تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     25-06-2014

ناٹک کا پرامن اختتام

'پاکستان عوامی تحریک ‘ کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا وطن لوٹنا بہت بڑا ناٹک بن کر انجام کو پہنچ گیا۔ وہ ایک رات پہلے لندن سے دبئی ہوتے ہوئے پیر کی صبح اسلام آبا د پہنچے۔ ان کے طیارے کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے نہیں دیا گیا۔ جہاز پہلے اسلام آباد کی فضائوں میں چکر لگاتا رہا، پھر اسے لاہور بھیج دیا گیا۔لاہور ہوائی اڈے پر قادری جہاز میں ہی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اصرار کے باوجود نیچے نہیں اترے۔ بولتے رہے کہ جب تک پاکستانی فوج کا نمائندہ آکر ان سے نہیں ملے گا‘وہ نیچے نہیں اتریں گے۔دو تین گھنٹے کی کشمکش کے بعد قادری مان گئے۔فوج نہیں آئی؛ البتہ پنجاب کے گورنر آئے جنہیں وہ ذاتی دوست بتاتے ہوئے اُن کے ساتھ کار میں بیٹھ کر اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر منہاج القرآن سیکرٹریٹ روانہ ہو گئے۔ یوں ناٹک کا اختتام ہو گیا۔
اسے میں ناٹک اس لئے کہتا ہوں کہ خود ڈاکٹر قادری کی شخصیت بڑا ناٹک ہے۔وہ زبردست مقرر ہیں۔جب وہ بولتے ہیں تو ان کا منہ تو بولتا ہی ہے ‘ان کی آنکھ‘کان‘ناک‘ گردن‘ ٹوپی‘ہاتھ اور ہاتھ کی انگلیاں بھی بولتی ہیں۔وہ لگاتار بولے چلے جاتے ہیں۔ ان کے الفاظ اور اقوال میں چھُرے کی دھار اور بندوق کی گولیاںہوتی ہیں۔وہ ہمارے انا ہزارے کی طرح نہیں ہیں۔پڑھے لکھے ہیں۔ان میں تیز سیاسی سوچ ہے۔انہوں نے نواز شریف سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی پارٹی کا ایک بھی ممبر نہیں ہے لیکن پاکستان میں اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر بن گئے ہیں۔وہ آج جتنی بھیڑ اکٹھاکر سکتے ہیں ‘پاکستان کا کوئی بھی بڑا لیڈر نہیں کر سکتا۔
وہ یہ جادو کیوں کر پاتے ہیں؟ اس کی خاص وجہ مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف ایک سال میں ہی پاکستان کے عوام کی نوازشریف سرکار سے چاہت ختم ہو نا شروع ہو گئی ہے۔ میاں صاحب کو واضح اکثریت ملی تھی اور وہ ملک کے سب سے تجربہ کار لیڈر ہیں۔لوگوں کو ان سے بہت زیادہ امیدیں تھیں۔لیکن کسی بھی لیڈر کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہوتی۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے عوام کے کچھ طبقوںکو چھوٹی موٹی راحتیں ضرور پہنچائیں لیکن مہنگائی‘بے روزگاری ‘ دہشت گردی جیسے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے عوام کی اس ناخوشی کو کیش کرایا ہے۔ وہ انقلاب کانعرہ بلند کر رہے ہیں لیکن ان کا انقلاب کیسا ہوگا‘یہ وہ کبھی بھی کھل کر نہیں بتا پائے۔وہ چاہتے کیا ہیں‘یہ بھی واضح نہیں ہے۔وہ کیسی سرکار بنانا چاہتے اور بنا کر کون سا پروگرام لاگو کرنا چاہتے ہیں‘یہ بھی کسی کو پتہ نہیں۔بس ‘وہ بھیڑ اکٹھی کرنا جانتے ہیں اور تقریر کرنے کے فن کے بادشاہ ہیں۔اس لئے مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر قادری جیسا مذہبی رہنما پاکستان میں کہیں انا ہزارے جیسی نا امیدی نہ پیدا کر دے ۔قادری چاہے کچھ نہ کر پائے لیکن وہ اپنے تقریری ہنر سے نوازشریف سرکار کی جڑیں تو کھو کھلی کر ہی سکتے ہیں۔ اسی لئے عمران خان‘چوہدری شجاعت‘پرویز الٰہی اور الطاف حسین جیسے سینئر لیڈر بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ سرکار نے سارے معاملے کو بڑی پختگی سے سنبھالا ۔پولیس مارتی اس کے بجائے وہ خود پٹی۔ قادری کے حامیوں نے اسلام آباد میں پولیس کی پٹائی کر کے‘ ماڈل ٹاؤن کے حملے کا بدلا لے لیا۔ قادری کا آنا ٹی وی چینلوں پر دن بھر چھایا رہالیکن شام کے وقت وزیرستان کے فوجی آپریشن کی خبریں بھی آنے لگیں اور مشرف کو ملک سے باہر جانے کی رعائت کے خاتمے کی بھی خبر چلی۔اب دیکھتے ہیں کہ قادری کے اس بڑے ناٹک کا اگلا منظر کونسا ہوتا ہے۔ فی الحال واپسی کے منظر کا تو آرام سے اختتام ہو گیا۔
..................
پاکستان تو آج کل ایک سیاسی مشکلات سے گزر ہی رہا ہے‘ افغانستان بھی جال میں پھنس گیا ہے۔پچھلے ہفتہ تک لگ رہا تھا کہ افغان صدارت کے انتخابات آرام سے نپٹ جائیں گے۔اس الیکشن کے دوسرے اور آخری وقت میںدو امیدوار رہ گئے تھے ۔ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی۔ان دونوں کو ترتیب وار45فیصد اور31.5فیصد ووٹ پہلے دور میں ملے تھے۔ اب دوسرے دور کے مقابلے میںڈاکٹر عبداللہ کے جیتنے کے پورے امکان تھے ‘ کیونکہ وہ غنی سے کافی آگے تھے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر ہارے ہوئے امیدواروں نے بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو اپنی اپنی حمایت دی تھی۔وزیر خارجہ رسول بھی جو کہ حامد کرزئی کے بھروسے کے آدمی ہیں‘ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ آکھڑے ہوئے تھے۔
لیکن عبداللہ نے چودہ جون کو ہوئی آخری ووٹنگ کے بعد بغاوت کا پرچم اٹھا لیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے ۔کہا جا رہا کہ کل ستر لاکھ ووٹ پڑے ہیں۔الیکشن کمیشن کا یہ حساب جعلی ہے۔ ان کے مطابق ووٹ توچالیس پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں پڑے ہیںلیکن بیس سے تیس لاکھ ووٹوں کی پرچیوں پر ٹھپے لگاکر کمیشن نے غنی کو جتانے کی کوشش کی ہے ۔آج کل چل رہی ووٹوں کی گنتی کوانہوں نے رکوانے اور الیکشن کمیشن کے سب سے بڑے افسر کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ حامد کرزئی‘اشرف غنی اور الیکشن افسر احمد نورستانی کی ملی بھگت سے اب انہیں ہرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔انہوں نے جلوس اور دھرنے ابھی سے شروع کر دیے ہیں۔
اگرڈاکٹر عبداللہ کی سچ مچ میں شکست کا اعلان کر دیا گیاتو افغانستان میں کہرام مچ جائے گا۔ پورا ملک پٹھانوں اور غیر پٹھانوں میں بٹ جائے گا۔اشرف غنی کو پٹھانوں اور ڈاکٹر عبداللہ کو غیر پٹھانوں کی حمایت ملے گی۔مار کاٹ اور لوٹ پاٹ تو ہوگی ہی‘ملک کے ٹکڑے ہونے کا ماحول بھی بن سکتا ہے۔اس کا سیدھا فائدہ طالبان کو ہوگا۔پاکستان کی پریشانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔پناہ گیروں کی بڑی تعداد کو سنبھالنے کیلئے اسے تیار رہنا پڑیگا۔اس کادہشت گردوں کے خلاف فوجی مشن پر بھی برا اثر پڑے گا۔افغانستان کو دی گئی دو ارب ڈالر کی بھارتی امداد کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔اگر افغانستان غیرمستحکم ہو گیا تو اس کا سارے پڑوسی ملکوں پر اثر پڑے گا۔ نریندر مودی جو سارک کو مضبوط اور کامیاب بنانا چاہتے ہیں‘ انہیں اپنی تجویز کو طاق پر رکھنے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔کرزئی نے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔اقوام متحدہ کے بجائے آج بھارت اہم کردارنبھا سکتا ہے ۔ بھارت چاہے توعبداللہ ‘غنی اور کرزئی کو ایک ساتھ بٹھا کر سمجھوتہ کروا سکتا ہے۔ڈاکٹر عبداللہ او رڈاکٹرغنی دونوں بھارت کی طرف دوستانہ جھکائو رکھتے ہیں۔ 
(ڈاکٹر ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved