تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-06-2014

انسانی دماغ کے اسرار

انسانی ذہن کی شان و شوکت اور اس کے اسرار"Marvels and mysteries of human mind" ۔ شاندار کتاب ہے ۔ پہلا حصہ ہے ''پر اسرار انسانی ذہن‘‘۔اس کے ذیلی عنوانات فلسفے کی طرف مائل ہیں۔ یہ نہیں کہ مندرجات غلط ہیں لیکن بحث اور اختلاف کی گنجائش بہرحال باقی ہے ۔ انتہائی دلچسپ حصہ دوسرا ہے۔"The geography of the brain" یعنی دماغ کی تشکیل یا اس کی ساخت۔ یہ ثابت شدہ سائنسی حقائق پہ مشتمل ہے ۔ 
انسانی دماغ پہ سلیٹی رنگ کا ایک چوتھائی انچ کا چھلکا تہہ در تہہ موجود ہوتاہے ۔ عام طور پر دماغ کی جو تصاویر دیکھنے میں ملتی ہیں ، ان میں یہی سب سے نمایاں ہوتاہے ۔ بنی نوع انسان کے علاوہ، کسی دوسرے جانور میں اس کی مقدار اور معیار ایسا نہیں۔ سائنسدانوں کی اکثریت یہ یقین رکھتی ہے کہ ہماری اعلیٰ صلاحیتوں بشمول بولنا اور لکھنا، تجزیہ اور منصوبہ بندی میں اس کا کردار سب سے نمایاں بلکہ شاید کلیدی ہے ۔ تحقیق کے خواہشمند سیریبرل کارٹیکس (Cerebral Cortex)کے نام سے اسے تلاش کر سکتے ہیں ۔ 
قارئین کی آسانی کے لیے میں چند بنیادی حقائق بیان کر دوں ۔ دماغ اور اس سے جڑی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کو مجموعی 
طور پر نروس سسٹم یا اعصابی نظام کہا جاتاہے ۔ ریڑھ کی ہڈی ہی سے تاروں (Nerves)کے گچھے تمام جسم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انہی تاروں کی مدد سے ہم حرکت کرتے ہیں ۔ تاروں کا ایک اور نظام خون کی شریانوں کی صورت میں جسم کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے لیکن وہ اس وقت موضوع نہیں ۔ فرض کیجیے ، مجھے اپنا انگوٹھا ہلانا ہے تو دماغ سے ایک برقی یا کیمیائی پیغام ریڑھ کی ہڈی اور پھر اس سے منسلک تاروں کے ذریعے انگوٹھے تک جائے گا۔ پیغامات دو طرفہ ہوتے ہیں ؛لہٰذا انگوٹھا بھی دماغ سے رابطہ کر سکتاہے ۔ مثلاً اگر اس میں کانٹا چبھ جائے تو فوراً وہ ریڑھ کی ہڈی اور اس کے ذریعے دماغ تک اپنی فریاد پہنچاتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محبوب کا ہاتھ تھامنے سے لے کر وصل کی ساری داستان رابطے کے اسی سائنسی نظام پہ استوار ہے ۔
پلک جھپکنے سے بھی قبل دماغی خلیات جسم سے آنے والی اطلاعات موصول، ان کا تجزیہ اور پھر فیصلہ کرتے ہیں ۔یہ خلیات ایک دوسرے سے کرنٹ کی مدد سے رابطہ کرتے ہیں ۔ جی ہاں ، وہی کرنٹ جو بجلی کی تاروں میں دوڑتا ہے ۔ کرنٹ کے اس نظام میں خلل پیدا ہو جانے سے انسان مرگی اور دوسری شدید تکلیف دہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ 
چند ہفتے قبل ایک عوامی تفریح گاہ میں بدقسمتی سے میں ایک خطرناک جھولا موشن رائیڈ (Motion Ride)لے بیٹھا۔ وہاں جسم کو اس قسم کے جھٹکوں سے واسطہ پڑا کہ میری کمر میںایک نرو دب گئی اور نتیجہ حیران کن تھا۔ بائیں پائوں کی دو انگلیاں سن ہو گئیں ۔ دراصل ریڑھ کی ہڈی سے نکلنے والی ایک نرو دب جانے سے ان دو انگلیوں کا رابطہ دماغ سے منقطع ہو چکا تھا۔ 
نیورو سائنسدان پال میکلین انسانی دماغ کو تین دماغوں کا مجموعہ کہتے ہیں اور یہ بے جا نہیں ۔ ریڑھ کی ہڈی کا سب سے اوپر والا حصہ برین سٹیم کہلاتاہے ۔ یہ جسم کو ان سرگرمیوں کا حکم دیتا ہے ، جو زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازم وملزوم ہیں ۔ پھیپھڑوں کو یہ سکڑنے اور پھیلنے کا پیغام دیتاہے ۔دل دھڑکانا اسی کی ذمّے داری ہے ۔معدے سے غذا ہضم کروانا بھی۔ کچھ بنیادی جبلّتیں جیسا کہ مخالف جنس میں کشش ، بھوک اور موت کا خوف بھی یہیں چھپا ہے ۔ پال میکلین دماغ کے اس حصے کو ریپٹیلین کہتاہے ۔ اس لیے کہ رینگنے والے جاندار یعنی ریپٹائلز مثلاً سانپ کا کل دماغ اتنا ہی ہوتا ہے ۔ 
ایک سانپ آپ کو کبھی جذباتی دکھائی نہیں دے گالیکن میمل کہلانے والے بڑے جانور مثلاً کتّے مختلف ہیں۔ وہ انعام پانے کے لیے کرتب دکھاتے اور اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ انہیں تربیت دے کر شکار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی پولیس جرمن السیشئن کتے کو بارود کی بوسونگھنے اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ یہ سب لمبک سسٹم کہلانے والے دماغ کے اس حصے کی بنا پر ہے جو کہ پیچیدہ جذبات کا مرکز ہے۔ ریپٹائلز یعنی سانپوں وغیرہ میں یہ ٹھیک طرح سے بن نہیں پایا۔ یہ حصہ اگر درست طور پر کام نہ کرے تو جذبات متاثر ہوں گے ۔ اس صورت میں عین ممکن ہے کہ ایک بچّہ کھیل کود میں دلچسپی کھو دے ؛حتیٰ کہ ماں کی ممتا تک متاثر ہو سکتی ہے۔ لمبک سسٹم کو پال میکلین دوسرا دماغ کہتے ہیں ۔ 
تیسرا دماغ سب سے اوپر اور باہر کی طرف واقع ہے ۔ دوسرے حصوں کے علاوہ اس میں وہی سلیٹی رنگ کا چھلکا نمایاںہے ، جس کا ابتدا میں ذکر کیا تھا۔ یہ غو ر وفکر کرنے والا دماغ (Reasoning Brain)ہے ۔ وہ عقل یہیں موجود ہے، جس کی بنیاد پر ایٹم بم سے لے کر خلائی راکٹ تک ، تمام شاندار انسانی ایجادات وجود میں آئیں۔یہ وہی عقل ہے ، خدا نے جسے تخلیق کرنے کے بعد اس پہ ناز کیا اور یہ کہا تھا: جو بھی کسی کو دوں گا، تیرے طفیل اور جو کسی سے لوں گا ، تیری وجہ سے۔ اسی عقل کی مدد سے ہم کائنات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس اخلاق اور معاشرتی اصولوں کا دھارا بھی یہیں سے پھوٹتا ہے ، جو جانوروں میں ناپید ہے ۔ یہی وہ دماغ ہے ، ساری زندگی جو عقل کو جبلّت پہ غالب رکھنے میں ہماری مدد کرتاہے لیکن جبلّت طاقتور بہت ہے۔ محض اپنی قوت کے بل پر انسان اسے ہرا نہیں سکتا۔ صرف وہی لوگ اس میں کامیاب رہتے ہیں ، خدا کو جو مسلسل پکارتے رہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved