تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-06-2014

اینٹ کا جواب دیوار؟

ایک طرف ملک کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میںہیں اور دوسری طرف اہلِ سیاست نے بھی طے کرلیا ہے کہ اہلِ وطن کو سیاسی سرگرمیوں سے جُھلساکر دم لیں گے۔ سیر کا جواب سوا سیر سے دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طے یہ پایا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا زمانہ چونکہ لَد گیا ہے اِس لیے اب اینٹ کا جواب دیوار سے دیا جائے تاکہ جوابی کارروائی کا نشانہ بننے والے کو بھی سَواد آ جائے! 
پیپلز پارٹی کے آخری دن اور نواز حکومت کا ابتدائی زمانہ خاصی مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں پر ڈاکٹر طاہر القادری کا خاص کرم رہا ہے۔ انتخابات سے چار ماہ قبل ''نامعلوم‘‘ حلقوں سے اشارے، بلکہ شہہ پاکر طاہرالقادری نے اسلام آباد پر دھاوا بولا اور انقلاب کے نام پر خدا جانے کون سے ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش کی۔ جنوری 2013ء میں آصف علی زرداری صدر تھے اور حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔ سابق صدر کی سمجھ میں معاملہ آگیا اور اُنہوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے مزاحمت کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو روکنے کی کوشش مزید خرابی پر منتج ہوتی۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں 35، 40 ہزار افراد جمع ہوئے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر طرف کی کارروائی سے مجتنب رہنے کو کہا گیا۔ نتیجہ سب نے دیکھا کہ انقلاب برپا کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں اُترنے والے طاہرالقادری چند انتہائی معمولی نوعیت کے مطالبات منواکر کنٹینر سے باہر آگئے اور تماشا ختم ہوگیا۔ 
ابھی نواز حکومت نے سامان کھولا ہی ہے کہ اُسے ہٹانے کی بھرپور تیاریاں اظہر من الشمس ہوچلی ہیں۔ عمران خان خیبر پختونخوا میں حکمرانی کا موقع ملنے پر بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار حلقوں کی دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ جب ایک صوبے کی حکمرانی مل ہی گئی ہے تو اُس پر توجہ دی جائے تاکہ آئندہ الیکشن میں لوگوں کے سامنے کوئی تو مثال ہو جس کی بنیاد پر وہ تحریکِ انصاف کو ووٹ دے سکیں۔ مگر شاید عمران خان اُن کے دباؤ کے آگے بے بس ہیں جن کے کاندھوں پر وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ 
یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ طاہرالقادری نے انتخابی عمل میں حصہ ہی نہیں لیا تو پھر وہ سسٹم کو بدلنے کی بات کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔ وہ ایک طویل مدت تک ملک سے باہر رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر معاملات سے اُن کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ ایسے میں پاکستان کے لیے اُن کی طرف سے درد مندی کا اظہار بہت عجیب لگتا ہے۔ اور اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ جب وہ انتخابی عمل ہی پر یقین نہیں رکھتے تو پھر ملک میں کون سی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ جنوری 2013ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو تماشا دکھایا تھا اُس کی غایت سمجھنے سے لوگ اب بھی قاصر ہیں۔ جب کچھ مقصود تھا ہی نہیں تو سمجھ میں کیا آئے۔ سبھی نے محسوس کیا کہ کچھ خرابی پیدا کرنی تھی، تھوڑی سی ہلچل مچانی تھی، اہلِ وطن کو کچھ اضطراب میں مبتلا کرنا تھا، تھوڑا سا انتشار برپا کرنا تھا، انتخابی عمل کو ''حسبِ ذائقہ‘‘ متنازع فیہ بنانا تھا۔ اگر یہ مقصود تھا تو کسی حد تک حاصل ہوکر رہا۔ 
مگر اب کیا ہے؟ ایک منتخب حکومت نے ابھی ابھی تو سامان کھولا ہے۔ انتخابی عمل میں کارکردگی کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ مگر جناب! کارکردگی کی گنجائش تو چھوڑی جائے۔ ہر جماعت میں خرابیاں ہیں۔ ن لیگ بھی خرابیوں اور خامیوں سے مُبرّا نہیں۔ مکمل پاک بازی کا دعویٰ تو کوئی بھی جماعت نہیں کرسکتی مگر جب بیلٹ باکس کے ذریعے عوام نے فیصلہ سُنادیا تو کسی کو معترض ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ن لیگ کی حکومت بھی عوام کی امنگوں اور اُمیدوں کے مطابق نہیں مگر اُس کی منتخب حیثیت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 
ن لیگ کے ساتھ ''آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے‘‘ والا گیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام دم بخود ہیں۔ وہ تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کے حصول کی کوششوں میں ایسے پھنسے ہیں کہ کچھ کرنا تو دور رہا، سوچنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے! 
ن لیگ کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ اُسے کچھ کرکے بھی دکھانا ہے اور اپوزیشن کو کنٹرول بھی کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے تو اُسے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ اپوزیشن لیڈر بھی صرف بیانات کی حد تک ہی تنقید کرتے ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان معاملات مفاہمت کی سیاست کی طرز پر چلائے جارہے ہیں۔ چند چھوٹی جماعتیں پُراسرار طور پر معاملات کو اُلجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ جو گڑھا وہ دوسروں کے لیے کھود رہی ہیں اُس میں خود بھی گریں گی۔ پاکستان کی سیاست میں ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے۔ 
قادری فیکٹر سے نمٹنے کے معاملے میں ن لیگ نے اب تک دانش مندی کا ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں جو کچھ ہوا وہ بالیقین پنجاب حکومت کی مرضی کا آئینہ دار نہیں۔ پوری کوشش کی گئی کہ معاملات زیادہ سے زیادہ بگڑیں۔ اور بگڑے۔ ن لیگ کو اس معاملے میں پیپلز پارٹی سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ آصف زرداری نے گزشتہ برس جس عمدگی سے قادری فیکٹر کو کنٹرول کیا اور اُس کا جوش و جذبہ ٹھنڈا کیا، وہ قابلِ دید بھی تھا اور قابلِ داد بھی۔ ن لیگ کے لیے بھی اِس بار اقتدار آخری موقع جیسا ہے۔ جنہوں نے طے کر رکھا ہے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دینا وہ تو اپنا کام کرکے ہی دم لیں گے۔ سوال اُن کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپشنز کو بھی تو بروئے کار لانے کا ہے۔ مفاہمت کی سیاست کافی نہیں، جمہوریت کے مخالفین کو لگام دینا بھی تو اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ 
ملک کے حالات اور اُن کی نزاکت کو یکسر نظر انداز کرکے جو کچھ کیا جارہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے قوم کے مفاد میں نہیں۔ جمہوریت کا سفر، خواہ کسی شکل میں، جاری رہنا چاہیے۔ آرڈر پر مال تیار کرنے والے حکومت کے خلاف لنگوٹ کَس کر میدان میں آگئے ہیں۔ جس جس کو جتنا حکم ملتا جاتا ہے وہ اُتنا کردار ادا کرتا جاتا ہے۔ گڈ گورننس کا مطالبہ کرکے حکومت کے خلاف دھماچوکڑی مچانے والے یہ بتانا پسند کریں گے کہ عوام سے مینڈیٹ پانے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاکر قوم کی کون سی خدمت کی جارہی ہے۔ ایک سال قبل معرض وجود میں آنے والی حکومت کی بساط لپیٹ کر قوم کو کس مقام تک پہنچایا جارہا ہے؟ اگر مڈ ٹرم الیکشن ہوئے تو اِس بات کی ضمانت کون دے گا کہ ہر اعتبار سے شفاف پولنگ ہوگی اور عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت ہی تشکیل پائے گی؟ 
ڈھائی عشروں کے دوران ن لیگ نے حکمرانی کا مزا خوب چکھا ہے۔ اب اُس کے لیے حقیقی امتحان کی گھڑی آئی ہے کہ حکمرانی کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں سے خوش اسلوبی سے کس طرح نمٹا جائے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت جو بھی جمہوریت کا کھونٹا مضبوط کرنا چاہتے ہیں اُنہیں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ جمہوریت کسی بھی دور میں پکے پکائے حلوے کی طرح نہیں تھی۔ اب بھی نہیں ہے۔ جو عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہیں اُنہیں کچھ ڈیلیور بھی کرنا ہے، بہتر حکمرانی کا مظاہرہ بھی کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مخالفین کی غیر ضروری معاندت کو غیر موثر بھی بنانا ہے۔ ن لیگ کو قادری فیکٹر اور اِسی نوعیت کی دیگر مشکلات سے خندہ پیشانی کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ اینٹ کا جواب دیوار سے دینے کی کوشش بہتر حکمرانی کی راہ میں مزید مشکلات پیدا کرے گی۔ اشارے پاکر، ایجنڈے کے تحت کام کرنے والے تو یہی چاہتے ہیں کہ اُن سے سختی سے نمٹا جائے تاکہ ری ایکشن میں صورت حال ابتر کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اگر اینٹ کے جواب میں پھول پیش کرنے کی گنجائش نہ بھی ہو تو کم از کم اِتنا تو یقینی بنایا جائے کہ اینٹ کے جواب میں اینٹ نہ ماری جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved