تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-06-2014

یہ جنگ بہت طویل اور وسیع ہے

برصغیر کے بعض اعلیٰ دانشوروں اور مدبروں کو قائد اعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کے خلوص نیت پر یقین تھا‘ لیکن مجوزہ پاکستان میں تعلیم‘ ترقی‘ ہنرمندی اور تہذیبی پسماندگی کی روشنی میں ‘ان کا تجزیہ تھا کہ آزادی کے بعد اس نوزائیدہ ملک کے پاس‘ حکمرانی کی پختہ کار اور آزمودہ مشینری نہیں ہو گی اور عدم صلاحیت اور ناتجربہ کاری کے نتیجے میں‘ معاملات بگڑ جائیں گے اور یہ ملک المیوں سے دوچار ہو جائے گا۔ اگر ہم ان تجزیوں اور تبصروں کو ''دشمن کی رائے‘‘ سمجھنے کی بجائے‘ اس سے فائدہ اٹھاتے اور جس کمی کی انہوں نے نشاندہی کی تھی اگر بطور خاص‘ اسے دور کرنے پر خصوصی توجہ دیتے‘ تو ہم ان سانحوں سے بچ سکتے تھے‘ جن کا آج ہم شکار ہو چکے ہیں۔ قائد اعظمؒ اس کمزوری سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے آتے ہی حتی المقدور نئی ریاستی مشینری تیار کرنے کے لئے ابتدائی اقدامات کئے۔ یہاں تو ادارے ہی موجود نہیں تھے ‘ جو نظم و نسق سنبھال سکتے اور ایک موثر ریاستی مشینری وجود میں آ سکتی۔ قائد اعظمؒ نے فوری طور پر اور جلدی جلدی بنیادی ادارے قائم کرنے پر توجہ دی۔ جیسے مسلح افواج‘ سٹیٹ بنک آف پاکستان‘ تعلیمی ادارے‘ دستیاب انسانی وسائل میں سے لائق اور اچھے بیوروکریٹس کا انتخاب۔ ابھی وہ اداروں کی بنیادیں رکھنے میں ہی مصروف تھے کہ زندگی کی مہلت تمام ہو گئی۔ انگریز کے ٹوڈیوں‘ روایتی حاشیہ برداروں ‘ قبائلی سرداروں ‘ جاگیرداروں اور رسہ گیروں نے‘ لیاقت علی خان کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے اور آخر کار انہیں شہید کر کے‘ پاکستان کو انسانی صلاحیتوں کے معاملے میں تہی دست کر دیا۔ ان کے بعد گندا انسانی کچرا‘ پاکستان کے نظم و نسق پر قابض ہو گیا۔ ایک قومی ریاست تشکیل دینے کے لئے‘ جس دوراندیشی‘ تدبر اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ ہمیں دستیاب نہ ہوئی۔ آج ہماری تاریخ حادثوں اور سانحوں کی المناک داستان ہے‘ جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ 
کشمیر کا تنازعہ‘ جسے بھارت نے اقوام متحدہ میں پیش کر دیا تھا‘ تقسیم کے متفقہ فارمولے کی بنیاد پر حل کرانے کے لئے‘ ہم اپنا مقدمہ کامیابی سے لڑ رہے تھے۔ جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی وہ قراردادیں ہیں‘ جن میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ بھارت بھی اس بنیادی اصول کوتسلیم کر چکا تھا۔کشمیر عالمی ایجنڈے پر آ چکا تھا۔ اقوام متحدہ کے مشن استصواب رائے کو ممکن بنانے کے لئے دونوں حکومتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔ لیکن پاکستان میںلیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ‘ سازشیوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں‘ جنہیں پاکستان کے قومی مفادات کی نہ فکر تھی‘ نہ شعور۔ انہیں سردجنگ میں اپنے طبقاتی مفادات اور اقتدار کے علاوہ‘ کسی بات کی سمجھ ہی نہیں تھی۔ امریکہ ان دنوں سوویت یونین کے گرد فوجی حصار قائم کرنے کے لئے‘ مختلف ملکوں میں اپنے اڈے اور پٹھو حکومتیں بنا رہا تھا۔ پاکستان کے لالچی اور کوتاہ اندیش حکمرانوں میں یہ شعور بھی نہیں تھا کہ وہ ملک میں منصفانہ انتخابات کراتے۔ عوام کو حکومتی امور میں شریک کرتے اور ملک کو آئینی بنیادیں فراہم کر کے‘ یکجہتی اور سالمیت کی بنیادوں کو مضبوط کرتے۔بھارت کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ اسے بنی بنائی ریاستی مشینری پوری طرح منظم اور موثر حالت میں مل گئی اور اس نے پہلے 5سال میں آزادی کے بعد پیدا ہونے والی تمام ضرورتوں کے بنیادی حصے پور کر ڈالے اور انتخابی عمل کے ذریعے عوام کو شریک اقتدار کر لیا۔ ہمارے نالائق حکمران ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور دفاع کا مطلب یہ لیا کہ امریکہ سے اسلحہ اور پیسہ لے کر‘ بھارتی خطرے کا مقابلہ کر لیں گے۔ ان کوتاہ اندیشوں کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایک نوزائیدہ ملک‘ عالمی ہاتھیوں کی لڑائی کا حصہ بن کر‘ اس کے نتائج کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہی ہوا۔ ہم فوجی معاہدے سے ملنے والے امریکہ کے ڈالروں اور اسلحے کی مستی میں ‘ دفاع کے حقیقی تقاضوں کو نظر انداز کر بیٹھے اور بھارت نے ان دفاعی معاہدوں کا بہانہ بنا کر‘ اقوام متحدہ میں کشمیر کے تنازعے پر کئے ہوئے وعدوں کو توڑ پھینکا۔ سوویت یونین کے خلاف‘ امریکہ کا فوجی حلیف بننے کی بنیاد پر اس نے سوویت یونین کو ہمارے خلاف یہ کہہ کر بھڑکا دیا کہ ''پاکستان‘ آپ کے دشمن امریکہ کا فوجی اتحادی ہے۔ یہ ملک ہمارا بھی دشمن ہے اور آپ کا بھی۔ ہمیں اس کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ امریکہ ‘تنازعہ کشمیر پر پاکستان کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔آپ ‘ اقوام متحدہ میں ہماری حمایت کریں اور امریکہ ہمارے خلاف کوئی فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کرے‘ تو اسے روک کر‘ ہماری مدد کریں۔‘‘بیشک بھارت رسماً غیرجانبدار ملک تھا۔ لیکن درپردہ وہ سوویت یونین کا حلیف بن گیا۔ جس کا ثبوت اس وقت ملا‘ جب اس نے مشرقی پاکستان میں بحران پیدا ہوتے ہی‘ خود سوویت یونین کے ساتھ فوجی معاہدہ کر لیا۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ امریکہ سے فوجی معاہدوں کے ساتھ ہی‘ بھارت کو سوویت یونین کی مکمل حمایت حاصل ہو گئی اور سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے ساتھ انصاف کے لئے‘ جو بھی قرارداد منظوری کے لئے پیش ہوئی‘ سوویت یونین نے اسے ویٹو کر دیا۔ بھارت کے وارے نیارے ہو گئے۔ تنازعہ کشمیر‘ اقوام متحدہ میں تصفیہ طلب حالت میں آج تک پڑا ہے۔ اس دوران بھارت نے معاشی اور صنعتی ترقی کرتے ہوئے‘ خود کو مضبوط سے مضبوط تر کر لیا۔ اندھا دھند سرمایہ خرچ کر کے‘ اس نے اپنی فوج کو ہر طرح کے اسلحہ سے لیس کیا اور ہم وقت کے ساتھ ساتھ توازن طاقت میں پچھڑتے چلے گئے۔
اقوام متحدہ میں جب بات بنتی نظر نہ آئی‘ تو پاکستان کے کوتاہ اندیش حکمرانوں نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے مقبوضہ کشمیر کا فوجی حل نکالنے کی احمقانہ کوشش میں آٹھ دس ہزار تربیت یافتہ مداخلت کار مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنا شروع کر دیئے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جا کر بھارتی فوجوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کریں۔ ان احمقوں کو چھاپہ مار جنگ کی الف ‘ ب ‘ ت کا پتہ بھی نہیں تھا۔ ایسی جنگیں لڑنے کے لئے چھاپہ مار کارروائیاں یا مقامی لوگوں کے ذریعے شروع کی جاتی ہیں یا عوام کی پرزور حمایت سے۔ مثلاً پہلے دو تین سال کے دوران‘ تھوڑے تھوڑے مداخلت کار جا کر مقبوضہ کشمیر میں نارمل زندگی اختیار کرتے۔ عام لوگوں میں گھل مل جاتے۔ انہیں جنگ آزادی کے لئے ذہنی طور پر آمادہ کرتے اور ان کی حمایت کے ساتھ چھاپہ مار کارروائیاں شروع کرتے۔ اس طرح عوام بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے اور شاید جنگ آزادی آگے بڑھ سکتی۔ مائوزے تنگ کامشہور مقولہ ہے کہ گوریلا جنگ لڑنے والے‘ عوام کے سمندر میں گھل مل جاتے ہیں۔ جس طرح مچھلی پانی کے باہر نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح چھاپہ مار بھی‘ عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے آزاد کشمیر میں کسی بھی طرح کی تیاری کئے بغیر‘ اچانک مداخلت کاروں کو سرحدپار بھیج دیا‘ جو کشمیری عوام کے لئے سرپرائز تھا۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ مسلح جنگجوئوں کا وہ کیا کریں؟ انہوں نے خود مقامی پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ‘ انہیں گرفتار کرانا شروع کر دیا اور ہمارے جینئس منصوبہ سازوں نے بے گناہ نوجوانوں کے جذبہ جہاد کا استحصال کرتے ہوئے‘ انہیں دشمن کے گھر میں پھنسا دیا۔ بھارت نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ پاکستان اس کے زیرکنٹرول علاقے میں تخریب کاری کر رہا ہے۔ اسلام آباد میں عقل کے اندھے حکمرانوں نے‘ اس منفی پراپیگنڈے کی اہمیت کا احساس کئے بغیر بوکھلاہٹ کے عالم میں متنازع سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ اکھنور کی طرف سے حملہ کر دیا۔ بھارت نے اس حملے کو تاریخ کا قیمتی تحفہ تصور کرتے ہوئے‘ سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر فوج کشی کر دی۔ ہمارے بقراط اس بیہودہ دلیل کے سہارے پر دہائیاں دینے لگے کہ بھارت نے عالمی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم نے تو متنازع علاقے میں کارروائی کی تھی۔ اس لئے دنیا کو بھارت کے خلاف ہماری مدد کرنا چاہیے۔ مدد کوئی کیا کرتا؟ سب سے پہلے تو امریکہ نے ہی اسلحہ اور فاضل پرزوں کی فراہمی روک کر‘ ہمیں قصوروار ٹھہرا دیا اور الزام لگایا کہ پاکستان نے جو فوجی اسلحہ ‘ہم 
سے سوویت یونین کے خلاف لیا تھا‘ وہ اس نے بھارت پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر فتح کرنے کا جو ''شاندار‘‘ منصوبہ بنایا تھا‘ اس کا انجام معاہدہ تاشقند کی صورت میں سامنے آیا۔ جس میں ہمیں تسلیم کرنا پڑا کہ دونوں ملک‘ کشمیر کا تنازعہ لے کر کسی عالمی فورم میں نہیں جائیں گے اور اس کا حل باہمی طور سے تلاش کریں گے۔ اب یہ تنازعہ وقت کے بھاری بوجھ تلے دب گیا ہے۔ قدرت نے ایٹمی تجربوں کے بعد موقع دیا تھا۔ نوازشریف نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے واجپائی حکومت کے ساتھ تنازعہ کشمیر کے آبرومندانہ حل کے بنیادی اصول طے کر لئے تھے۔ ہمارے چند جرنیلوں کے دماغ میں پھر ایک عجیب و غریب خیال آیا اور انہوں نے کارگل پر فوج کشی کر کے‘ کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ یہ کہانی آج میں اس لئے دہرا رہا ہوں کہ پاکستانی حکمرانوں کی مسلسل کارستانیوں کے نتیجے میں‘ آج ہم اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں کے خلاف فوج کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے 7 لاکھ غیرت مند قبائلی بھائی بہن‘ کیمپوں میں بے یارو مددگار پڑے‘ روٹی اور پانی کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ ہماری بیوروکریسی کو اندازہ ہی نہیں کہ اقبالؒ کا مرد کوہستانی کتنا غیوراور کتنی عزت نفس کا مالک ہوتا ہے؟(جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved