ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے باہر پنجاب حکومت نے خود دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ یہ ہے اس کہانی کا انجام۔ جن رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے پنجاب پولیس کے ذریعے تیرہ نہتے اور بے گناہ بندے مارنے پڑے اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے اور اسلام آباد میں پولیس کے سو بندے پتھرائو سے زخمی ہوئے، اب حکومت نے خود وہ بحال کر دی ہیں۔ جن خاندانوں کے افراد کو گولیاں مار کر قتل اور زخمی کیا گیا‘ وہ یقیناً حیران ہوں گے کہ آخر یہ کون سا اتنا بڑا جرم تھا‘ جس پر چار بچوں کی ماں کو گولیاں ماری گئیں اور متعدد گھر اجڑے! آخر اتنا غصہ کس چیز کا تھا جو لہو کی شکل میں بہانا پڑا؟
میں اسی سوچ میں غرق تھا کہ واشنگٹن سے پھر اسی ریٹائرڈ پولیس افسر کا فون آیا‘ جس سے پہلے بات ہوئی تھی اور جس کے بارے میں کالم لکھا تھا۔ کہنے لگے: ''میں آپ کی حیرانی دور کرتا ہوں۔ آپ نے سکھوں والا لطیفہ تو سن رکھا ہوگا!‘‘ میں نے کہا: ''سرکار بے چارے سکھوں کے لطیفے تو بے شمار ہیں‘‘۔ ریٹائرڈ پولیس افسر کہنے لگے: ''جب میں نے پچھلے ہفتے یہ سنا کہ رات کے اندھیرے میں پولیس منہاج القرآن مرکز میں سوئے ہوئے لوگوں پر حملہ آور ہوئی اور ایک درجن سے زائد افراد قتل اور ایک سو سے زیادہ گولیاں مار کر زخمی کر دیے گئے تو مجھے وہ سکھ یاد آ گئے جو ایک رات غریبوں کی ایک بستی پر حملہ آور ہوئے اور جو ڈنڈے مارنے کے ساتھ ساتھ طنزیہ انداز میں کہتے جاتے... ہور چوپو‘‘۔ میں نے کہا: ''لطیفہ تو سب نے سن رکھا ہے لیکن اگر موقع کی مناسبت سے ہے تو پھر سنا دیں‘‘۔ کہنے لگے: ''ایک گائوں میں سکھ بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ بات چل نکلی‘ کیوں نہ اس سال کماد کی فصل کاشت کی جائے۔ فوائد گنواتے ہوئے ایک بولا‘ ہم خود گنے رج کے چوسیں گے، پھر کڑاہ میں گرم گرم گڑ بنا کر
کھائیں گے اور جو کماد بچ جائے گا وہ شوگر مل کو بیچ کر خرچہ نکالیں گے اور یوں بلے بلے... اب اس پر بحث شروع ہو گئی کہ گنے کی فصل تیار کیسے ہو گی۔ کتنا خرچہ ہو گا۔ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ کھاد‘ بیج کا کیا بنے گا۔ پانی کتنا دینا پڑے گا۔ کٹائی کیسے ہو گی... درمیان میں خاصی دیر سے چپ بیٹھا ایک سکھ بول پڑا‘ وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن ایک بات ہے۔ سب نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا‘ اور تو سب ٹھیک ہے لیکن تم لوگ ایک بات بھول رہے ہو‘ بیوقوفو محنت تم لوگ کرو گے لیکن گنے قریبی بستی کے غریب اور کمی کمین چوری کر کے ''چُوپ‘‘ جائیں گے۔ سب چونک گئے۔ بات تو بڑے پتے کی تھی۔ یہ تو وہی حساب ہوا‘ محنت کرے بی فاختہ کوے انڈے کھائیں۔ سکھوں کا دماغ پھر گیا۔ انہوں نے کہا‘ ان کمی کمینوں کی یہ جرأت! اب یہ ہمارے گنے کھائیں گے! ہماری محنت کو یہ ''چوپ‘‘ جائیں گے! ہمیں چڑائیں گے!
سب کھڑے ہو گئے۔ ڈنڈے پکڑے اور کہنے لگے‘ گنے کی فصل جب تیار ہو گی تب ہو گی ۔ پہلے گائوں کے کمیوں کو سبق سکھا کر آتے ہیں کہ یہ کیسے ہمارے گنے چوری کر کے چوسیں گے۔ یوں سکھوں کا جتھہ چل پڑا اور رات کے اندھیرے میں سوئے ہوئے غریبوں پر پل پڑا۔ بے چارے غریب ان سکھوں کے منصوبوں سے بے خبر مار کھا رہے تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مار کیوں پڑ رہی ہے۔ سکھ انہیں مارتے جاتے اور ساتھ زور زور سے کہتے... ہور چوپو گنے‘‘۔
ریٹائرڈ پولیس افسر کہنے لگے: ''اب جو کچھ لاہور میں ہوا‘ سکھوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غور کریں‘‘۔
کہانی کچھ یوں بنتی ہے کہ طاہرالقادری کی آمد آمد ہے۔ لاہور کے بڑے سیاسی آدمی کے دفتر میں پنجاب حکومت کے کچھ بڑے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ عمران خان ابھی ابھی جلسے سے فارغ ہوئے ہیں۔ وہ پنجاب میں ہر جگہ رش لے رہے ہیں۔ وہ پریشانی ابھی ٹلی نہیں کہ اوپر سے طاہرالقادری... حکومت کو خوف ہے کہ حکومت گرانے کا پلان بن گیا ہے‘ اس لیے یکدم ان کی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن میں تیزی آ گئی ہے۔ سیاسی مخالفین اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ شکوک اس لیے بڑھ گئے ہیں کہ مبینہ طور پر ان دنوں فوج اور حکومت کے درمیان کچھ اختلافات چل رہے ہیں۔ کچھ سیاسی مخالفین ان کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔ عمران خان کا معاملہ انہیں زیادہ سیاسی لگتا ہے لیکن طاہرالقادری کا تو ذاتی ہو چکا ہے۔ اس میٹنگ کے شرکا کو علم ہے کہ شریف برادران اور طاہرالقادری میں ماضی کا احترام اور قلبی تعلق اب دشمنی میں بدل چکا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر انہوں نے طاہرالقادری اور ان کے پیروکاروں کی ٹھکائی کر دی تو یقیناً بڑے میاں صاحب انہیں شاباش کے ساتھ ساتھ کچھ انعام بھی دیں گے۔ اس اجلاس میں یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ کسی نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے غبارے میں کچھ زیادہ ہی ہوا بھر دی ہے جسے نکالنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کسی مشن پر پاکستان لایا جا رہا ہے تاکہ حکومت کو کمزور کر کے ختم کیا جائے۔
اب اجلاس میں یہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کیا علاج کرنا چاہیے۔ ایک یہ ہے کہ جس دن وہ وطن واپس لوٹیں‘ اسی دن انہیں آڑے ہاتھوں لیا جائے یا پھر یہ نیک کام آج سے ہی شروع کیا جائے اور پہلی ٹھکائی ان کے کارکنوں کی ہی کر دی جائے۔ یہ سوچا جاتا ہے کہ سیاسی ماسٹرز کو کیسے خوش کیا جائے۔ کسی نے پوچھا ہو گا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف اگر کوئی مقدمہ ہے تو انہیں واپسی پر جہاز لینڈ کرتے ہی گرفتار کر لیتے ہیں؟ جواب نفی میں ملا ہو گا۔
ایک بڑی سیاسی شخصیت نے ہمت نہ ہاری ہو گی اور پھر پوچھا ہو گا کہ کون کون سے نئے مقدمات راتوں رات بنائے جا سکتے ہیں تاکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ڈرایا جائے اور وہ پاکستان کا رخ ہی نہ کریں۔ جواب ملا ہو گا کہ جناب اور تو کچھ نہیں لیکن پرویز رشید صاحب کا بیان چھپا ہے‘ منی لانڈرنگ کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے منی لانڈرنگ کا سن کر اس اجلاس میں بیٹھا بڑا سیاسی آدمی ڈر گیا ہو کیونکہ اسحاق ڈار کا نیب کو دیا گیا بیان ابھی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے کیسے شریف خاندان کی حدیبیہ پیپر مل کے لیے منی لانڈرنگ کی تھی۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ جھنجھلا کر بڑے سیاسی رہنما نے پھر پوچھا ہو گا کہ علامہ طاہرالقادری کو پاکستان لوٹنے اور لاہور میں ہنگامہ آرائی سے باز رکھنے کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟
پھر کسی سمجھدار کے ذہن میں سیانے سکھ کی طرح کا آئیڈیا آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا: سر‘ ایسے کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں کی ابھی سے ٹھکائی شروع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی وطن واپسی میں ابھی پانچ دن باقی ہیں۔ ہنگامہ آرائی تو یہ کارکن ہی کرتے ہیں‘ اس لیے ان کو ایک پھینٹی ایڈوانس میں لگاتے ہیں۔ جب 23 جون کو کارکن ہی نہیں ہوں گے تو طاہرالقادری صاحب کیا کر لیں گے۔
کسی سمجھدار نے پوچھ لیا ہو گا کہ جناب اگر سوئے ہوئے کارکنوں نے مزاحمت کی کوشش کی تو...؟ جواب ملا ہو گا کہ گولیوں سے بھون دو۔ مقصد یہ ہے کہ23 جون کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی واپسی پر کارکن اکٹھے نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ انتظار کرنے کی بجائے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی واپسی والے دن کوئی ہنگامہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ پانچ دن پہلے ہی کر لیا جاتا ہے کہ ان کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جائے۔ یوں پولیس کا ایک جتھا پوری تیاری کے ساتھ جا کر کارکنوں کی ٹھکائی اسی طرح شروع کر دیتا ہے‘ جیسے سکھوں نے گائوں کے کمیوں کی اپنا کماد کا خیالی کھیت اجاڑنے پر کی تھی۔ پھر بات ٹھکائی سے ہوتی ہوئی گولیوں تک پہنچی اور پھر قتل عام شروع ہوگیا ۔
سکھوں کے ہاتھوں پٹتے گائوں کے کمیوں کی طرح ڈاکٹر صاحب کے سوئے ہوئے کارکن بھی یقینا حیران ہوتے ہوں گے کہ پولیس رات گئے کیوں ان پر چڑھ دوڑی ہے۔ ان سے ایسا کیا جرم ہو گیا کہ پولیس نہ صرف انہیں مار رہی ہے بلکہ ان پر سیدھی گولیاںبھی چلا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ پولیس ہر نہتے کارکن پر گولی چلانے کے بعد یہ نعرہ بھی لگاتی ہوگی... ہور چوپو...!
سکھ پھر بھی رحم دل نکلے۔ سکھوں کا کماد کا کھیت اجڑ رہا تھا‘ لہٰذا صرف ڈنڈے چلائے گئے جبکہ لاہور میں حکومت اجڑ رہی تھی تو اس کو بچانے کے لیے گولیاں چلا کر بندے مارنے پڑے۔ سکھوں کے خیالی کماد کا کھیت اجڑنے اور حکومت کو واقعی میں اجاڑنے کی کوشش کی سزا میں یقینا بہت فرق ہونا اور نظر آنا چاہیے تھا جو لاہور پولیس نے کمال مہارت سے تیرہ بندے مار کر برقرار رکھا۔ آفرین!