بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی نے جہاں اپنی وزارتی کونسل کو44 (22کابینی اور 22وزرائے مملکت) تک محدود رکھ کر مثبت پیغام دیا ہے، وہیں دوسری طرف اس میں اعلیٰ ذاتوں کی اکثریت، مستقبل میں سماجی بے چینی کا سبب بن سکتی ہے۔ آئینی طور پر کوئی حکومت پارلیمان کے کل ارکان کی تعداد کا 15فیصد حصہ اپنی وزارتی کونسل میں شامل کرسکتی ہے۔ پارلیمان کے ایوان زیریں ( لوک سبھا ) کے کل ارکان کی تعداد 545ہے جس میں دو ارکان اینگلو انڈین طبقہ سے نامزد کئے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے وزارتی کونسل میں81 وزراء کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
فی الحال یہ مقولہ کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، مودی پر صادق آتا ہے۔ وہ اپنی وزارتی کونسل کو کسی بھی امکانی سکینڈل سے بچانے کی بھر پور سعی کررہے ہیں۔ان کو معلو م ہے کہ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ، خود انتہائی ایماندار تھے ، مگر ان کے وزراء اور ان کے حواریوں نے ان کی مٹی پلید کرکے رکھ دی۔چونکہ کرپٹ وزراء کا بیشتر لین دین اپنے پرائیویٹ سٹاف کے ذریعے ہوتا ہے ، اس لیے مودی نے یہ ہدایت جاری کی، کہ وزراء اپنی مرضی کا نجی اسٹاف نہیں رکھ پائیں گے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے بطور مودی کو اس بات کا ادراک ہے ، کہ پرائیویٹ سیکرٹریوں کی فوج ہی دراصل وزراء کیلئے کان اور آنکھ کا کام کرتی ہے او ر ان کے فیصلوں پر اثر نداز ہوتی ہے۔ ان کا پہلا فرمان تھا کہ وزراء چاہے کتنے ہی قد آور کیوں نہ ہوں، نجی سٹاف کابینی سیکرٹریٹ اور وزیر اعظم کے دفترکا تقرر کردہ ہوگا۔اس کے علاوہ ہر کابینی وزیر کی مدد کیلئے عموماً ایک نوجوان وزیر مملکت کی تقرری کی گئی، جو مختلف معاملات میں براہ راست وزیر اعظم کو رپورٹ کرے گا۔ اس طرح ایک کابینی وزیر کے اردگرد ایسا حصار کھینچاگیا، جو وزیر اعظم کے علم میں آئے بغیر کوئی کام نہیں کر پائے گا۔دوسری طرف دہلی میں نئی حکومت کے آنے سے کسی کا بھلا ہوا ہو یا نہ ہواہو، آج کل کباڑیوں کے اچھے دن ضرور آئے ہیں۔ مودی نے تمام سرکاری دفاتر کو صاف و شفاف اور کارپوریٹ طرز پر بنانے کا کیا حکم دیا،ہر دفتر سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے کوڑا کرکٹ، پرانا فرنیچر، ردی کاغذ، پرانے کمپیوٹرکباڑی بازار میں پہنچ رہا ہے ۔ ہر وزارت میں اس کام کے لیے باضابطہ ایک جوائنٹ سیکرٹری کو پابند کردیا گیا ہے کہ دفتر میں ردی جمع نہ ہونے پائے۔
یہ تمام اصلاحات اپنی جگہ، مودی کی وزارت میں وہ سماجی اور مذہبی توازن نظر نہیں آتا جس کا دعوی کیا جارہا تھا۔ حسب توقع نئی کابینہ میں ' اعلیٰ ذاتوں‘ کی حکمرانی ہے ۔مودی کے ہمراہ جن وزراء نے عہدہ اور رازداری کا حلف لیا ،ان میں 23کا تعلق ' اعلیٰ ذاتوں ‘ سے ہے، یعنی تقریباً نصف کابینہ ،وہ بھی اہم محکموں کے ساتھ جو پیدائشی طور پر مراعات یافتہ طبقات کے پاس ہیں ۔ ان میں سے آٹھ کا تعلق سب سے زیادہ فائق طبقہ سے ہے ،ملک کی منجملہ آبادی میں جس کا تناسب بمشکل تین تا چار فی صد ہوگا مگر حکومت میں اس کی نمائندگی اپنے تناسب سے کئی گنا زیادہ یعنی تقریبا ً 19فی صد ہے ۔ سشما سوراج ، ارون جیٹلی، کلراج مشرا ، ایچ این اننت کمار اور نتین گڈکری کابینی درجہ کے وزیر ہیں جبکہ پرکاش جاویڈکر، نرملا سیتا رمن ، اور منوج سنہا وزیر مملکت خودمختار چارج کے ساتھ بنائے گئے ہیں ۔ یہ سب برہمن طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی کامیابی نے ذات پات پر مبنی سیاست کو بحیر ہ ٔعرب میں غرق کر دیا ہے ، تاہم مودی وزرات کی ہیئت ترکیبی پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ قلعی کھل جاتی ہے ۔ روایتی ' اعلیٰ ذاتیں‘ جیسے برہمن ، چھتریہ، کائستھ، راجپوت ، ویش اور معاشی اور سماجی طور پر ترقی یافتہ طبقات جیسے لنگائیت ، مراٹھا اور ووکیلگا وغیر ہ نئی کابینہ پر غالب ہیں،ملک کی کل آبادی میں ایک تخمینہ کے بموجب جن کا مجموعی تناسب 15فیصد ہے۔ مودی کابینہ میں دیگر پسماندہ طبقات کو ،جو ملکی آبادی کا 55فی صد ہیں، فقط 13 نشستیں ملی ہیں۔ان میں پانچ کابینی درجہ کے وزیر، چار خودمختار قلمدان والے اور چار نائب وزراء کی حیثیت سے شامل ہیں۔ دلتوں کو تین کابینی برتھ ملے ہیں ان میں دو کابینی درجہ کے وزیر ہیں۔قبائلی فرقوں کے چھ وزراء مودی کابینہ میں لئے گئے ہیں جن میں سے صرف ایک کابینی حیثیت کا وزیر ہے۔
کابینہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ تمام کلیدی وزارتیں ،جو مجموعی طور پر تمام پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسے داخلہ امور ، مالیات، تعلیم، شہری اور دیہی ترقیات ، قانونی معاملات ، انصاف، سماجی بہبود، صحت ، توانائی ، مواصلات اور دیگر اہم محکمے ،تمام کے تمام ' اعلیٰ ذاتوں‘ کے تصرف میں ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بی
جے پی نے اپنی حلیف جماعتوں کو محض علامتی وزارتیں سونپی ہیں ، سوائے تیلگو دیشم پارٹی کے ،کسی کے حصہ میں کوئی اہم قلمدان نہیں آیا ہے ،جس پر حلیف جماعتوں میں ناراضی پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ نظریاتی طور پر اس کی ہم خیال اور پارٹی کی سب سے پرانی حلیف شیو سینا نے اس ' نا انصافی‘ کے خلاف سب سے پہلے صدا بلند کی ۔ سینا کے واحد وزیر اننت گیتے نے ،جنہیں بھاری صنعتوں کا قلمدان تفویض کیا گیا ، بطور احتجاج اپنا عہدہ سنبھالنے سے ابتدا میں انکار کردیا تھا ۔ بعد ازاں وہ اس پر راضی ہوگئے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ آئندہ کیا کچھ ہوسکتا ہے جب موجودہ کابینہ میں توسیع کی جائے گی۔نئی کابینہ کے تجزیہ سے یہ دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے کہ کابینہ درجہ کے 24وزراء میں سے 12کا تعلق اعلیٰ ذاتوں سے ہے جبکہ پانچ او بی سی ، دو دلت ،ایک قبائلی اور ایک مسلم چہر ہ اس کا حصہ ہیں ۔ خود مختار محکمہ والے وزرا کی فہرست بھی اسی امتیاز کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس فہر ست میں دس میں سے پانچ کا تعلق ' اعلیٰ ذاتوں‘ سے ہے ، جبکہ چار کا او بی سی اور ایک کا تعلق قبائلی فرقہ سے ہے ۔ اس فہرست میں ایک بھی دلت طبقہ کا نمائندہ نہیں ہے، تاہم 12 وزراء مملکت یا نائب وزراء کی فہرست میں چار ، چار کا تعلق قبائل اور او بی سی فرقوں سے ہے جبکہ تین ' اعلیٰ ذاتوں ‘ سے ہیں۔اس میں ایک دلت وزیر بھی شامل ہے۔ دلتوں یا مندرجہ فہرستِ اقوام (SCs)کونئی حکومت میں بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے ،جن کی مجموعی آبادی 17فی صد سے زیادہ ہے مگر مودی کابینہ میں فقط تین دلت شامل ہیں۔ ایسا نہیں کہ بی جے پی کے ٹکٹ پر دلت منتخب نہیں ہوئے ،ان کے لیے محفوظ 87پارلیمانی حلقوں میں سے 40پر بی جے پی کے اور 9اس کی حلیف جماعتوں کے دلت امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی کے رام ولاس پاسوان کو کابینی درجہ کا وزیر بنا یا گیا ہے ،اسی طرح بی جے پی کے دلت رکن تھور سی گہلوت کو سماجی انصاف کا وزیر بنایا گیا ہے۔ پاسوان کو جنہوں نے آخری لمحہ میں یو پی اے سے اپنی وفاداری ختم کرکے این ڈی اے سے رشتہ استوار کرلیا تھا، کابینی وزیر کا منصب دیا گیا ہے لیکن ان کے تجربہ اور رتبہ کے شایان شان انہیں کوئی اہم محکمہ نہیں دیا گیا ہے۔ان کے پاس امور صارفین اور رسد فراہمی کا محکمہ ہے ۔ دلتوں کے ساتھ ہوئی 'ناانصافی ‘پر احتجاج کرتے ہوئے ری پبلیکن پارٹی ( آٹھولے گروپ) کے لیڈر رام داس آٹھولے نے حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا ۔ ا نہوں نے یو پی اے سے ناطہ توڑ کر این ڈی اے میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اپنی آبائی ریاست مہاراشٹر میں بی جے پی، شیو سینا اتحاد کو کامیاب کرانے میںاہم کردار ادا کیا تھا ۔
آٹھولے نے دبے دبے الفاظ میں یہ طعنہ دیا کہ بی جے پی اعلیٰ ذاتوں کی جماعت ہے۔ جہاں تک ملک کی دوسری بڑی مذہبی اکثریت کا معاملہ ہے ،اس سلسلہ میں بی جے پی کے مسلم چہروں یعنی شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس کے برعکس عہدہ نہ ملنے کے سبب کانگریس سے رشتہ توڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والی نجمہ ہیبت اللہ کو اقلیتی وزارت سے نوازا گیا اور پرانے ' وفاداروں‘ کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ سلامتی امور کے متعلق اعلی ترین فیصلہ ساز انجمن یعنی کیبنٹ کمیٹی آن سکیورٹی میں بھی پہلی مرتبہ کسی دلت ، یا او بی سی یا مذہبی اقلیت کی نمائندگی نہیں ہوگی ۔ یہ کمیٹی داخلہ ، خارجہ ، خزانہ اور دفاع کے وزراء پر مشتمل ہوتی ہے ۔ داخلہ کا محکمہ راجناتھ سنگھ کے پاس ہے ، خارجہ امور سشما سوراج جبکہ خزانہ و دفاع دونوں محکمے ارون جیٹلی کے پاس ہیں ۔