔ قوم کس کا اعتبارکرے؟
پولیس اس حادثے کی براہ راست ذمہ دار ہے۔ گلو بٹ کی قیادت میں ، اس نے جو کیا، ساری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کے باوجود ہم آئی جی کو نیک نام کہتے اور انہیں الزام دینے سے گریزاں ہیں۔ اگر اُس حسن ظن کا ایک قطرہ شہباز شریف کے لیے ہو تو شاید ہم دوسرا پہلو بھی دیکھ سکیں، آئی جی کے لیے جس کے دریا بہائے جارہے ہیں۔
انقلاب کا پُرامن جد و جہد سے کوئی تعلق نہیں۔ میں انسانی تاریخ کے کسی انقلاب سے واقف نہیںجو پُرامن رہا ہو۔ انقلاب کی قیمت انسانی لہو ہے۔ جتنا لہو بہتا ہے، انقلابی اتنا ہی سر خرو ہوتے ہیں۔ اہل انقلاب کے افکار اور سوانح دونوں اس کے گواہ ہیں۔ کوئی چاہے تو ماؤ اور لینن کو پڑھ لے۔ چی گویراکے حالات زندگی پر ایک نگاہ ڈال لے۔ سب متفق ہیں کہ انقلاب اسی وقت آئے گا، جب لہو بہے گا۔اسلام کو جب 
سے لوگوں نے انقلاب سمجھنا شروع کیا ہے، ''مسلح جد وجہد‘‘ اس انقلاب کا ایک مرحلہ قرار پایا ہے۔ راسخون فی العلم تو بچ نکلے، دوسروں نے انسانی لہو کو اسلامی انقلا ب کی ناگزیر ضرورت بنا دیا۔ جناب طاہر القادری بھی انقلاب برپا کرنے نکلے ہیں۔ ان کی تمام تقاریر کا جائزہ لیجیے۔ وہ اہل اقتدار کو روز اوّل سے یزیدی قوت قرار دیتے ہیں۔پچھلوں نے انہیں طاغوت کہا۔ اس علم کلام کے چند نتائج بدیہی ہیں:یہ حق و باطل کا معرکہ ہے۔ ایک طرف یزیدکی نمائندگی ہے اور دوسری طرف اسوۂ حسینی ہے۔ اب یہ مسلمان عوام نے سوچنا ہے کہ وہ یزید کے پیروکاروں کے ساتھ ہیں یا حسینی فوج کے ساتھ؟یہ ' سیاسی اسلام‘ ہے۔ اس فکر کے موسسِ اول نے1977ء میں پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے مابین تقسیم کو اسی حوالے سے دیکھا اورفرمایا: جواس معرکے میں قومی اتحاد کا ساتھ نہیں دے گا اور گھر میں بیٹھا رہے گا، اس کی مثال غزوہ تبوک کے منافقین جیسی ہے۔
آج بد قسمتی سے پھر اس سوچ کا احیاء ہو رہا ہے۔ طاہرالقادری صاحب نے پہلے پیپلز پارٹی کو یزیدی قوتوں کا نمائندہ کہا، پھر ان سے معاہدہ کر لیا۔ سیدنا حسینؓ کا اسوہ تو کچھ اورتھا:'' سر داد نہ داد دست، دردست یزید‘‘۔اب علامہ صاحب نے موجودہ حکومت کو'منصبِ یزید‘پر بٹھا دیاہے۔ اس کے ساتھ،اپنے کارکنوں کی ذہنی اور نفسیاتی تشکیل اس طرح سے کی کہ وہ گویا حسینی قافلے کے مجاہد ہیں۔انہیں سر پر کفن پہن کر نکلنا اور جامِ شہادت نوش کر نا ہے۔ وہ خود بھی اپنے بارے میں یہی کہہ چکے: انقلاب یا شہادت۔
دور حاضر میں اس مقدمے کی پذیرائی کا کوئی امکان نہیں۔ ہم مسلمانوں کے ایک معاشرے میں جی رہے ہیں۔ ہم میں اچھے ہیں اور برے بھی۔ تاہم کوئی حسین ہے اور نہ کوئی یزید۔ یہ جمہوری دور ہے۔حکمران عوام کی رائے سے منتخب ہوتے ہیں۔ آزادیٔ رائے کو سماجی قدر کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ میڈیا پر حکمران صبح شام زیر بحث آتے ہیں۔ ان کے محاسن کم اور خرابیاں زیادہ بیان ہوتی ہیں۔ طاہرالقادری صاحب کو دھرنے کی بھی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد سماج میں کسی انقلاب کی ضرورت باقی ہے نہ اس کے لیے کوئی جوش و خروش پا یا جا تاہے۔ طاہرالقادری صاحب کے معاملے میں رائے عامہ متردد ہے یا متشکک۔ ضربِ عضب کا آغاز ہوا تو وہ پس منظر میں چلے گئے۔ انقلاب نمو سے پہلے ہی دم توڑنے لگا کہ اچانک سانحۂ لاہور نے قادری صاحب کو مرکز نظر بنا دیا۔ ہر چینل پر ان کا چہرہ۔ طویل انٹرویو۔ خبروں میں صرف وہی۔ جب ان کے کارکن مارے گئے تو تمام تر مظلومیت بھی ان کے حصے میں آئی۔ انقلابیوں میںجان پڑ گئی۔ انقلاب کو انسانی لہو مل گیا اور وہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، بہر حال جی اٹھا ۔ 
شریف خاندان ، سیاست دان ہے اور پس منظر کے اعتبار سے تاجر۔ تجارت اور سیاست ، دونوں کبھی بد امنی اور تشدد کو پسند نہیںکرتے۔ تجارت متقاضی ہے کہ سرمایہ پھلے پھولے۔ یہ صرف پُرامن حالات میں ممکن ہے۔ سیاست بھی اُسی وقت آگے بڑھتی ہے جب سیاسی استحکام ہو۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت حکومت کو رہتی ہے۔ اس لیے کوئی حکومت بھول کر بھی فساد کی تمنا نہیں کرتی۔سیاست کامبتدی بھی یہ جانتا ہے۔تو کیا وہ نہیںجانتے جو تین بار وزیر اعظم بنے اور موت کی کوٹھڑی سے ایوان اقتدار تک پہنچے؟ بھٹو صاحب کے مزاج میں تشدد تھا۔ اس کا سبب ان کا پس منظر ہے۔ جاگیردارانہ۔ شریف خاندان کے ہاں تشدد نہیں ہے تو اس کا بھی ایک پسِ منظر ہے: تجارت۔میں سیاسیات کا ایک طالب علم ہوں۔ میرے لیے یہ باور کرنا آسان نہیں کہ شہباز شریف نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ 
میں اس لیے ان کے آنسوؤں پر اعتبار کرتا ہوں۔ لاشیں ان کی ضرورت نہیں ہیں۔ اس حادثے نے انہیں ایک نئی آزمائش سے دو چار کر دیا ہے۔ ضرب عضب کے آغاز سے انہیں جو حمایت حاصل ہو رہی تھی، وہ خطرات میں گھر گئی ہے۔ جس حادثے کے تمام منفی ثمرات ، ان کی جھولی میں گھر ے ہوں، وہ بقائمی ہوش و حواس اس کا ارتکاب نہیںکر سکتے۔ تاہم اس میںکوئی شبہ نہیں کہ یہ واقعہ ان کی بدترین سیاسی اور انتظامی نا اہلی کا مظہر ضرور ہے۔ رانا ثناء اﷲ صاحب اور سعد رفیق نے اس واقعے کی یہ تعبیر کی کہ حکومتِ پنجاب اور عوامی تحریک اس واقعے کے دوفریق ہیں۔ یہ تعبیرسیاسی بے بصیرتی کی دلیل ہے۔ ن لیگ کو چاہیے تھا کہ وہ اس حادثے کا فریق بننے کی بجائے، خود کو اس کے متاثرین میں شامل کر تی۔اس کا مؤقف تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ دراصل مظلوم ہے۔ فریق بننے کے بعد وہ ظالم قرار پائی۔ مظلوم تو وہی ہوگا جس کے گھر لاشیں پڑی ہیں۔سیاست کی ایک لاش ن لیگ کے صحن میں بھی پڑی ہے لیکن وہ کسی کو دکھا نہیں سکے۔ یہ واقعہ بدانتظامی کا شاہکار اس لیے ہے کہ صوبائی انتظامیہ چند سو مظاہرین کو قابومیں نہیں لا سکی۔ اے سی درجے کا کوئی اہل افسر اس طرح کے واقعات سے، بغیر خون بہائے نمٹ سکتا ہے۔ کیسی انتظامیہ ہے جس نے چھوٹی سی بات پر گیارہ انسانی جانیں لے لیں؟شہباز شریف سیاست دان ہیں۔ وہ کب جانیں گے کہ سیاسی امور کی تفہیم کے لیے انتظامی ذہن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ 
شہباز شریف صاحب کی سلامتی اب اسی میں ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری گلو بٹ بے نقاب ہوں۔ یہ معلوم ہو کہ کس کے حکم پر کس نے گولی چلائی اور پہلی گولی کہاں سے چلی؟تجزیے کے لیے بھی انصاف چاہیے ۔اگر انقلاب کی نفسیات اور موجودہ سیاسی پسِ منظر سامنے ہو تو دوسرا رخ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اور پھر شہباز شریف کے لیے حسنِ ظن کے چند قطرے، کم ازکم اتنے، جتنے آنسو انہوں نے بہائے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved