تیسری دنیا کے پسماندہ سماجوں میں سیاسی اور ریاستی ڈھانچے جتنے کمزور ہوتے ہیں‘ قلت‘ مانگ‘ ذلت اور لالچ کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ اس معروض میں سیاست ایک ہولناک دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور سرمایہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگتا ہے۔ انتخابات وغیرہ میں اساسوں، ٹیکسوں اور دیانتداری کا منافقانہ شور تو بہت مچایا جاتا ہے لیکن ریاست پیسے کے کردار کو روکنے سے قاصر اور سیاست سرمائے کی باندی بن کے رہ جاتی ہے۔
بھارت میں انتخابات کی ''شفافیت‘‘ کا بڑا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن اس ملک کا ہر انتخاب ماضی کی نسبت ''مہنگا‘‘ہوتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئے جانے والے اخراجات، بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ تھے۔ اس بار مالیاتی دھونس کے معاملے میں بھارت کی سیاست امریکہ جیسی مہنگی اورمبینہ طور پر بدعنوان ترین جمہوریت کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے ۔ پانی کی طرح پیسے کا یہ بے دریغ بہائو اس حقیقت کو افشاں کرتا ہے کہ سیاست اور ''جمہوریت‘‘ کتنے بڑے کاروبار بن چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو جتنا بالاتر اور برتر ادارہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے قوانین کی اتنی ہی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اہلکاروں کو تبدیل کردینے سے انتخابات میں پیسے کا کرداربدل نہیں سکتا۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ سیاست میں ' سنجیدگی‘ سے الیکشن لڑنے والے تمام امیدوار، اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر، سرکاری طور پر عائد اخراجات کی حد کو کس بے دردی سے پامال کرتے ہیں۔اس نظامِ زر میں زر سے ٹکرانے کی قوت کسی ریاستی یا سماجی ادارے کے پاس نہیں ہے۔ زرداروں کے تحفظ کے لئے ''ڈیزائن‘‘ کئے گئے ریاستی ڈھانچے انہیں کیسے قابو کر سکتے ہیں؟ جس سیاست میں تمام پارٹیوں کے نظریات اسی نظام کے تحفظ پر مبنی ہوں ، وہ دولت سے بغاوت کا کردار کیسے ادا کرسکتی ہے؟
اگر ''پرامن‘‘ سیاست کے یہ حالات ہیں تو پرتشدد کاروباروں میں صورت حال زیادہ سنگین ہے ،کیونکہ یہاں دولت کے حصول کے لئے بلا واسطہ خونریزی اور دہشت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور دوسرے رجعتی نظریات پر مبنی آگ اور خون کا کھلواڑ سرمایہ دارانہ معیشت کی پرتشدد شکل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہاں معاشی پہلو کے سوا دہشت گردی کے ہر پہلو پر بحث ہوتی ہے۔ کبھی مذاکرات کر کے اسے قابو میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی طاقت کے ذریعے اسے کچل دینے کے لئے آپریشن کئے جاتے ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ، سیاست دان اور دانشور کبھی اس ناسور کی مالیاتی سپلائی کا ذکر نہیں کرتے۔ دہشت گرد گروہوں کے پاس آخر اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ جب تک اس زہر آلود کالی دولت کی پائپ لائنیں بند نہیں ہوں گی، معاشرہ تاراج ہوتا رہے گا۔
دہشت گردی اور خونریزی کے مرتکب گروہ دراصل مختلف مافیا گینگ ہیں جو کالے دھن کے حصول کے لئے اندھی قتل و غارت گری کرتے ہیں۔ ان سے مذاکرات عوام کے ساتھ ایک بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں تھے۔ مذاکراتی کمیٹیوں والے اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ گروہ کبھی بھی''امن‘‘ قائم کرنے کے لئے اپنا منافع بخش کاروبار بند نہیں کریں گے۔کون سا سرمایہ دار ایسا ہے جو اپنی دولت اور منافع میں کمی چاہتا ہو؟ اور پھر مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے تو ''قانونی‘‘ سرمایہ داروں سے کہیں زیادہ ، بے صبرے اورتشدد پسند ہیں۔ جہاں تک فوجی آپریشن کا تعلق ہے، دہشت گردی سے گھائل عوام کے پاس فی الوقت امیدیں باندھنے کے سوا چارہ ہی کیا ہے؟ لیکن اس قسم کے فریبی، پوشیدہ اور چھپ کر وار کرنے والے دشمن کے خلاف آپریشن بڑا پیچیدہ اور گمبھیر ہوتا ہے۔ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے سیاستدان کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ نپولین نے ایک بار لکھا تھا کہ '' کسی بھی جنگ کی حکمت عملی میدان جنگ میں اترنے کے بعد ہی بنتی ہے ،اس سے پیشتر بنائے گئے سارے منصوبے جنگ شروع ہوتے ہی ہوا ہوجاتے ہیں‘‘۔ ان کی اس بات کو تاریخ نے کئی بار سچ ثابت کیا ہے ۔
جنگی حکمت عملی تیار کرنا بڑا نازک، تضادات سے پُراور پیچدار عمل ہے۔ اس مقصد کے لئے بنائے گئے فوجی کالجوں، تربیتی اداروں اور اکیڈمیوں کی دنیا بھر میں بھرمار ہے۔ ان اداروں میں نہ صرف نئے طریقہ کار اور لائحہ عمل سکھائے جاتے ہیں بلکہ ماضی کے جرنیلوں کے تجربات، جنگوں کے نتائج اور اسباق بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجوایشن کئے بغیرمسلح افواج کے افسران کی پروموشن میجر یا کرنل کے عہدوں سے اوپر نہیں ہوسکتی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ امریکہ کے فورٹ لیون ورتھ اور فورٹ بریگ سے لے کر برطانیہ کے سینڈ ہرسٹ تک، تمام سرکاری اور نجی فوجی تربیت گاہوں میں ماضی کے دوسرے سپہ سالاروں کے علاوہ سامراج کے سب سے بڑے دشمن لیون ٹراٹسکی کی جنگی حکمت عملی پر تصانیف بھی پڑھائی جاتی ہے۔ بالشویک انقلاب کے بعد لیون ٹراٹسکی نے تین لاکھ سپاہیوں پر مشتمل زار روس کی بچی کھچی اور خستہ حال فوج کو چند مہینوں میں آہنی عزم اور ڈسپلن کی حامل30 لاکھ کی سرخ فوج میں تبدیل کر دیا تھا۔اسی سرخ فوج نے دنیا بھر کے محنت کشوں کی حمایت اور انقلابی جوش و جذبے کے تحت مزدور ریاست کا دفاع کرتے ہوئے 21سامراجی ممالک کی جارحیت کو شکست فاش دی تھی۔
فوج کا حوصلہ اور عزم جنگ کے نتائج پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتا ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ صرف بہادری اور دلیری ہی فتح کی ضمانت نہیں ہوتی۔ جدید ٹیکنالوجی، مالیاتی طاقت اور پروپیگنڈا کے ساتھ ساتھ سپہ سالاروں کا جنگی سائنس پر عبور اور دسترس بہت ہی اہم عناصر ہیں۔ علاوہ ازیں عسکری اور سول قیادت کا حوصلہ،ا عتماد، قوت ارادی اور یکسوئی بھی بعض اوقات جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران افریقہ کے صحرائوں میں جنرل منٹگمری (برطانیہ) اور جنرل رومیل (جرمنی) کی فوجوں کے درمیان ہونے والا سب سے بڑا معرکہ ''الامین کی لڑائی‘‘ تھی۔ اس میں حصہ لینے والے برٹش انڈین آرمی کے کرنل شیر زمان بتایا کرتے تھے کہ جرنیل بعض اوقات بڑے حیران کن اورکارآمد طریقہ کار اختیار کرتے ہیں لیکن فیصلہ کن کردار متحارب ممالک کی صنعتی اور معاشی قوتیں ہی ادا کرتی ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن اس وقت صرف شمالی وزیرستان اورگردو نواح کے کم آبادی والے علاقوں میں ہورہا ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے سینکڑوں ''سلیپر سیل‘‘ ملک کے بڑے شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور جنوبی پنجاب کے دوسرے شہر اور قصبے، کراچی اور کوئٹہ میں بے شمار ٹھکانے موجود ہیں جہاں گنجان آبادیوں کے بیچ دہشت گرد گروہوں کے رہنما پناہ لیتے اور کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ شہروں کے کئی حصوں کو یرغمال بنانے والے یہی گروہ قبضوں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور ڈاکہ زنی میں بھی ملوث ہیں۔ اب یہاں آپریشن کیسے ہوں گے؟ ان درندوں کے خلاف جب تک عوام کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے، محنت کش اور نوجوان منظم ہو کر گلیوں اور محلوں کی سطح پر مسلح دفاعی کمیٹیاں نہیں بنائیں گے، اس وقت تک دہشت گردی کا موثر قلع قمع نہیں ہوپائے گا۔ (جاری)