قومی قیادت کی بصیرت کا ماتم کرتا ہوا، ایک اور دن تمام ہوا۔24 جون کی صبح طلوع ہوئی تو میں سوچ رہا تھا:یہ دن 22جون سے کیسے مختلف ہے؟نخلِ آ رزُو پر،کیا نئے برگ و بار آئے؟ کوئی نئی امید؟ کچھ نہیں، کچھ بھی تو نہیں۔ ہاں، اس قوم کا ایک اور دن بے معنی اور بے نتیجہ مشق کی نذر ہو گیا۔ تقویمِ عصر سے ہمارا ایک دن اورکم ہو گیا۔ عوام کی جھولی میں کیا آیا ؟ اربوں روپے کا نقصان،ان گنت خدشات،اضطراب، بے یقینی، بے چینی،فساد اور عمرِ رائگاں کا ماتم۔
یہ تماشا ایک ایسے سماج ہی میں ممکن ہے جس کی کوئی سمت نہ ہو۔ جس کے سامنے کوئی مستقبل نہ ہو۔ جو زندگی نہیں، عمر گزارنے کا عادی ہو۔ دیہاڑی دار مزدور کی طرح، سرِشام آسودہ اگر دن کی مشقت کا صلہ مل گیا۔کل کیا ہوگا، یہ کل سوچیں گے۔ حکو مت کی حکمت ِ عملی کیا تھی؟کسی طرح 'آج‘ کا دن گزر جائے۔ میڈیا کی تگ ودو؟ 'آج‘ لوگ ہمارے چینل سے چمٹے رہیں۔ معنویت سے عاری بے لذت تکرارکے حامل لا حاصل ٹاک شوز۔ قادری صاحب کی کوشش کیا تھی ؟کسی طرح میں 'آج‘ میڈیا پر چھا یا رہوں۔ میرا خیال ہے سب اپنے اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ خسارہ ہوا تو پاکستان کا۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے ار شاد فرمایا: وہ شخص بر باد ہوا جس کا آج ،اس کے کل سے بہتر نہیں۔ یہ بربادی تو پاکستان کے حصے میں آئی جس کا 'آج‘ نہ صرف یہ کہ کل سے بہتر نہیں تھا،اُس سے بدتر تھا۔
بصیرت اور حبِ عاجلہ سے نجات۔ یہی حل ہے اوریہی مشکل بھی۔ ' منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں‘۔ حکومتی حلقوں کا ہیجان قابلِ فہم نہیں تھا۔ سعد رفیق سیاسی کارکن ہیں۔ میں دن بھر ان کی گفتگو سنتا رہا۔ ایک سابق طالب علم رہنما کی صدائے بازگشت کے سوا کچھ نہ تھی۔ یہ پر ویز رشیدصاحب کا منصب ہے کہ وہ حکومت کا نقطۂ نظر پیش کریں۔ انہوں نے یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی۔ دوسروں کو اپنا اپنا کام کر نا چاہیے تھا۔کیا ریلوے کواُس دن کسی وزیرکی ضرورت نہیں تھی؟عمران خان بولے توکیا: بے گھر ہونے والے افرادکی منتقلی کے لیے آ پریشن روک دیا جائے۔ اس مشورے کا اگر کسی کو فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ صرف دہشت گرد ہیں جنہیں کمرسیدھی کرنے کا موقع مل جا ئے گا۔کیا عمران خان یہی چاہتے ہیں؟کرفیو علی الصبح سے شام چھ بجے تک اٹھا دیا جا تا ہے۔ اس سے لوگ آسانی سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے آ پریشن روکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن کا یہ مطالبہ البتہ وزن رکھتاہے کہ بے گھر افرادکی عارضی آ بادی کے لیے مختص رقم کم ہے۔ اس میں اضافہ ہونا چاہیے تا کہ ان کی مشکلات میں کسی حد تک کمی آ سکے۔ بے گھر افرادکو پوری قوم کی دعا، مادی امداد اور اخلاقی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ایک مصیبت سے نکلے ہیں تو دوسری ان کی منتظر ہے۔ آپریشن روکنے کی بات،البتہ اسی وقت کی جا سکتی ہے جب صرف تنقید مقصود ہو، سوچے سمجھے بغیر۔
آج پاکستان کو سیاسی استحکام چاہیے اوراس کے ساتھ اصلاح کے لیے ایک نتیجہ خیزجد وجہد۔ اس کے لیے قومی اتفاق ِرائے اور یک سوئی لازم ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت چار سال کا ایک ترقیاتی منصوبہ سامنے لائے۔اپوزیشن اس میں بہتری کے لیے تجاویز دے اور اس کے ساتھ نظر رکھے کہ حکومت عملدرآ مد میں کتنی سنجیدہ ہے۔ میڈیا بھی اس ایجنڈے کی تکمیل میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ فوج اور عدلیہ سمیت دوسرے ریاستی ادارے بھی دستِ تعاون دراز کریں۔ یہ سوال نصابِ سیاست سے خارج کر دیاجائے کہ اگلے عام انتخابات سے پہلے حکومت میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو ہر صورت میں ہو گا۔ سماج اضطراب سے نکل آئے گا۔کوئی اس اندیشے میں مبتلا نہیں ہوگا کہ کل کیا ہو نے والا ہے؟ قومی اتفاق رائے کے لیے پانچ نکاتی مختصر ایجنڈا تشکیل دیا جا سکتا ہے:
1۔دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور امن کی بحالی۔ضربِ عضب کی غیر مشروط حمایت اور اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے۔
2۔معیشت کی تشکیلِ نو اور کرپشن کا خاتمہ۔ توانائی کے بحران کا حل اس میں شامل ہو۔
3۔ سیاسی اور سماجی اصلاحات۔اس میں انتخابی عمل کی شفافیت سے لے کر مذہبی تعلیم کی تشکیلِ نو جیسے امور شامل ہوں۔
4۔ ریاستی اداروں کا استحکام،ان کی مکمل آ زادی اور آئین کی پابندی۔
5۔اہلِ سیاست اور مذہبی و سماجی تنظیموں کاجلسوں، جلوسوں اور دھرنوں جیسی سرگرمیوں سے رضاکارانہ اعلانِ برأت جن سے سماج کے معمولات متاثر ہو تے ہوں۔احتجاج اور تنقید کے حق کا پارلیمنٹ، میڈیا اور دوسرے فورمز تک محدود کرنا۔
یہ نکات اُس قومی نقطہ نظر(Narrative) کی اساس بن سکتے ہیں جس کا مژدہ ہمیں سنا یا گیا تھا۔اگر حکومت، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور دوسرے ریاستی و سماجی ادارے اس پر اتفاق کر لیں تو میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ چار سال بعد ہم سیاسی و سماجی طورپر کہیں بہتر جگہ پر کھڑے ہو ں گے۔ جوکوئی اس دائرے سے نکلنا چاہے، سب مل کر اس کا احتساب کریں۔ اس کے لیے پارلیمنٹ قانون سازی کر دے تا کہ عدلیہ کے ذریعے ان لوگوں کو رو کا جا سکے جو سماج کا امن اور ملک کی معیشت کو بر باد کر رہے ہیں۔ مجھے اس کا بھی یقین ہے کہ اس اتفاقِ رائے کے بعد، طاہر القادری ساحب جیسے لوگوں کو یہ موقع بہتر طور پر مل سکتا ہے کہ وہ قوم کی فکری رہنمائی کریں اور بحرانوں سے نکلنے کا حل تجویز کریں۔ اس بات کی اب ہمیں شعوری کوشش کر نا ہوگی کہ ہماری تاریخ میں پھر کوئی 23 جون نہ آ سکے۔
حکومت کو اس اتفاقِ رائے کے لیے پہل کر نی چاہیے۔ میری تجویز ہو گی کہ اس پانچ نکاتی ایجنڈے پر حکومت کی میزبانی میں کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔اسی نوعیت کی ایک کانفرنس میڈیا اداروں کے مالکان اور اہلِ صحافت کے ساتھ کی جائے۔ پھر تما م سماجی تنظیموں کو جمع کیا جا ئے جو سول سو سائٹی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سول سوسائٹی میں ہمارے روایتی مذہبی و سماجی ادارے اور جدید غیرحکومتی تنظیمیں (NGOs) سب شامل ہیں۔ ان اجتماعات میں احتساب کا ایک خود کار نظام بھی تجویز کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اخبار یا چینل اس ایجنڈے سے گریز کر تا ہے تو میڈیا خود اس کا احتساب کرے۔ اسی طر ح سیاسی جماعتوں کے لیے پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔ سول سوسائٹی بھی اس باب میں ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دے سکتی ہے۔
جمہوریت ہی واحد راستہ ہے اور اس معا ملے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو نی چاہیے۔ تاہم ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس جمہوریت کو کس طرح زیادہ ذمہ دار بنا سکتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب کسی حکومتی یا ریاستی قوت کو استعمال کیے بغیر ہر ادارہ اپنی اخلاقی و قانونی حدود کی پابندی کرے۔ ہم مزید کھلنڈرے پن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اہلِ سیاست اور میڈیا کو تماش بینی کے اس کلچرکو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر نا ہوگا۔ سنجیدگی، بصیرت اور حُبِ عاجلہ سے نجات۔ قوم کو آج سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے۔23 جون کا سبق یہی ہے کہ یہ دن ہماری قومی زندگی میں پھر نہ آئے۔