تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     22-06-2014

اخلاقی انحطاط

ہمارہ معاشرہ بتدریج اخلاقی انحطاط کا شکار ہو تا چلا جا رہا ہے اور انانیت ،خودپسندی اور عدم برداشت پر مبنی رویوں کو زندگی کے تمام شعبوں میںواضح طور پرمحسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ہم جو چیز اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں‘ وہ دوسروں کے لیے ناجائزاور جو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اسے غیروں کے لیے غلط تصور کرتے ہیں ۔
اس سارے طرزعمل کی بہت بڑی وجہ دینی اور روحانی تعلیمات سے دوری ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںا بلیس کا ذکر کیا جو باوجود مسلسل عبادت و ریاضت کے‘ خود پسندی کا شکار ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے کاحکم دیا لیکن اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا اور واضح طور پر اپنے آپ کو آدم علیہ السلام سے افضل قرار دیا ۔اپنی خود پسندی کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم ہو گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون اور نمرود کواقتدار اور حکومت عطا کی تھی جو اقتدار اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے خبط کا شکار ہو کر خود کو پروردگار سمجھنا شروع ہو گئے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو عبرت ناک انجام سے دو چار کر دیا اور ان کے ہلاکت خیز انجام کے تذکروں کو قرآن مجید میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا تاکہ رہتی دنیا تک انسان اس حقیقت سے باخبر رہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے عارضی عروج کی وجہ سے انسان کو اپنے پروردگار کی یاد سے غافل نہیں ہو جانا چاہیے ۔
آج ہمارا معاشرہ اس حد تک خود پسند ہو چکا ہے کہ جس کے پاس تھوڑا سا اقتدار یا وسائل آجاتے ہیں وہ پروردگار کو یکسر فراموش کر دیتا ہے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے ساتھ کیڑوں مکوڑوں والا سلوک کرنا شروع ہو جاتا ہے ۔ تکبر اور خودپسندی کا منفی اورمنطقی نتیجہ ظلم اور ناانصافی کی شکل میں نکلتا ہے ۔متکبر انسان کبھی بھی دوسرے انسان کے ساتھ رحم اور حق پر مبنی سلوک نہیں کرتا ۔تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ فاتحین کی اکثریت نے مفتوح قوموں کے ساتھ غیر انسانی رویے اپنائے اور مخالف افواج کے ساتھ عام عوام بھی فاتحین کے مظالم سے محفوظ نہ رہ سکے، مخالفوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گے ،عورتوں کی عزتوں کو لوٹا گیا ، معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا اور بزرگوں کی پیرانہ سالی اور کمزوری کی پروا کیے بغیر ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔انسانوں نے انسانوں کے ساتھ حیوان سے بدتر سلوک کیا اور اپنی آتش ِانتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تمام اخلاقی ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دیں ۔
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے نبیوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت کو حوصلے کے ساتھ برداشت کیا اور فتحیاب ہونے کے باوجود عفوودرگزر کے مسلمہ اصولوں کو برقرار رکھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے سوتیلے بھائیوں کی شقاوت اور بے رحمی کا نشانہ بنے۔ اپنے گھر والوں سے بچھڑ کر چھوٹی سی عمر میںوطن سے دور زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، اپنی پاک دامنی کا دفاع کرتے ہوئے آپ ؑکو قید خانے میں زندگی کے قیمتی ماہ و سال گزارنا پڑے۔ ان تمام تکالیف کوآپ نے صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی طرف سرفرازی کے ساتھ ساتھ آپ ؑکو دنیاوی عروج اور حکمرانی بھی عطا فرما دی۔ عالمی قحط کا مقابلہ آپ ؑنے حسن ِتدبیر کے ساتھ کیا اور پوری دنیا جب قحط کی زد میں آگئی تو آپ ؑکے زیر انتظام چلنے والی مصر کی حکومت اقتصادی اعتبار سے انتہائی مضبوط ہو چکی تھی۔ پوری دنیا کے لوگ قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر سے رجوع کر رہے تھے ۔ایسے عالم میں آپ ؑسے بچپن اور جوانی کی خوشیاں چھیننے والے آپ ؑکے سوتیلے بھائی جب آپ ؑکے پاس مجبور اور مقہور ہو کر آئے تو آپ نے ان سے انتقام لینے کی بجائے ان کو معاف کر دیا ۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اہل مکہ نے دشمنی اور تعصب والا سلوک روا رکھا۔ آپ ﷺ کی صداقت اور امانت کو سمجھنے کے باوجود آپﷺ کو جھٹلاتے رہے، آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپﷺ کو پتھروں کا نشانہ بنایا گیا، آپ ﷺ کے وجود اطہر کو لہورنگ کیاگیا ،آپ ﷺکو مکہ کی سرزمین سے ہجرت کرنے پر مجبورکر دیا گیا،مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے باوجود آپﷺ پر متواتر جنگوںکومسلط کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ اُدھیڑ عمر میں تلوار اٹھانے پر مجبور ہوئے، 54 بر س کی عمر سے لے کر 62برس کی عمر تک آپ ﷺ میدان جنگ میں کفار کے ظلم و بربریت کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس سارے معاندانہ رویے کے باوجود جب اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید اور نصرت کے ساتھ آپ ﷺ فاتح کی حیثیت سے سرزمین مکہ میں داخل ہوئے توآپﷺنے انتقامی رویہ نہیں اپنا یا بلکہ دشمنی پرآمادہ تمام لوگوں کو معاف کر دیا۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے سوتیلے بھائیوں کو معاف کیا لیکن حضور ﷺ نے ہر کس و ناکس کی زیادتی کو نظر انداز فرما کر تاریخ میں عفوودرگزر کی روشن ترین مثال فرمادی۔زمانہ جاہلیت میںلوگ گھوڑا آگے بڑھانے اور پانی ایک دوسرے سے پہلے پینے پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جایاکرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے انسانی جان کو یوم عرفہ اور حرم مقدس کی طرح مقدس اور محترم قرار دے کر ایک دوسرے کا احترام کرنے کا درس دیا ۔قرآن مجید نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیااور ایک انسان کی حفاظت کو پوری انسان کی زندگی سے تعبیر کیا ۔ یہ مقام تاسف ہے کہ آج رسول اللہﷺکے نام لیوا مسلمان دوبارہ ایمان اوراسلام کی روشنی کو پس پشت ڈال کر زمانہ جاہلیت کے اندھیروں کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ ایک گروہ دوسرے گروہ اور ایک جماعت دوسری جماعت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ معاملات حق اور انصاف کی بجائے تعصب ،پسند اور ناپسندکی بنیاد پرچلائے جا رہے ہیں ۔
کل تک لال مسجد کے آپریشن کو درست قرار دینے والے آج ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو غلط قرار دے رہے ہیں اور آج ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو درست قرار دینے والے کل تک لال مسجد کے مقتولین کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگتے رہے۔ احتجاج کو عوام کا حق قرار دینے والے کل تک احتجاج کو بغاوت سے تعبیر کرتے رہے ہیں اور کل تک ریاست کی رِٹ کی بات کرنے والے آج اداروں کے فیصلوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ہر شخص اور گروہ اپنے موقف کو درست اور غیر کے موقف کو باطل قرار دے رہا ہے ۔اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں کہ نہ تو کسی کی دشمنی کی وجہ سے انسان کو عدل و انصاف کا دامن چھوڑنا چاہیے اور نہ ہی کسی کی محبت کی وجہ سے کسی کی حق تلفی کرنی چاہیے ۔ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے چاہے حق کی بات انسان کے ذاتی نقصان پر ہی کیوں نہ منتج ہو۔ ہمارے معاشرے کو اخلاقی انحطاط سے نکالنے کی ذمہ داری اس وقت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ذمہ دار افراد پر عائد ہوتی ہے۔ گھر میں والدین ، سکول میں اساتذہ ،مساجد میں علماء اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران کو خصوصی دلچسپی لے کر لوگوں کی اخلاقی تربیت کرنی چاہیے اور ان کو حق شناسی اور حق پرستی کا درس دینا چاہیے۔اگر معاشرے کے چاروں ارکان اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کریں تو معاشرہ موجودہ اخلاقی زوال سے باہر نکل سکتا ہے اور ہم تمام شعبہ ہائے زندگی میں عدل و انصاف کرنے والے افراد کی قیادت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں ۔ اگر ان ارکان نے اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری میں غفلت کی تو آنے والے ادوار میں ہماری تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہماری اپنی بداخلاقی اور بدکرداری بن جائے گی۔ تاریخ نے ہمیں سبق سکھایا ہے کہ بد اخلاقی اور بدکرداری کا ارتکاب کرنے والی اقوام کا تذکرہ اور داستانیں تو باقی رہ جاتی ہیں‘ ایسی اقوام باقی نہیں رہتیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved