کوئی سننا چاہے تو فہم و فراست کے اس ویرانے میں قرآنِ کریم کی رہنما آواز صاف صاف سنائی دے۔
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
بے شک تم جلد جان لو گے
پھر بے شک تم جلد جان لو گے
شریف خاندان کی ایک محترم خاتون نے علّامہ طاہر القادری کو ذہنی مریض قرار دیا ہے ۔ سو فیصد ان سے اتفاق ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا انہیں شریف خاندان کے اندازِ فکر پہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا ہے ؟ کیا اکیسویں صدی میں وہ خاندانی اور قبائلی اقتدار کا کوئی جواز پیش فرما سکتی ہیں؟
ڈاکٹر توقیر شاہ اور رانا ثنا ء اللہ کو الوداع کہتے ہوئے میاں محمد شہباز شریف گلو گیر ہوئے ۔ رانا صاحب کی قربانیوں کا ذکر چھیڑا اور ڈاکٹر کو چھوٹا بھائی کہا ۔ پھر ان دونوں زعما کو سانحۂ ماڈل ٹائون کا ذمہ دار ٹھہرایا اور برطرف کردیا۔ تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ پولیس کو کارروائی میں تامّل تھا۔ ایک نہیں ، دو بار انہوں نے گریز کا مشورہ دیا ۔ ڈاکٹر توقیر مگر ڈٹے رہے ، میدان میں کام کرنے کا جنہیں کوئی تجربہ نہیں۔ کوئی سلیقہ نہیں۔ راناصاحب شریکِ کار تھے اور ٹیلی فون پر ایک اور بزر جمہر فواد حسن فواد کے ساتھ وہ رابطے میں رہے ۔تنہا پولیس کیسے قصوروار ہے ؟ 13اور 16جون کے اجلاسوں میں، جہاں حکمتِ عملی مرتّب ہوئی، ان میں سے کوئی شریک ہی نہ تھا ؎
گلی گلی میں ہوا میری شکست کا اعلان
یہ اور بات کہ میں تو بساط پر ہی نہ تھا
1986ء کے موسمِ خزاں میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان تشریف لائیں تو فساد کااندیشہ بہت تھا۔ ہر چیز کے درہم برہم ہوجانے کا خطرہ۔ ملک پر ایک فوجی حکمران مسلّط تھا اور غیر جماعتی انتخابات سے ابھرنے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو۔ دونوں کے مراسم کچھ ایسے خوشگوار نہ تھے۔ وزیرِ اعلیٰ نوا زشریف سے بھی وزیرِاعظم کے تعلقات نا ہموار تھے ۔ اس کے باوجود قائدِ حزبِ اختلاف کو پورا موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ باقی تاریخ ہے ۔
پیپلز پارٹی کے برہم کارکن لاہور کے بعد راولپنڈی کی شاہراہوں پر ناشائستہ نعرے لگاتے رہے ۔ ریاستی قوت کے بل پر اقتدار ان سے چھین لیا گیا تھا۔ دوسروں کے علاوہ شریف خاندان اس کاروبار میں شریک تھا۔ راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر صفدر شاہ اپنا عرصۂ ملازمت بِتا کر آسودہ ہیں اور اپنی اننگ پہ فخر کر سکتے ہیں۔ وہ چک لالہ کے ہوائی اڈے پر وزیراعظم جونیجو کی خدمت میں پیش ہوئے ۔ محمد خاں جونیجو نواب آف کالا باغ کے وزیر رہے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا بت ان کی موجودگی میں منہدم ہوا۔ کھدّر کا کلف لگا لباس پہنے، بڑی بڑی مونچھوں والے صحت مند اور خوش مزاج افسر سے انہوں نے روداد پوچھی تو اس نے کہا : سر ، وہ گندی گالیاں دے رہے تھے۔ وزیراعظم کا سوال یہ تھا: کیا کوئی عمارت گری؟ کیا کوئی شخص مرا؟ ظاہر ہے کہ ڈپٹی کمشنر کا جواب نفی میںتھا۔ مطمئن لہجے میں وزیراعظم نے کہا: وقت گزر جائے گا‘ جذبات کی آندھی اتر جائے گی‘ ایک دن گالیاں بھی تھم جائیں گی۔
2001ء کے ہنگامۂ کبریٰ کے بعد، جب جنرل پرویز مشرف نے امریکی افواج کو افغانستان پر بمباری کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی ، کوئٹہ میں احتجاج کا طوفان اٹھا۔ پانچ برس تک زیرِ عتاب رہنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے ۔ گورنر بلوچستان امیر الملک مینگل براہِ راست پولیس کو ہدایات دیتے رہے۔ ہنگامہ تمام ہوا اور لاشیں اٹھائی جا چکیں تو ڈاکٹر سڈل نے اپنا استعفیٰ گورنر کی خدمت میں پیش کر دیا۔ صوبے کے حاکم سے انہوں نے یہ کہا : اگر آپ ایک ایس ایچ او کی سطح پر اتر آئے تو آئی جی کی حیثیت کیا رہی ؟ پھر پوری سنجیدگی سے لاٹ صاحب کو انہوں نے بتایا: شاہراہوں کو جذبات کی شدت آباد کیا کرتی ہے۔ حل یہ ہے کہ مظاہرین کو اظہار کا موقعہ دیا جائے تا آنکہ تھکاوٹ انہیں مضمحل کردے۔
علّامہ طاہر القادری ایک برخود غلط آدمی ہیں ۔ فکر و فلسفہ تو دور کی بات ہے، اپنے باطن میں وہ ایک نہایت کمزور شخص ہیں۔ اسی لیے خود نمائی ان کا شیوہ ہے اور بے دریغ غلط بیانی۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ سانحۂ لاہور ان کے خاندان کو شہید کردینے کے لیے برپا کیا گیا۔ ایسا کوئی منصوبہ سرے سے تھا ہی نہیں ۔ ایسا آدمی کتنا ہی فروغ پا جائے ، غبارے کی طرح ہوتاہے ، جس میں زیادہ ہوا بھر دی جائے۔ آخر کار اسے پھٹنا ہوتاہے ۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ جھوٹے سچّے واقعات سنا کر، ماضی کی عظیم ہستیوں ، حتیٰ کہ رحمتہ اللعالمینؐ کی سرپرستی کے افسانوں پر اپنا جواز تراشے، رب کعبہ کی قسم‘ وہ نامراد ہوگا۔ جس کی اخلاقی حالت یہ ہو کہ شریف خاندان کے ذاتی احسانات تک بھول گیا۔ جو یہ کہے کہ اس کے جوتوں کے تسمے باندھنے والے آج اس کے مدّ مقابل ہیں ، اس کے انجام کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔ ٹھیک وہی ، جو کنٹینر والے ڈرامے کا ہوا تھا۔
گھبراہٹ کا شکار ہونے کی ضرورت کیا تھی ؟ نفسیات کا ایک ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتاہے کہ خوف اندرونی تضادات کا لازمی نتیجہ ہوا کرتاہے ۔ علامہ صاحب کی تعمیر کردہ عمارت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور اسے منہدم ہونا ہے ۔ وہی نہیں، سب ڈوب جائیں گے، بغضِ معاویہ میں جو دعوے پہ دعویٰ کرنے والے کی ہمراہی پر تُلے ہیں۔
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی
شریف خاندان کا مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن میں ڈٹ کر اس نے دھاندلی کی۔ بالآخر وہ بجلی کے بحران اور دہشت گردی سے نمٹنے پر آمادہ ہیں مگر اندیشہ پالتے ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کم نہیں ہو سکی۔ زرداری عہد کے مقابلے میں معیشت قدرے بہتر ہوئی مگر4.1فیصد ترقی کا دعویٰ جھوٹ ہے۔ ملکی قرضے اسی رفتار سے بڑھے ہیں ۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں ابتدائی اصلاحات بھی نہیں ۔ پولیس اور پٹوار آج بھی سرکار کی باندی ہے ۔ اپنا کاروبار شریفین کو عزیز ہے اور عالمی شاہی خاندانوں سے تجارتی مراسم استوار کرنے کی فکر۔ میاں محمد نواز شریف دنیا کے واحد حکمران ہیں ، جن کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہے۔ امتحان کے مہ و سال میں وعدہ معاف گواہ بن جانے والے وزیرِ خزانہ کی بھی ۔ دشمن ملک کے سرکاری دورے پر وہ صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرتے رہے ۔ ظاہر ہے کہ ان کا مقصد کاروبارِ زرگری تھا۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ اٹھارہ کروڑ انسانوں کو احمق جان کر وہ اپنی نئی نسل کو اقتدار سونپنے کے درپے ہیں ۔ کیا یہ ایک صحت مندانہ اندازِ فکر ہے ؟ آدمی کے لیے دو ہی راستے ہوا کرتے ہیں ۔ یاتو وہ حالات کے صحرا میں دلیل ، منطق اور دانش کے ستاروں کی مدد سے اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ یا اپنی خواہشات کی پیروی کرتا رہے ؛حتیٰ کہ ڈوب جائے۔ شریف خاندان کا فیصلہ کیا ہے؟ نواز شریف جیسے اقتدار کے حامل نہ سہی ، اتفاق سے وہ بھی ایک کشمیری تھے ۔مسلم برّصغیر کے اس نبض شناس، ڈاکٹر علّامہ محمد اقبالؔ نے کہا تھا ؎
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا، ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
کوئی سننا چاہے تو فہم و فراست کے اس ویرانے میں قرآنِ کریم کی انہیں آواز صاف صاف سنائی دے۔
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلا ک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
بے شک تم جلد جان لو گے
پھر بے شک تم جلد جان لو گے