تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     28-06-2014

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

'' اسلام وہاں ہے اور مسلمان یہاں ہیں‘‘۔ 
یہ جملہ ہم بارہا سنتے ہیں۔ ہمارا کوئی عزیز برطانیہ ، کینیڈا، نیوزی لینڈ یا سنگاپور رہ کر آتا ہے‘ آکر حیرتوں کے جہان کھولتا ہے۔ سچائی، دیانت داری اور ایفائے عہد کے واقعات سناتا ہے، پھر اپنے ملک کے حالات کا تجزیہ کرتا ہے‘ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور آخر میں ایک ہی بات کہتا ہے '' اسلام وہاں ہے اور مسلمان یہاں ہیں‘‘۔ 
پہلے تو یہ فقط ایک تاثرتھا۔ چاچوں، ماموں ، بھائیوں ، بھتیجوں، ماسیوں ، پھپھیوں کے اظہار حیرت کا اسلوب تھا۔ لیکن اب یہ تاثر سائنسی حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو مسلمان محققین نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اعدادو شمار سے ثابت کیا ہے کہ کون سے ملک عمل کے لحاظ سے اسلامی ہیں؟ کتنے اسلامی ہیں ؟ اور کون سے ایسے ہیں جن کی پالیسیوں کا ‘طرز حیات کا اور بودوباش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں! ایرانی نژاد پروفیسر حسین عسکری جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی بزنس اور بین الاقوامی معاملات کے استاد ہیں۔ ڈاکٹر شہزادہ رحمن بھی اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان ریسرچ سکالرز نے قرآنی تعلیمات کا مختلف ممالک کے معاشروں پر اطلاق کیا۔ یہ اعدادو شمار کا مسئلہ تھا۔ اس میں تعصب تھا نہ جانب داری۔ نتیجہ افسوسناک نکلا۔ مسلمان ممالک پیچھے رہ گئے۔ پہلے دس میں آئرلینڈ ، ڈنمارک، سویڈن، برطانیہ، نیوزی لینڈ، سنگاپور ، فن لینڈ، ناروے اور بلجیم آئے۔ مسلمان ملکوں میں کوئی بھی پہلے تیس نمبروں میں شامل نہ ہوسکا ۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کا سیدھا سادا عام لفظوں میں معیار یہ تھا کہ اگر کوئی ملک ، کوئی معاشرہ، ایسی سماجی‘ قانونی اور حکومتی بیماریوں میں مبتلا ہے جو قرآن پاک اور تعلیماتِ نبوی کے فیصلے کے مطابق مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہیں تو وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہوسکتا۔ اگر حکمران غیر منتخب ، ظالم، اقربا پرور اور دولت جمع کرنے کے حریص ہیں ، اگر قانون کی نظر میں سب لوگ برابر نہیں ہیں‘ اگر ترقی کے مواقع سب کے لیے یکساں نہیں ہیں ، اگر امرا کے شفاخانے ، تعلیمی ادارے ، شاپنگ سنٹر اور کھیل کے میدان الگ ہیں‘ اگر جھگڑے اور اختلافات بات چیت کے بجائے طاقت کے استعمال سے نمٹائے جاتے ہیں اور اگر کسی بھی قسم کی ناانصافی کا دور دورہ ہے تو وہ معاشرہ بے شک مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا پھرے، قرآنی تعلیمات کی رُو سے اسلامی نہیں ہوسکتا!
تفصیل اس اجمال کی اس طرح ہے کہ ان محققین نے ایک انڈیکس ترتیب دیا جس کی رو سے اس امر کی پیمائش ہوسکتی ہے کہ ایک ملک کس قدر اسلامی ہے۔ اس انڈیکس کو چار حصوں میں منقسم کیاگیا۔
اول‘ اقتصادی حوالے سے۔
دوم‘ گورننس اور قانون کے اعتبار سے۔
سوم‘ انسانی اور سیاسی حقوق کے لحاظ سے۔
چہارم‘ بین الاقوامی تعلقات کی رو سے۔
پھر ان چاروں شعبوں کو تفصیل سے جانچا گیا۔ اقتصادی حوالے سے مندرجہ ذیل عوامل کا جائزہ لیاگیا:
کیا عوام کو بلا تخصیص معاشی مواقع میسر ہیں ؟
کیا اقتصادی مساوات موجود ہے؟
کیا معاہدوں پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے؟
کیا روزگار کے مواقع سب کے لیے یکساں ہیں اور کیا سفارش اور رشوت کے بغیر روزگار مہیا ہوجاتا ہے؟
کیا تعلیم کے مواقع سب کے لیے یکساں ہیں ؟
کیا ریاست خوراک، رہائش اور علاج کی بنیادی سہولیات فراہم کررہی ہے؟ کیا ٹیکس سے اکٹھی کی گئی رقم معاشرے کی فلاح پر خرچ کی جارہی ہے؟ کیا قدرتی وسائل سے پوری آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے؟کیا اقتصادی کرپشن کرنے والے مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دی جارہی ہیں؟... اور اہم ترین سوال ... کیا ریاست عوامی خوشحالی لانے کے لیے موثر کردار ادا کررہی ہے؟
قانون اور گورننس کے اعتبار سے مندرجہ ذیل عوامل جانچے گئے:
سیاسی استحکام۔
کرپشن کی روک تھام۔
عدلیہ کی آزادی اور حکومت اور سیاسی جماعتوں کی عدم مداخلت۔
کیا نجی شعبہ حکومتی ظلم کے خلاف عدالتوں میں جاسکتا ہے؟
عدلیہ کی غیر جانب داری کی ضمانت۔
مسلح افواج رول آف لا اور سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت تو نہیں کررہیں؟
انسانی اور سیاسی حقوق کے میدان میں مندرجہ ذیل انڈیکس دیکھا گیا: 
کیا شہری اور سیاسی حقوق بلاامتیاز حاصل ہیں؟
کیا پارلیمنٹ میں خواتین کی نشستیں آبادی کے اعتبار سے پوری ہیں؟
کیا عورتیں آزادی سے ووٹ ڈال سکتی ہیں؟
کیا حکومتی شعبوں اور وزارتوں میں خواتین شریک کار ہیں؟
کیا کسی خاص گروہ کی رنگ ،نسل یا عقیدے کی بنیاد پر، نسل کُشی تو نہیں ہورہی ؟
بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں انڈیکس کو اس طرح جانچا گیا: 
ماحولیات کی صفائی۔
آکسیجن کی کوائلٹی۔
پانی کی فراہمی۔
توانائی کے ذرائع ۔
بین الاقوامی اطلاعات کا عوام تک پہنچایا جانا۔
دفاع پر، قومی آمدنی کا کتنے فیصد خرچ کیاجارہا ہے۔
مجموعی طور پر ملک بین الاقوامی لحاظ سے کتنا معزز اور قابل اعتبار ہے؟
یہ ایک ٹیکنیکل سروے ہے اور اقتصادی اصلاحات سے اٹا پڑا ہے۔ اس میں ریاضی اور Econometrics (اقتصادیات کی ریاضی) کا عمل دخل ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ آسان زبان میں تحقیقاتی رپورٹ کی روح قارئین تک پہنچائیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی یہ رپورٹ پوری دنیا میں سنجیدگی سے پڑھی جارہی ہے ۔ اوپر دیے گئے عوامل (انڈیکس) کی رو سے ملکوں کی ریٹنگ اس طرح نکلی ہے۔
1۔نیوزی لینڈ‘2۔ لگزمبرگ‘3۔ آئرلینڈ‘4۔ آئس لینڈ‘5۔ فن لینڈ‘6۔ڈنمارک‘7۔ کینیڈا‘8۔ برطانیہ‘9۔ آسٹریلیا‘ 10۔ہالینڈ‘ 11۔ آسٹریا‘ 12۔ ناروے‘ 13۔ سوئٹزرلینڈ‘ 14۔ بلجیم‘15۔ سویڈن۔
مسلمان ملکوں کی ریٹنگ یوں ہے۔
ملائشیا38نمبر پر‘ کویت 48نمبر پر‘ بحرین 64‘ برونائی 65‘ متحدہ عرب امارات 66‘ اردن77‘ تیونس 83‘ سعودی عرب 131‘مراکش 119‘ پاکستان147‘ بنگلہ دیش 152‘ مصر153‘ افغانستان 169‘ سب سے آخر میں صومالیہ کا نمبر ہے 206۔اس سے نیچے صرف دو ممالک ہیں۔
ملائشیا کے ایک سکالر نے اس رپورٹ پر اور ملائشیا کی ریٹنگ پر اعتراض کیا ہے لیکن اس نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مجموعی طور پر رپورٹ درست ہے اور یہ کہ صفائی کے اعتبار سے مسلمان ممالک بہت پیچھے ہیں۔ کسی ایک مسلمان ملک میں بھی بیت الخلا اس معیار پر پورے نہیں اترتے جو اسلام کو مطلوب ہے۔
ہم اس رپورٹ سے اپنے گریبان میں جھانکیں یا حسب معمول اسے یہود و ہنود کی سازش قرار دیں‘ ہمارا ردعمل جو بھی ہو، اس سے تحقیق کرنے والوں پر اور تحقیقاتی رپورٹوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک اور بین الاقوامی سروے نے حال ہی میں بتایا ہے کہ مسلمان اپنے ملکوں میں ناخوش ہیں۔ وہ پاکستان میں ، مصر میں ، سعودی عرب میں ، بنگلہ دیش میں، لیبیا میں ، افغانستان ، صومالیہ ، سوڈان ، ایران اور لبنان میں آلام و مصائب و الی زندگی گزار رہے ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر نہیں، مال و جان اور عزت غیر محفوظ ہے۔ اقتصادی اور تعلیمی مواقع غیر یکساں ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو مسلمان برطانیہ، امریکہ، کینیڈا ، جرمنی، فرانس ، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ میں رہ رہے ہیں وہ آسودہ اور مطمئن ہیں۔ لیکن معمہ جو حل نہیں ہورہا یہ ہے کہ وہ اپنی ناآسودگی اور ناخوشی کا ذمہ دار ان ملکوں کوقرار دیتے ہیں جہاں وہ مطمئن ہیں اور اس کا حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ جن ملکوں میں وہ خوش ہیں، انہیں ان ملکوں کی طرح کردیں جہاں سے وہ ہجرت کرکے آئے ہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved