سہ ماہی ادبی سلسلہ ''نیا ادب‘‘ بنگلور کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے جسے شاعر خلیل مامون نکالتے ہیں اور جس کی مجلسِ ادارت میں شفیع شوق‘ شائستہ یوسف‘ ناصر عباس نیّر و دیگران شامل ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ قابل ذکر حصہ مہاشویتا سین کا افسانہ ''دروپدی‘‘ ہے جسے شبیر احمد نے ترجمہ کیا ہے۔ مہاشویتا سین کو بھارتی ادب میں ایک بہت بڑے نام کے طور پر مانا جاتا ہے جنہیں اعلیٰ ترین ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ افسانے کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں؛ تاہم یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ اس کی ہیروئن ایک زبردست کردار کی حامل خاتون ہے۔ ایسے بڑے کردار ہمیں سعادت حسن منٹو کے ہاں ملتے ہیں جو زیادہ تر نسوانی ہیں‘ ماسوائے بابو گوپی ناتھ اور مودا پہلوان وغیرہ کے۔ ایسا ہی ایک زبردست نسوانی کردار ہمیں مستنصر حسین تارڑ کے مشہور ناول ''بہائو‘‘ میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مین را اور جیلانی بانو کے گوشے بطور خاص شامل کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں پر مین را بھی ایک بڑا نام ہے لیکن اس کے شائع ہونے والے تمام تر افسانے بے تُکے اور غیر موثر ہیں۔ وجہ ان کا ضرورت سے زیادہ تجریدی ہونا ہے۔ وہ خود بھی اپنے مضمون میں تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے کوئی خاص تیر نہیں مارا؛ البتہ وہ منٹو کو بڑا افسانہ نگار اس لیے نہیں مانتے کہ اس کے افسانے گلوبل سطح کے نہیں ہیں جو بجائے خود ایک فضول اور بچگانہ اعتراض ہے کیونکہ منٹو کے اکثر افسانوں میں گلوبل سطح کا ارتفاع یقینا موجود ہے۔ جیلانی بانو کے افسانے کم از کم افسانے تو ہیں۔
مخصوص چیزوں میں عتیق اللہ کی درجن بھر غزلیں ہیں ، جن پر ایڈیٹر نے شروع میں ایک توصیفی مضمون قلمبند کیا ہے۔ عتیق اللہ سے شعر بنتا نہیں ہے‘ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعر بنتے بنتے رہ جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شاعری اس شاعری سے بہتر ہے جو بھارت بلکہ ہمارے ہاں بھی ٹنوں کے حساب سے تخلیق کی جا رہی ہے۔ شعر میں تازگی اور تاثیر نہ ہو تو اسے شعر نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال یہ درمیانے درجے کی شاعری ضرور ہے جبکہ میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ شعر کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں دو ہی درجے ہوتے ہیں‘ فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس‘ اس لیے درمیانے درجے کا شعر بھی تیسرے ہی درجے کا شمار ہوگا۔ عتیق اللہ کو ایک اپنے ہی ہم وطن فرحت احساس کی شاعری پڑھنی چاہیے۔
نثری نظموں کا حصہ خاصا وقیع ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے چیدہ چیدہ شعراء کی لکھی ہوئی نثری نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ ابتدا میں اسی موضوع پر عبدالسمیع کا مضمون ہے۔ افسانوں کا حصہ بھی خاصا جاندار ہے جس میں مرزا حامد بیگ‘ رشید امجد‘ فرحت پروین‘ مظہر الزمان خاں‘ محمد سعید شیخ، اکرام باگ اور شبیر احمد جیسے نمایاں نام موجود ہیں، جبکہ ''بنارس والی گلی‘‘ کے نام سے ناولٹ فیاض رفعت نے لکھا ہے۔ شیوپرکاش کی منتخب کنٹر نظموں کا ترجمہ خلیل مامون نے کیا ہے۔ ''قصہ انگلینڈ کے پہلے سفر کا‘‘ کے عنوان سے قیصر ضحیٰ عالم کا سفرنامہ ہے اور نظموں میں اصغر ندیم سید‘ مصحف اقبال توصیفی‘ جینت پرمار اور دیگران کی تحریریں شامل ہیں۔ اب عتیق اللہ کی غزلوں میں سے کچھ بہتر اشعار:
یوں تو وہ لوگ مجھ ہی جیسے تھے
ان کی آنکھوں میں اور ہی تھا کچھ
فضا میں ہاتھ تو اٹھے تھے ایک ساتھ کئی
کسی کے واسطے کوئی دعا نہ کرتا تھا
وہ چاہتا ہے کیا جائے اعتبار اُس پر
تو اعتبار بھی کچھ روز کر کے دیکھا جائے
اس گلی سے اُس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں
راہ اتنی ہی میسر ہے‘ سفر اتنا ہی ہے
اور‘ اب سید نوید حیدر کی 20 غزلوں میں سے کچھ قابلِ ذکر اشعار:
یہ بند آنکھیں انہیں صاف دیکھ سکتی ہیں
حدودِ خواب سے آگے جہاں جہاں کوئی ہے
تمہارے ساتھ مرا خواب تک کا رشتہ تھا
سو ہو رہا ہوں میں بیدار فی امان اللہ
یہ زندگی تو گزاری ہے عادتاً میں نے
کوئی بھی کام خوشی سے نہیں کیا ترے بعد
اب اس میں رہنا مرے لیے ہے محال مرشد
مجھے بدن کے کنوئیں سے باہر نکال مرشد
دعا کے پانی سے گوندھی گئی ہے یہ مٹی
میں اس سے ایک پرندہ بنانے والا ہوں
یہ ہاتھ خاک پہ یونہی نہیں رکھے میں نے
میں اس زمین کو حرکت میں لانے والا ہوں
اور‘ اب اوم پربھارکر کے یہ تین شعر:
پرندے ہیں ہوائوں میں‘ ہوائیں آسمانوں میں
مگر ہے چہچہاہٹ اب بھی خالی آشیانوں میں
بقدرِ شوق اُڑانیں بھر سکوں
فلک اتنا میسر ہے کہاں
خرابے کو خرابہ مان کر چھوڑیں بھلا کیسے
ہمیں اس کو اُلٹ کر ڈھونڈنا ہو گا کوئی دریا
کوئی ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت دستاویز آل انڈیا اردومنچ بنگلور نے شائع کی ہے ،جس کی قیمت 500 روپے ہے۔
آج کا مطلع
رفتہ رفتہ کسی راکھ میں ڈھلتا رہتا ہے
دل سگرٹ کی طرح سُلگتا جلتا رہتا ہے