جن عوام نے دہشت گردوں کے خلاف حقیقی طور پر لڑنا ہے انہیں تو پہلے ہی حکمرانوں کی معاشی، سماجی اور سیاسی دہشت گردی نے مفلوج کر رکھا ہے۔ ریاستی اداروں اور اہلکاروں کا نشانہ بھی اکثر و بیشتر غریب اور محنت کش ہی بنتے ہیں۔ عوام کو متحرک اور منظم کرنے کے لئے جرأت مندانہ قیادت اور لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور معاشی جبر واستحصال سے نجات اور آزادی کا پروگرام بھی درکار ہوتا ہے۔ ایسا پروگرام جو ان کے جسم اور روح کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ زخم لگانے والے بھلا مرہم کیسے رکھ سکتے ہیں؟ استحصال کرنے والوں نے کبھی استحصال کے خلاف کوئی پروگرام دیا ہے؟ ایسے کسی اقدام کی ضرب دہشت گردی کے کالے دھن کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کے مفادات پر بھی پڑے گی کیونکہ ''قانونی‘‘ سرمایہ دار بہت سے غیر قانونی دھندوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں اور یہ کالا دھن سفید ہوتا رہتا ہے‘ لہٰذا عوام کو متحرک کرنا پاکستان کے حکمران طبقے کے بس میں ہے‘ نہ ہی وہ ایسی غلطی کرنا چاہیں گے۔ اس ملک کے محنت کش عوام ایک خود رو تحریک میں ہی اٹھیں گے اور عوام جب جاگتے ہیں تو بڑی سے بڑی دہشت گردی اور ظلم کو نیست و نابود کردیتے ہیں۔
دہشت گردی کی مالیاتی بنیادوں اور کالی دولت کی آمدن کے ذرائع کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو بات بہت ''دور‘‘ تک چلی جاتی ہے۔ یہ ''مذہبی‘‘ اور ''غیر مذہبی ‘‘ دہشت گردی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے ، وسط ایشیا سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے لے کر جنوبی امریکی تک مختلف سامراجی اور مقامی اجارہ داریوں کے مالیاتی مفادات کے تحت دہشت اور خونریزی کا بازار گرم ہے۔ افریقہ کا شاید ہی کوئی ملک خانہ جنگی اور انتشار سے بچا ہو۔ معدنیات اور ہیروں کی کانوں پر تسلط،اسلحے کی فروخت ، منشیات کے کاروبار اور انسانوں کی سمگلنگ جیسی کئی وجوہ اس خونریزی کے پیچھے کارفرما ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ایسی مذہبی دہشت گردتنظیمیں موجود ہیں‘ جو تیل کے کاروبار سے اور امریکہ سے درآمد شدہ گاڑیاں مغربی افریقہ میں فروخت کر کے بے تحاشا منافع کما رہی ہیں۔
عالمی سرمایہ داری کی نمائندگی کرنے والا سب سے پرانا اور اہم جریدہ ''اکانومسٹ‘‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے: ''اغوابرائے تاوان، منشیات کی سمگلنگ، بینکوں میں خورد برد اور بھتہ خوری ان بے شمار طریقوں میں شامل ہیں جن کے ذریعے دہشت گرد اپنے ہولناک جرائم کی فنانسنگ کرتے ہیں۔ حکومتیں ان بینکوں کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ جو ان خطرناک عناصر کے مالی معاملات میں معاونت کرتے ہیں۔ 2012ء میں امریکی حکومت نے ایک برطانوی بینک پرکالے دھن کو سفید کرنے کے جرم میں 1.9ارب ڈالر کا جرمایہ عائدکیا تھا۔ اسی طرح بارکلیز (برطانیہ) اور اِنگ (ہالینڈ) پر انہی الزامات کی بنیاد پر بھاری جرمانے عائد کئے گئے ہیں۔ فرانس کے بینک 'بی این پی پاری باس‘ کو 10ارب ڈالرکے جرمانے کا سامنا ہے۔۔۔۔۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کو پیسے کی فراہمی بند کردی جائے تو یہ ٹوٹ کر بکھر جائے گی‘‘۔ بقیہ مضمون میں مختلف توجیہات پیش کی گئیں ہیں کہ ایسا مکمل طور پرکیوں ممکن نہیں ہے؛ تاہم اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘کرنے والے سامراجی ممالک کے اپنے بینک اور اجارہ داریاں پوری طرح دہشت گردی کی معیشت میں ملوث ہیں۔
2008ء میں شروع ہونے والے عالمی سرمایہ داری کے صنعتی اور معاشی زوال کے بعد یہ سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ اربوں ڈالر کے جرمانوں کے باوجود یہ کاروبار بڑا منافع بخش ہے۔ سرمایہ دار اپنی شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے کے لئے تیار ہیں، چاہے وہ دہشت گردی کے کالے دھن سے منافع خوری ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان اور افغانستان میں جاری دہشت گردی کی معاشی بنیادیں سب سے پہلے امریکی سامراج نے ہی فراہم کی تھیں۔ 1978ء میں شروع ہونے والے ڈالر جہاد کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہیروئین اور دوسری منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ کا نیٹ ورک سی آئی اے نے بچھایا تھا۔اس کے بعد سے یہ کالی معیشت جتنی وسیع ہوئی ہے‘ دہشت گردی کی وحشت اور خطے کے عدم استحکام میں اتنا ہی اضافہ ہے۔ اس آگ میں آج سامراجیوں کے اپنے ہاتھ بھی جلنے لگے ہیں۔
بی بی سی کی ویب سائٹ پر حال ہی میں روپذیر ہونے والے ایک مضمون میں اینڈریو نارتھ لکھتے ہیں: ''جوں جوں نیٹو افغانستان میں پسپائی اختیارکررہی ہے، طالبان دولت کے انباروں میں لوٹ پوٹ رہے ہیں۔ یہ 'تحریک‘ ایک مجرمانہ کاروبار بن چکی ہے۔ ان کی دولت کے حوالے سے جو اندازے لگائے گئے ہیں، وہ بہت کم ہیں۔ جب تک طالبان اور دوسرے دہشت گردوگروہوں کو پیسے کی سپلائی بند نہیں ہوتی،ان کی سرکشی کو دبانا ممکن نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں لکھا گیا: ''اس سال افیون کی بڑی فصل سے منشیات کی آمدن میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ منشیات کے علاوہ اغوا برائے تاوان، غیر قانونی کان کنی اور دوسرے مجرمانہ کاروباروں سے دہشت گردوں کے مختلف گروہ مافیا طرزکے 'سنڈیکیٹ‘ بن
چکے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں ڈالر ان کی تجوریوں میں گر رہے ہیں جس سے دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔ امن ان کے منافعوں کے لئے خطرہ ہے۔ اگلے سال اس دولت کے دوگنا ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ خلیج سے ان کے مالدار سرپرستوں کے پیسے کی ترسیل مبینہ طور پر پاکستان میں قائم ہنڈی کے نظام کے ذریعے ہوتی ہے۔کانوں پر قبضے، قیمتی پتھروں کی سمگلنگ اور جنگلات کی کٹائی ان دہشت گرد گروہوں کے کئی کاروباروں میں چند ایک ہیں۔ یہ کسی مذہبی نظریے پر مبنی تحریک نہیں بلکہ منافع پر مبنی جرائم پیشہ نیٹ ورکس کا متزلزل الحاق ہے‘‘۔
حکمرانوں کے اپنے ادارے تسلیم کر رہے ہیںکہ رد انقلابی ڈالر جہاد کے جس دیو کو سامراجیوں نے بوتل سے نکالا تھا وہ اب قابو سے باہر ہوگیا ہے۔ اس بربریت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اس کالے دھن کو نہ صرف پاکستان اور افغانستان کی سرکاری معیشتوں پر سبقت حاصل ہے بلکہ اس ناسور کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت میں گہرائی تک پھیل چکی ہیں۔ کالے دھن پر مبنی یہ مذہبی جنون سماج، سیاست اور ریاست پر اثرورسوخ اور اتھارٹی حاصل کر چکا ہے۔ جرائم پر مبنی کالی معیشت کا کینسر پہلے سے نیم مردہ نظام کو اندر ہی اندر کھا رہا ہے۔
محنت کش عوام کو سیاہ اور ''سفید‘‘ سرمائے کے اس چنگل سے نکلنے کے لئے سرمایہ داری کے خلاف بغاوت کرنا ہوگی۔ انقلابی جراحی کے علاوہ اس سرطان کو جڑوں سمیت سماج پر سے کاٹ پھینکنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے! (ختم)