وقت بھی ایک بے لگام جنگلی گھوڑے کی مانند ہوتا ہے۔ پکڑائی نہیں دیتا، قابومیں ہی نہیں آتا۔ عام حالات میں وقت اس نظام کے جنگل میں بے منزل اور بے سمت دوڑتا پھرتا ہے۔ زندگیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وقت کی ان وحشیانہ دوڑوں کا حکمرانوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ان کی حاکمیت کی طوالت سماجی جمودکے ایسے ہی حالات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ جہاں تحریکیں ٹھہرائوکا شکار ہوں، سماج جمود میں جکڑا ہو اور معاشرہ بے معنی اور بے مقصد ایشوز، رجحانات، تعصبات اور توہمات میں گھر کر تعفن کا شکار ہوجائے، وہاں نظریات پر قائم رہنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
تاریخ کی تمام انقلابی پارٹیوں، تحریکوں اور قیادتوںکو اس قسم کے کٹھن حالات سے پالا پڑتا رہا ہے۔ یہ وقت اور زمانے کا انقلابیوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسے ادوار میں انقلابی مارکسزم کے نظریات پر مبنی وسیع عوامی پارٹیاں نہیں بن سکتیں ، لیکن ''اچھے‘‘ معروض کا انتظارکرنا بھی ایک جرم ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی انقلابی قوتِ تعمیرکٹھن تو ہوسکتی ہے، نا ممکن نہیں ۔ تاریخ کا دھارا اتنا بے سمت اور بے ترتیب بھی نہیں ہوتا، لمبے اور صبر آزما وقفوں کے بعد ہی سہی لیکن ایسے غیر معمولی ادوار بھی آتے ہیں جب محنت کش عوام انقلابی تحریکوں میں اٹھ کر وقت کے سرکش گھوڑے کو قابو کرنے کی سرکشی کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر انقلابی پارٹی کی شکل میںدرست قیادت میسر آجائے تویہی وقت لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا تاریخ کے انتہائی کٹھن سفر بھی طے کروا دیتا ہے۔
انسانی سماج کا ارتقائی عمل ہزاروں لاکھوں سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ایک انسان کی زندگی چند دہائیوں سے زیادہ نہیں ہوتی اور تحریکیں بھی روز روز نہیں ابھرتیں۔ درمیانے طبقے کی بے صبری کی نفسیات انہی بنیادوں پر جنم لیتی ہے۔ جمود اور ٹھہرائو کے عہد میں بعض اوقات بہت بڑے انسان اور نظریات بھی بظاہر چھوٹے اور بے معنی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ انہی حالات میں نام نہاد ''روشن خیال‘‘ دانش بھی مایوسی اور پسپائی کا رخ اختیارکرکے ترمیم پرستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس انحراف کو'نئے‘ نظریات اور'جدید‘فلسفے کی تلاش اورتخلیق کا نام دیا جاتا ہے، لیکن اس قماش کے دانشور دراصل اصلیت پسندی، حقیقت پسندی اور'انوکھے‘ نظریات کی تلاش میں سینکڑوں سال پرانے اور متروک نظریات کی قبرکشائی کررہے ہوتے ہیں۔ نظریات کو'عام فہم‘ بنانے کے نام پر ان کو مسخ کیا جاتاہے۔ اپنی کمزوری اور بھگوڑے پن کی توجیہات تراشی جاتی ہیں۔'آج کے فوری مسائل‘کو محوربنا کر اسی نظام سے مصالحت کا درس بڑی عیاری سے دیا جاتا ہے۔ لینن نے اس قسم کے رجحانات کے خلاف لکھا تھا کہ ''یہ اکتائے ہوئے افراد اسٹیجوں پر چڑھ کر تقریریں کرتے ہیں کہ وہ 'پرانے‘ نظریات سے اکتا گئے ہیں، جوں جوں ان کا پردہ چاک ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ غلیظ چیتھڑے ہیں جوٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں‘‘۔(لینن مجموعۂ تصانیف؛ جلد نمبر17؛ صفحہ 72-71)
آج پاکستان میں بھی ایسے ہزاروں افراد ہیں جوماضی میں کمیونزم اور مارکسزم کے بڑے دعویدار تھے،آج یہ مارکسزم کی جانب تضحیک آمیز رویہ رکھتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کے مقابلے میں وہ بورژوا سیکولرازم اور لبرل ازم کے علمبردار بن گئے ہیں۔ یہ صرف لفظوںکے جغادری بن سکتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کی قوتوں اور سماجی اثرورسوخ کو وہ مبالغہ آرائی سے پیش کرکے تمام'لبرل‘ اور'سیکولر‘سرمایہ دارانہ قوتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی اس کی قیادت ان کومسلم لیگ ن کے روپ میں نظر آتی ہے توکبھی ایم کیو ایم کی صورت میں، اور پھر کبھی زرداری اوربلاول ان کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ حضرات طاہرالقادری کی مریدی کا درس دیتے نظر آئیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان میں سے کچھ این جی اوزکی زینت بن گئے ہیں اورکچھ چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں بناکر لبرل اور 'پروگریسو‘ پروگرام سے عوام کی حمایت جیتنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں ۔ سول سوسائٹی اسی قسم کے فیشن ایبل سیاسی کاموںکو'' ہابی‘‘ سمجھ کر ٹائم پاس کرتی ہے۔
مین سٹریم سیاست کی بات کی جائے تو آج ملک میںکوئی ایسا لیڈر اور پارٹی نہیں جس کی سیاست پیسے کے بغیر چلتی ہو۔ ان سب کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ سیاسی شعبدہ بازی، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور بنتی بگڑتی وفاداریاں ہی یہاں کی سیاست کا معمول ہیں۔ سیاست میں کالے دھن کی سرایت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت یا تو باقاعدہ جرائم کا متوازی نیٹ ورک چلا رہی ہے یا انڈر ورلڈ سے وابستہ'سیاست دانوں‘کے تسلط میں ہے۔ مخصوص لسانی بنیادوں پر بننے والے سیاسی مافیازخاص طور پر بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اوردوسرے جرائم کو اپنے مالی مفادات اور اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ جمہوریت کایہ کھلواڑ جس حد تک کھینچا جاسکا،کھچے گا۔ اسی میں حکمرانوں کے تمام دھڑوںکا فائدہ ہے۔ جب ان کی لوٹ مارکی باہمی لڑائیاں شدت اختیارکرکے اس سارے ڈھانچے کو ہی ہچکولے دینے لگتی ہیں تو یہ 'صلح‘ پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ یہی تو جمہوریت کا حسن اور'نظریہ ٔ مصالحت‘ کی اساس ہے!
قیادت کی غداری اور نظریاتی انحراف کے باعث مزدور تحریک کی پسپائی، وسیع بے روزگاری، سکڑتی قوت خرید اور مسلسل معاشی عدم استحکام نے محنت کشوںکو گھائل کر رکھا ہے۔ عوام فی الوقت سیاست سے لاتعلق ہیں۔ حکمران طبقے کی دانش اور اصلاح پسند'نظریہ دان‘یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ طبقاتی کشمکش ہی ختم ہوچکی ہے، لیکن یہ سوچ ایک منفی اور میکانکی فلسفے کی پیداوار ہے۔ تحریکوں اور عوامی بغاوتوںکا تعلق براہِ راست طور پرغربت سے نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا توافریقہ میں ہر روز انقلاب آتے۔ معیشت، سیاست، تاریخی پس منظر، جغرافیہ اور معیار زندگی میں تبدیلی سمیت بہت سے عناصرکاکسی مخصوص نقطے پر امتزاج یا ٹکرائو سماجی آتش فشاں کو پھاڑتاہے۔ اس مخصوص وقت کا حتمی تعین کر کے کوئی بلیو پرنٹ (بنیادی نقشہ) فراہم نہیںکیا جاسکتا، لیکن سائنسی بنیادوں پرتجزیہ کر کے سماجی ارتقاکو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے اورمستقبل کے تناظرکے عمومی خطوط مرتب کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں انقلابی تحریکوں کی روایات بھی موجود ہیں اور تاریخ بھی۔ پاکستان میں بڑی عوامی تحریکوںکا آغاز ہمیشہ طلبہ نے کیاہے۔آج طلبہ یونین پر پابندی لگا کرانہیں سیاست سے بیگانہ کرنے کی مکروہ کوشش کے باوجود بھی تعلیمی اداروں میں نفرت کی ایک آگ بھڑک رہی ہے۔ درمیانے اور حکمران طبقے کے طلبہ کی نقالی اور ان کی مراعات تک رسائی کی اس لامتناہی دوڑ میں محنت کش طبقات کے نوجوان زیادہ عرصے تک نہیں بھاگ سکتے۔ڈگری ہاتھ میں آتی ہے تو بیروزگاری پھن پھیلائے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔دوسری جانب بڑھتا ہوا بحران درمیانے طبقے کی اقتصادی اور سماجی بنیادوںکو بھی کمزور اورکھوکھلا کررہا ہے اور مڈل کلاس میں شدید اضطراب موجود ہے۔ محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کو پہلے ہی دیوارکے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں تحریک کسی ایک حادثے، واقعے یا معاشی و سماجی کیفیت میں یک دم تبدیلی سے بھڑک کر اٹھ سکتی ہے۔ ابتدائی کیفیات اور مطالبات کچھ بھی ہوں، ایسی کسی تحریک کی بنیادیں زندگی کے اصل مسائل اور معاشی وسماجی وجوہ کی بنیاد پر ہی مرکوز ہوںگی۔
گھر میں کسی کے جاگنے کے آثار نظر آئیں تو چور بھاگ اٹھتا ہے۔ جب پکڑے جانے کا امکانات بڑھ جائیں تو یہی چور محلے والوں کے ساتھ مل کر ''چور چور‘‘ چلانے لگتا ہے۔ آج پاکستان کے حکمرانوں کی کیفیت بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ انقلاب کے خوف میںیہ لوگ خود'انقلابی‘ بن بیٹھے ہیں۔ پہلے الطاف حسین اور عمران خان نے انقلاب کانعرہ لگایا۔ پھر ضیا آمریت سے فیض حاصل کر کے سیاست کا آغاز کرنے والے شریف برادران حبیب جالب کی نظمیں پڑھتے نظر آئے۔ اب انقلاب درآمدکرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ طاہرالقادری اسی سلسلے میں چودھری برادران کے ساتھ مل کر ''آئینی‘‘ انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک بارپھر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ لاہور میں ریاستی دہشت گردی سے نہتے شہریوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار پنجاب کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جعل ساز انقلابی بھی ہیں، حکمران طبقے اور سامراج کے یہ سیاسی نمائندے آخر کب تک عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں گے؟ انقلاب سے یہ مذاق انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کش اور نوجوان اس متروک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کے لئے انقلاب کے میدان میں اترے تو ان سیاسی مداریوں کاکیا حشرہوگا؟ تاریخ اس سوال کا جواب ایک سے زائد مرتبہ دے چکی ہے۔
یہ داستاں تھی کسی اور شاہزادے کی
میرا لہو تھا فقط زیب داستاں کے لیے