تحریک انصاف کے نوجوانوں نے‘ اپنے ہیرو عمران خان سے اختلاف کرنے والوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تبرے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ابتدا میں وہ بہت تند و تیز تھے۔ شاید اب اپنے سینئرز کے زیر اثر‘ گندی زبان لکھنا چھوڑ گئے ہیں۔ 2013ء میں ڈاکٹر صاحب اسی طرح پاکستان کے طوفانی دورے پر تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بے مقصد جلوس نکالے۔ اسلام آباد میں تین چار دن تک دھرنا دیا۔ اپنے حامیوں‘ حتیٰ کہ عورتوں اور بچوں کو شدید بارش اور سردی میں بغیر کسی چھت کے ٹھٹھرنے پر مجبور کیا۔ پھر حکومتی ٹیم سے بے نتیجہ مذاکرات کئے اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس مہم میں ڈاکٹر صاحب نے بے تحاشہ دولت لگائی۔ جلسے جلوسوں پر خرچ ہونے والی رقم کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا لیکن میڈیا پر جتنی رقم لگائی گئی‘ اس کا اندازہ ریکارڈ سے ہو سکتا ہے۔ جس شخص میں ذرا سی بھی سیاسی سوجھ بوجھ ہے‘ وہ آج تک نہیں جان سکا کہ اس پورے ہنگامے کا مقصد کیا تھا؟ حامیوں سے جلوس کیوں نکلوائے؟ دھرنا کیوں دیا؟ ان کے مطالبات کیا تھے؟ آج تک کوئی نہیں جان سکا۔ ان کے عقیدت مندوں اور پرستاروں کی بات اور ہے۔ وہ ان کی جذباتی اور گرج دار تقریریں سن کے‘ بند آنکھوں سے ان کے مقلد بنے ہوئے ہیں۔ جس طرح کسی پیر کے اندھے عقیدت مند یہ تک ماننے کو تیار ہوتے کہ پیر صاحب عام انسانوں کے برعکس روٹی‘ پانی‘ نیند اور تھکن سے بالاتر ہیں اور جنوں‘ بھوتوں اور بھٹکی روحوں کو تسخیر کر کے‘ ان سے اپنے احکامات منواتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مندوں کے ساتھ ہے۔ وہ اگر میرے ایک کالم پر بھڑک اٹھے تو قصوروار نہیں۔ انہوں نے میرے بارے میں جس غم و غصے میں بازاری الفاظ کا استعمال کیا‘ مجھے اس پر نہ تعجب ہوا‘ نہ تکلیف۔
ڈاکٹر صاحب کے حمایتیوں نے میرا ایک کالم پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ میں دنیاوی لالچ میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف لکھتا ہوں حالانکہ یہ کالم قطعاً واقعاتی تھا۔ جو کچھ میں نے لکھا ہے‘ مجھے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ بطور صحافی میں‘ اپنے ذرائع سے لمحے لمحے کی کیفیت جان چکا تھا۔ مجھے ان مسافروں سے ملنے والے اپنے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہو چکا تھا کہ لاہور میں طیارے کے اندر کیا ہوا؟ کس طرح ڈاکٹر صاحب کے گارڈز نے طیارے کے تمام دروازوں پر قبضہ کر کے‘ مسافروں کو حکم دیا تھا کہ بیٹھے رہو۔ مسافروں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے باڈی بلڈرز قسم کے گارڈز مسافروں سے کیا سلو ک کر رہے تھے؟ مجھے ان باڈی گارڈز کی تعداد 120 بتائی گئی تھی لیکن سینئر صحافی نصرت جاوید نے گزشتہ روز اپنے پروگرام میں یہ تعداد 170 بتائی۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کر دوں کہ ڈاکٹر صاحب کے پرستار انٹرنیٹ پر ''آج‘‘ ٹی وی پر 23 اور 24 جون کے پروگرام ''بولتا پاکستان‘‘ دیکھ لیں۔ جب گارڈز جہاز سے اتر کے‘ ایئرپورٹ لائونج کے اندر سے گزر رہے تھے تو ان کے ہم سفر شہری‘ گھروں کو روانہ ہونے کے بجائے راستے میں کھڑے ہو گئے تھے اور جب یہ گارڈز ان کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے ''شیم شیم‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان گارڈز کی وجہ سے کتنی تکلیف میں رہے ہوں گے؟ میں نے اپنی طرف سے نہ ڈاکٹر صاحب کی حمایت کی نہ مخالفت۔ جس طرح واقعات رونما ہوئے تھے‘ اسی طرح بیان کر دیئے۔ اگر وہ آپ کو اچھے نہیں لگے تو میرے ناقدین اپنا غصہ نکالنے کے لئے مستحقین کا انتخاب کریں۔ جو لوگ لفاظی اور خطابت کے سحر میں‘ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکے ہیں‘ انہیں بڑی سے بڑی سچائی بھی متاثر نہیں کر سکتی۔ ایسے لوگوں پر مجھے اپنا اور قارئین کا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں؛ البتہ جن لوگوں کا ذہن بیدار ہے‘ وہ گزشتہ دو تین روز سے ٹیلی ویژن چینلز پر ڈاکٹر صاحب قبلہ کی ویڈیوز میں‘ انہیں بہ زبان خود‘ بہت سے انکشافات کرتے ہوئے سن سکتے ہیں۔ میں صرف ایک بات دہرائوں گا جو انہوں نے شریف خاندان کے احسانات گنواتے ہوئے فرمائی ہے کہ ''میں ان کا یہ احسان نہیں بھول سکتا اور نہ کبھی بھولوں گا‘‘ اور انہی کی زبان سے نکلے ہوئے وہ الفاظ بھی سن لیں جو وہ آج کل استعمال کر رہے ہیں۔ میں یہ بات افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں‘ ورنہ ڈاکٹر صاحب کے مریدوں نے میرے بارے میں جو رقیق زبان استعمال کی‘ اس کی وجہ یہی الفاظ بنے۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا کبھی ذاتی واسطہ نہیں رہا۔ نہ کبھی انہوں نے کوئی ناخوشگوار بات کی اور نہ ہی تلخ۔ جس شخص سے کبھی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو‘ کبھی واسطہ ہی نہ رہا ہو‘ اس کے بارے میں اگر میں اختلافی خیالات کا اظہار کرتا ہوں تو اس میں نہ غرض و غایت ہوتی ہے‘ نہ شکوہ‘ نہ گلہ۔
ڈاکٹر صاحب وطن عزیز میں‘ ایک مشن لے کر آئے۔ مجھے اس میں ملک و ملت کے لئے کسی بھی طرح کی بھلائی یا بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے برعکس وہ اپنے جنونی پرستاروں کے ساتھ اگر سڑکوں‘ گلیوں اور بازاروں میں مظاہرے کر کے روزمرہ کی زندگی میں ابتری پھیلاتے ہیں‘ جمہوری نظام کو متزلزل کرتے ہیں‘ آئین کو تسلیم نہیں کرتے‘ اپنی طرف سے اس کا کوئی متبادل پیش نہیں کر رہے‘ ابھی تک انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گے یا اپنا انقلاب کسی اور طریقے سے لائیں گے؟ وہ طریقہ کیا ہے؟ آپ بیس کروڑ کی قوم کو کسی منزل کی نشاندہی کئے بغیر‘ اپنے پیچھے لگا لیں اور آپ کو خود پتہ نہ ہو کہ آپ اسے لے کر کہاں جائیں گے‘ تو کون ایسا ہوش مند انسان ہے؟ جو اپنی قوم کو اس بے معنی جدوجہد کی دلدل میں پھنستے ہوئے دیکھ کر چپ رہ سکتا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت‘ جس جمہوری نظام کے گن گائے جا رہے ہیں‘ میں اسے نہ جمہوری سمجھتا ہوں اور نہ نظام۔ پچھلے 67 سال میں مفاد پرستوں‘ عوام دشمنوں‘ رسہ گیروں‘ غنڈوں‘ سرمایہ
داروں‘ کالا دھن رکھنے والوں‘ کرپٹ بیوروکریٹس اور ٹیکس خوروں نے مل کر اقتدار پر اپنا قبضہ قائم کر رکھا ہے۔ کبھی فوج کے طالع آزما جنرلوں کے ساتھ مل کر ان کے تحفظ میں لوٹ مار کرتے ہیں اور کبھی انتخابات کے بازار میں‘ ووٹوں کی لوٹ مار کر کے اقتدار میں آتے ہیں۔ حکومت کی ہر تبدیلی کے ساتھ‘ یہ نئی طاقت اور لوٹ مار کی نئی نئی ترکیبیں آزما کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ عوام کے جن ووٹوں کو دھاندلی سے‘ اپنے ڈبوں میں بھر کے نمائندگی کے دعوے کرتے ہیں‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ انہی عوام کی زندگی کو بد سے بدتر کرتے جا رہے ہیں۔ جو کچھ عوام کو دور غلامی میں میسر تھا‘ 67 برسوں کی آزادی کے بعد‘ ان سے وہ بھی چھن گیا۔ لوڈ شیڈنگ ہمارے حکمرانوں کا تحفہ ہے۔ جہالت میں اضافہ‘ ان کی دین ہے۔ دہشت گردی‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان ان کے دیئے ہوئے تحفے ہیں۔ فرقہ پرستی کے تعصبات ان کے زمانے میں بھڑکے ہیں اور مسلمان اللہ کے گھر میں جا کر‘ بموں سے مسلمانوں کے پرخچے اڑاتا ہے۔ امریکہ سے ڈالر لے کر‘ افغانستان کے مسلمان بھائیوں سے‘ ایک دوسرے پر گولیاں انہوں نے چلوائیں۔ کابل کا جو شہر غیر ملکی فوجیں تباہ نہیں کر پائی تھیں‘ ہمارے حکمرانوں کے تیار شدہ نام نہاد مجاہدوں نے قبضہ کر کے راکٹوں‘ میزائلوں اور بموں سے اس شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کے خلاف جتنے جرائم کئے گئے یا کئے جا رہے ہیں‘ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا مگر ان تمام تر خرابیوں کے باوجود معاشرے میں تھوڑا بہت انتظامی ڈھانچہ اب بھی باقی ہے۔ عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ ہماری آبادیوں کا حال ابھی تک لیبیا‘ لبنان‘ شام اور عراق جیسی حالت کو نہیں پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حالات سے محفوظ رکھے لیکن جب کوئی اس ٹوٹے پھوٹے نظام کو تباہ کر کے متبادل نظام پیش نہیں کرتا تو دنیا کی کون سی طاقت ہمیں عراق اور شام بننے سے بچا سکتی ہے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری بظاہر عدم تشدد کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن عملاً ان کا مزاج آمرانہ ہے۔ اس کا ثبوت 23 جون کے واقعات ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ڈاکٹر صاحب کے مریدوں نے جس بے رحمی سے پولیس کی پٹائی کی ایسی منظم کارروائی اعلیٰ سطحی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر صاحب فوج کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن اسلام آباد ایئرپورٹ پر فوج اور رینجرز‘ دونوں حساس مقامات پر متعین تھیں۔ اگر طیارے کا رخ موڑ کر ڈاکٹر صاحب کو لاہور نہ بھیجا جاتا تو بے قابو ہجوم‘ انہیں ریسیو کرنے رن وے تک جا سکتا تھا اور بپھرے ہوئے ہجوم کے اندر وہ 120 گارڈ آسانی سے‘ جہاز کا قبضہ لے کر کسی بھی قسم کے مطالبات کر سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے پہلی انقلابی کارروائی 23 جون ہی کو شروع کرنے کا منصوبہ ہو۔ اس کے بعد لاہور میں بے گناہ مسافروں کو جس طرح پانچ گھنٹے تک بچوں سمیت حبس کے اندر پیاسا رکھا گیا‘ اس سے بھی انتہا پسندی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی امن پسندی کا نعرہ‘ کانگریس کے نعرے کی طرح ہے‘ جو عدم تشدد کے نعرے لگاتی ہے اور مسلمانوں کا خون بہانے کا کوئی ''موقع‘‘ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اللہ تعالیٰ پاکستانیوں پر رحم فرمائے‘ ورنہ حالات موجودہ جمہوریت کے لئے سازگار نہیں ہیں۔