تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     26-06-2014

فرض کرو ہم اہل وفا ہوں !

جون ایلیا اپنے انداز کا منفرد و یکتا شاعر تھا۔ اُس کے دبنگ لہجے کا ایک شعر ہے ؎
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
وفا کے ذکر پر شاعر اتنا سیخ پا کیوں ہے۔شاید اس لیے کہ وفا جنس نایاب ہے،ملتی تو پہلے دور میں بھی کم تھی، مگراس دور میں بالکل ہی نایاب ہو گئی ہے، ایسے دور میں، جب ہر کوئی ذاتی اور پرسنل ایجنڈے پر زندگی گزار رہاہو، وفائوں کا ذکر بے معنی ہے۔اب اولاد والدین سے وفا نہیں کرتی،اس لیے کہ وفا کے لیے ذات کی نفی کرنا پڑتی ہے۔وطن اور عوام کے دکھ میں جذباتی تقریریں کرنے والے سیاسی رہنما بھی صرف اپنی ہی سیاست چمکاتے ہیں۔خود سیاست کی لائم لائٹ میں رہنا چاہتے ہیں۔سو ایک ایسے دور میں، جب ہر شخص‘ اپنی زندگی کے دائرے میں جی رہا ہو، وفا کی باتیں دیوانے کا خواب لگتی ہیں۔مگر شاعر بھی تو خوابوں پر زندہ ہیں؟خواب دیکھتے ہیں اور اپنی نظموں اور شعروں کی لڑی میں خواب ہی پروتے ہیں۔ایسا ہی ایک البیلا شاعر تھا ابن انشاء جس نے 'فرض کرو‘ کے نام سے ایک خوبصورت نظم کہی چند مصرعے یوں ہیں ؎
فرض کرو ہم اہل وفا ہوں‘ فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے میخانے ہوں
فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو
کیا خوب صورت نظم ہے۔چلو آج ہم بھی وہ کچھ فرض کر کے دیکھتے ہیں‘جو ہم خواب دیکھتے ہیں کہ ایسا ہو۔مگر حقیقتاً ویسا ہوتا نہیں ہے۔چلو تو ہم بھی فرض کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی بھیڑ نہیں قوم ہوتے تو پھر ہم کس طرح سے جیتے۔اگر ہم سب ذات پات‘ نسل‘ مسلک‘مذہب‘ فرقوں سے آزاد ہو کر ایک دوسرے کے لیے سوچتے تو پھر اس ملک کی شکل و صورت کیسی ہوتی۔فرض کرو۔ہم اپنے اپنے مسلک میں رہ کر بھی انسان سے محبت کرنا سیکھ چکے ہوتے تو پھر یہ دوفرقوں کے درمیان فساد اور ہنگامے ۔ اور مسالک پر سیاست کرنے والے مذہبی رہنمائوں کا مستقبل کیا ہوتا؟فرض کرو،ہم پاکستانی ہر مسئلے کے حل کے لئے حکومتوں کی جانب دیکھنے کی بجائے‘ خود کام کرنے والے لوگ ہوتے۔ہم صرف حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے‘یہ سوچتے کہ پاکستانی کی حیثیت سے ہم نے اپنے وطن کے لیے کیا کیا۔؟فرض کرو کہ ہمارے حکمران ہی ایسے ہوتے کہ عوام کی فلاح‘پاکستانیوں کی بہبود ہی ان کا مطمح نظر ہوتی۔اہلیت میرٹ‘اور انصاف کے تقاضوں پر سب کام سرانجام پاتے تو پھر وطن عزیز کی صورت کیسی ہوتی۔
فرض کرو، کہ مرے وطن کے کارخانہ دار،جاگیردار سیاستدان، حکمران ،بڑے بڑے تاجر،اپنے روپے کو غیر ملکی بنکوں میں جمع نہ کرواتے۔ اربوں روپے جو باہر پڑے ہیں ان کی انویسٹمنٹ پاکستان میں ہوتی۔نواز شریف سے لے کر اسحاق ڈار تک‘سب کی دولت اور سب کا سرمایہ اپنے وطن میں استعمال ہوتا،تو پھر کیسا ہوتا۔یقینا ہم آئی ایم ایف کے غلام نہ ہوتے۔ ڈار صاحب بھی بجٹ میں ہندسوں کی شعبدہ گری دکھا کر ملک میں خوشحالی کی تصویر نہ کھینچتے بلکہ وطن عزیز میں حقیقی خوش حالی ہوتی۔ فرض کرو کہ آج ہی سب سرمایہ دار اعلان کر دیں کہ بیرونی بنکوں میں پڑی رقم وہ پاکستان لے آئیں گے اور حب الوطنی کے عظیم جذبے کے تحت ان اربوں کھربوں روپے سے پاکستان کا قرض اتاریں گے۔آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں گے تو پھر،مرے وطن کا ہر بچہ جو قرض کا بوجھ لے کر پیدا ہوتا ہے‘وہ اس بوجھ سے نجات پاتا۔اور خود انحصاری کا نعرہ خواب سے حقیقت میں بدل جاتا!
فرض کرو، کہ یہ تمام سیاسی رہنما‘آج اپنے خول سے نکل کر اس دھرتی اور اس مٹی کے لیے اخلاص کے ساتھ سوچنے لگیںاپنی ذات کو سیاست کے آئینہ خانے میں ہمہ وقت دیکھنے کے خواہش مند‘پاکستان کے لیے سوچیں تو ان کے دلوں میں حب الوطنی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگے گا۔فرض کرو، اس لمحے احتجاجی سیاست کے شوقین، ان پاکستانی بہن بھائیوں کے بارے میں سوچیں، جو جنگ زدہ علاقوں سے ‘بے کسی کے عالم میں ہجرت کر رہے ہیں اور اپنے ہی وطن میں مہاجر ہیں،ایسے وقت میں ان بہادر پاکستانیوں کو‘ضرورت ہے کہ ان کے دکھ درد اور ضرورت کے وقت ان کا ساتھ دیا جائے۔ فرض کرو، ٹرین مارچ کا ارادہ رکھنے والے شیخ رشید ‘ اپنی ٹرین کا رخ بنوں کی طرف موڑ دیتے ہیں تاکہ بنوں پہنچ کر لاکھوں آئی ڈی پیز پاکستانیوں کے پاس خود جا کر ان کے مسائل کا اندازہ کریں۔اپنی موجودگی اور اپنے وسائل سے ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔شیخی بگھارنے کی بجائے کچھ کر کے دکھائیں!
فرض کرو ،کہ عمران خان بھی دھرنوں، جلسوں، مطالبات اور حکومت کے خلاف چارج شیٹ کی سیاست کو چھوڑ کر خیبر پختونخوا میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں،بنوں‘لکی مروت‘ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں جہاں شمالی وزیرستان سے آنے والے مہاجرین کے کیمپس موجود ہیں‘وہاں کے دورے کریں۔ان کی موجودگی سے،لوگوں کا مورال بلند ہو گا۔اپنے کارکنوں کو منظم کر کے ایسی فورس تشکیل دیں کہ جب تک یہ بے گھر پاکستانی جنگ بندی کے بعد اپنے گھروں کو واپس نہیں چلے جاتے،تب تک پی ٹی آئی کے پر خلوص کارکن ہمہ وقت ان کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہیں۔فرض کرو، کہ 23جون کو پاکستان آنے والے شیخ الاسلام ، جو دن رات پاکستانیوں کی حالت زار پر آنسو بہاتے ہیں،جذباتی تقریریں کرتے ہیں اور پاکستانیوں کو انقلاب کے ذریعے بہتر اور خوبصورت مستقبل دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ کینیڈا کی آرام دہ زندگی تج کر پاکستان آئے ہیں۔فرض کرو،شیخ الاسلام پاکستان اور پاکستانیوں کی محبت میں ‘23جون کو یہ اعلان کرتے کہ وہ جنگ سے متاثر ہونے والے پاکستانی بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بنوں جائیں گے اور کروڑوں روپیہ اپنے جلسوں پر خرچ کرنے والے اپنے ایک جلسے کا خرچہ ہی سہی،آئی ڈی پیز کے لئے قائم کردہ امدادی فنڈمیں جمع کروائیں گے۔
چلو فرض کرو،وہ یہ کہتے ہیں کہ اب وقت ہے وطن کے قرض کو اتارنے کا۔ ہماری بہادر افواج،مائوں کے بہادر اور جری سپوت، دہشت گردی کی جنگ میں برسر پیکار ہیں۔ یہ وقت کسی احتجاجی سیاست کا نہیں،یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے عظیم اور مشکل مقصد کے لیے صرف کریں۔وہ اپنے پرعزم کارکنوں سے کہتے کہ وہ اپنے مہاجر بھائیوں کی مشکلات دور کرنے میں مصروف عمل ہو جائیں۔سوچیں کہ اگر سچ مچ ایسا ہو جاتا،تو پھر 23جون کا دن کتنا مختلف ہوتا۔وہ صرف اپنے کارکنوں کے نہیں،باقی پاکستانیوں کے بھی دل جیت لیتے۔لیکن یہ سب تو فرضی کہانیاں ہیں۔فرض کرو ہم اہل وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں،فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved