فرض کریں‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کوئی تحریک نہیں چلا سکتے۔ فرض کریں‘ وہ سیاست کی شاطرانہ چالیں نہیں سمجھتے۔ فرض کریں‘ ان کی ''چھوٹی سی جماعت ‘‘ ریاستی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ فرض کریں‘ ان کی تحریک گزشتہ سال کے دوران چلنے والی تحریکوں کی طرح دم توڑ دیتی ہے۔ کیا اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟ پاکستان کے تمام سیاسی لیڈروں میںڈاکٹر طاہرالقادری کو یہ سمجھانا کہ وہ پرامن رہیں‘ سب سے زیادہ آسان تھا۔ وہ سیاستدان‘ جو اسلام آباد کے اندر انتہائی سخت موسم میں ‘ ہزاروں افراد کا دھرنا ‘ کئی دنوں اور راتوں تک مسلسل جاری رکھ سکتا ہے۔ جسے کھلے راستے فراہم کر کے‘ پنجاب کی صوبائی حکومت نے‘ اسلام آباد تک آرام سے ہزاروں افراد جمع کرنے کی سہولت مہیا کی ہو۔ حکومت کے خلاف ہر قسم کی اشتعال انگیزی پر جسے خوب شہ دی گئی ہو اور جو اپنی سمجھ کے مطابق‘ عدالت عظمیٰ کے کسی اقدام پر‘ بچوں کی طرح خوش ہو کر حاضرین کو مبارکیں دینا شروع کر دیتا ہو۔ جو چیف جسٹس افتخار چوہدری سے‘ ان کی سوچ کے متضاد فیصلے کی امیدیں لے کرعدالت میں گیا ہو اور امیدیں پوری نہ ہونے پر اپنے خیالات بدل چکا ہو، جو اپنے کئی روزہ شب و روز کے دھرنے کی کامیابی پر ‘ اعتماد کے پہاڑ پر جا بیٹھا ہو‘ اسے زرداری حکومت نے سیاسی مذاکرات پر مائل کر کے‘ ایک تنکے کا نقصان اٹھائے بغیر منتشر کر دیا ہو۔ کیا اس کی احتجاجی تحریک سے نمٹنا مشکل کام تھا؟ میں عرض کروں گا کہ بالکل نہیں تھا۔
جس جماعت کے لیڈر نے‘ تمام زندگی اقتدار کے سائے میں گزاری ہو، جس نے اپنی سیاست‘ حکمرانوں کی سرپرستی کی امید میں شروع کی ہو، جس نے بے مثال انتخابی شکست کھانے کے بعد‘ سیاست سے بیزاری کا اظہار کر دیا ہو اور مایوس ہو کردیارغیر میں، قسمت آزمائی کرنے چلا گیا ہو۔جو ملکی حالات کو دیکھ کر‘ اپنی تازہ تازہ خوشحالی کے بل بوتے پر‘ قابل ذکر سیاسی مقام حاصل کرنے کی خاطر واپس آنا چاہتا ہو‘ وہ کسی بھی حکومت کے لئے چیلنج کیسے بن سکتا ہے؟ شریف خاندان کے لئے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔گہرے تعلقات میں خرابی آ جائے تو ان میں بگاڑ بھی گہرا ہوتا ہے،لیکن طاقتور فریق ‘ذرا سی گنجائش بھی پیدا کر دے تو تعلقات نہ صرف دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں بلکہ پھر سے وہی گرم جوشی لوٹ سکتی ہے۔ شریف خاندان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مابین‘ بے شمار معاملات میں ہم آہنگی ہے۔ عقیدے کی، مذہبی خیالات اور تصورات کی، میاں محمد شریف مرحوم کے ساتھ عقیدت و محبت کی۔ ایک منجمد یا ٹوٹے ہوئے رشتے کو دوبارہ جوڑنے کے لئے یہ چیزیںبہت کافی ہیں۔ بگڑے ہوئے مولوی اور محبوب کو منانا دنیا کا آسان ترین کام ہوتا ہے۔ شریف خاندان کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری بیک وقت دونوں تھے... مولوی بھی اور محبوب بھی۔ یہ شریف برادران کی سیاست کا کمال ہے کہ انہوں نے ایسے شخص کے اندر بھی اپنے لئے بدترین سیاسی مخالف ڈھونڈ نکالا‘ جو حقیقت میں ایک رنجش کی شاخ نازک پہ بیٹھا تھا۔
ڈاکٹر صاحب آج بھی جب شدید اشتعال کی حالت میں‘ شریف خاندان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہیں تو آسانی سے نوٹ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس تعلق کی گہرائیوں سے نکلنے میں‘ دقت اور درد محسوس کر رہے ہیں۔ یہیں تک لکھا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انتظامیہ کی ساری طاقت کو شکست دے کر لاہور میں جہاز سے اترنے کی جو شرط رکھی‘ وہ یہ تھی ''گورنر پنجاب مجھے ایئرپورٹ سے اپنی گاڑی میں بٹھا کر میرے گھر لے جائیں تو میں اترنے کو تیار ہوں۔‘‘ ہا ہا ہا! (شکر ہے آئس کریم نہیں مانگی) حقیقت میں وہ اسی نفرت و حقارت کے زخم خوردہ ہیں جس نے شریف برادران کے بے شمار پرانے ساتھیوں کو دور کر رکھا ہے۔ ساہیوال کے ممتاز حسین مرحوم‘ میاں صاحب کے ان سیاسی ساتھیوں میں تھے‘ جن کی دیانت شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ بطور وزیرتعلیم انہوں نے اپنے وزیراعلیٰ کی عزت میں جتنا اضافہ کیا‘ دوبارہ کوئی یہ خدمت نہیں کر پایا۔ چوہدری برادران ‘ پنجاب میں ایک سیاسی اثاثہ ہیں۔پاکستانی سیاست میں قسمت آزمائی کرنا ہماری روایت ہے۔ خود میاں صاحب تحریک استقلال سے ہوتے ہوئے‘ پگاڑا لیگ‘ پاکستان مسلم لیگ اور پھر مسلم لیگ نواز تک پہنچے۔ چوہدری برادران کی قسمت آزمائیاں قدرے زیادہ ہیں، لیکن مختلف ہرگز نہیں۔ ایسے بے شمار نام یاد کئے جا سکتے ہیں جو ایک سیاسی غلطی کر کے معتوب اور قابل نفرت ہوئے۔ آج ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھیں تو وہ اسی طرح کے گناہوں میں‘ چوہدری برادران سے بہت آگے ہیں۔ قومی سطح کے ایک لیڈر کے لئے‘ ساتھیوں کو دھتکارنے اور گلے لگانے کے معیاروں میں وسعت کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصاً مسلم لیگ جیسی جماعت کے لئے۔ مگر آج میاں صاحب کی ایک طرف سخت گیر اور دوسری طرف نرم پالیسیوں کی آمیزش نے یہ حالت کر دی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں حکومت کا موثر دفاع کرنے کے لئے بھی چوہدری نثار کے سوادوسرا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ پنجاب اسمبلی میں رانا ثناء اللہ ‘ پوری اپوزیشن سے نمٹ لیا کرتے تھے۔ انہیں بلندیوں پر پہنچانے کے بعد‘ چشم زدن میں دھکیلنے کے بعد‘ اب پنجاب میں بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی کوئی شخصیت ان کے ساتھ نہیں۔
تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد‘ بڑے میاں صاحب نے جو طرزعمل اختیار کیا ہے‘ اس کی وجہ سے ایک ہی سال کے اندر وہ اس حالت کو پہنچ گئے ہیں‘ جہاں پہنچنے کے لئے کسی بھی حکومت کو کم ازکم دوتین سال ضرور لگتے ہیں اور آصف زرداری تو 5 پانچ سال
نکال گئے۔ بے شک انہوں نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا، لیکن اپنے خلاف کوئی تحریک بھی نہیں چلنے دی۔ ایک میاں صاحب چلا سکتے تھے،انہیں جمہوریت کا ''لالی پاپ‘‘ دے کر ‘ روکے رکھا۔ یہ تو خیرجملہ معترضہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ زندگی میں‘ پہلی بار انہیں‘ اپنی طاقت اور صلاحیت پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ 90ء کے عشرے میں وہ وزیراعظم رہے یا اپوزیشن لیڈر‘ دونوں حالتوں میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور بے نظیر‘ ان دونوں پوزیشنوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ہدف رہیں۔ آج ان کی پارٹی کی وہ پوزیشن نہیں۔ پیپلزپارٹی کے کس بل ‘ زرداری صاحب نے نکال دیئے ہیں۔ دوسری کوئی پارٹی اتنی طاقتور نہیں تھی کہ وہ میاں صاحب کے لئے چیلنج بن سکتی۔ لیکن میاں صاحب نے‘ ایک سال کے اندر ایسا جادو چلایا کہ بلاشرکت غیرے اقتدار کے زمانے میں‘ دوطاقتور سیاسی حریف پیدا کر لئے۔ عمران خان نے 17سال کی سیاسی جدوجہد میں‘ وہ طاقت حاصل نہیں کی تھی جو میاں صاحب نے انہیں ایک سال میں فراہم کر دی اور ڈاکٹر طاہرالقادری ‘ جو پیار کے دو بول سے پسیج سکتے تھے اور سیاسی طاقت کبھی بن ہی نہیں سکتے تھے‘ انہیں بھی طاقتور سیاسی حریف کا درجہ دے دیا۔ آج وہ پنجاب اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے باوجود‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں اور یہ ''ترقی‘‘ ڈاکٹر صاحب کو صرف 7 دنوں کے اندر دے دی گئی۔اب وہ 7 سال تک قابو نہیں آئیں گے۔ ان کی ترجمانی کرنے والے وزیراور مشیر تو اپنی مثال آپ ہیں۔ ماڈل ٹائون میں پولیس کی گولیوں سے دس بارہ لاشیں اٹھیں تو میاں صاحب کو عجیب و غریب دلیل فراہم کی گئی کہ کراچی میں 54لاشیں اٹھنے پر احتجاج نہیں ہوا تو 13 پر کیوں ہو رہا ہے؟ کاش! اس دلیل کو قبول کرنے سے پہلے سوچ لیا جاتا کہ کراچی میں لاشیں گرانے والے ٹارگٹ کلر‘ سمگلر‘ ڈاکو‘ سیاسی جماعتوں کے مسلح غنڈے‘ بھتہ مافیا اور لینڈ گریبر ہوتے ہیں، پولیس نہیں۔لاہور میں اپنی قیام گاہوں کے اندر سوئے ہوئے مردوں‘ عورتوں اور بچوں پر بلاوجہ حملہ کر کے‘ انہیں گولیوں سے پولیس نے بھونا تھا۔ کراچی کی 54لاشوں اور لاہور کی 13لاشوں میں فرق یہ ہے کہ وہ قانون شکنوں نے گرائی تھیں اور یہ قانون کے محافظوں نے۔ تازہ ترین لطیفہ یہ ہے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری وطن واپس آ کر جہاز سے اترنا چاہتے تھے، حکومت نے زبردستی جہاز کو دوران پرواز ہی اپنے کنٹرول میں کر کے‘ پائلٹ اور مسافروں کو لاہور جانے پر مجبور کیا اور حکومتی ترجمانوں نے کہا کہ طیارہ ‘ طاہرالقادری نے اغوا کیا ہے۔ کیا میاں صاحبان نے نوٹ کیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد ان کے سارے وزیراور مشیر میڈیا کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں؟ ایک رانا مشہود نے ہمت دکھائی تھی، ٹیلیویژن کے ناظرین نے خوب دیکھی۔ 7دنوں کے اندر اندر ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک کیچوے سے‘ جس طرح اژدہا بنا دیا گیا‘ اتنی تیزرفتاری سے تو کسی بھی جاندار کا ارتقا نہیں ہوا۔ یہ اژدہا‘ اب قومی سیاست کو جس طرح تہس نہس کرے گا‘ سب دیکھتے رہ جائیں گے۔