تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-06-2014

عمران خان کو جلدی کس بات کی ہے؟

یہ کوئی دعویٰ نہیں‘ ایک اندازہ ہے... سیاست کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے‘ تمام تر حالات کو دیکھتے ہوئے‘ ایک اندازہ۔ عوام کا رجحان‘ پرانی سیاسی پارٹیوں کی مسلسل گرتی ہوئی ساکھ‘ پٹے ہوئے سیاستدانوں کی وہی پرانی حرکات اور تبدیلی کی خواہش۔ یہ وہ عوامل ہیں جو اس اندازے کے محرکات ہیں اور سب سے بڑھ کر عوام کے ساتھ براہ راست رابطے کے نتیجے میں عام آدمی کی رائے سے آگاہی۔ اگلا الیکشن عمران خان کا ہے۔ چار سال بعد ہونے والا اگلا الیکشن۔ 
لیکن خدا جانے عمران خان کو جلدی کس بات کی ہے؟ حقائق کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ والا یعنی 2013ء کا الیکشن عمران خان کا پہلا الیکشن تھا۔ اس سے پہلے جو کچھ تھا وہ کسی سیاسی جماعت کا الیکشن نہیں تھا۔ پاکستان تحریک انصاف حقیقی معنوں میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر قومی سیاسی دھارے میں 2013ء کے الیکشن میں ہی سامنے آئی ہے۔ 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ اخلاقی طور پر درست تھا مگر سیاسی طور پر ایک غلطی۔ اس کا نقصان عمران خان نے بھگتا اور جماعت اسلامی نے بھی۔ اسمبلیوں سے غیر حاضری سیاسی طور پر تباہ کن ہوتی ہے اور یہی کچھ ان پارٹیوں کے ساتھ ہوا جنہوں نے لندن میں بیٹھ کر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی پابندی کی۔ میاں نوازشریف اس فیصلے سے بھاگ گئے اور اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ اس سے پہلے والے الیکشن میں تحریک انصاف کو کسی نے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا‘ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود عمران خان نے بھی اپنی جماعت کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ اس حوالے سے 2013ء کا الیکشن عمران خان اور تحریک انصاف کا پہلا الیکشن تھا۔ 
ایک عرصے سے ملک میں تقریباً تقریباً دو پارٹی سسٹم چل رہا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس دو پارٹی سسٹم کی حقیقی طور پر مستفید ہونے والی پارٹیاں تھیں۔ انہی مخصوص پاکٹس کی بنیاد پر سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹیوں میں کراچی سے ایم کیو ایم‘ بلوچستان اور کے پی کے سے جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی‘ آخری سانس لیتی ہوئی ق لیگ اور کنفیوژ جماعت اسلامی۔ ایسی صورت میں کسی نئی جماعت کا پاکستانی سیاست میں آنا بہت مشکل نظر آتا تھا مگر عمران خان نے یہ مشکل کام کیا اور عشروں پرانی سیاسی جماعتوں کو کہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس دو پارٹی سیاسی نظام‘ جو انجمن امداد باہمی کے اصولوں پر جاری و ساری تھا‘ میں اپنی جگہ بنائی بلکہ تحریک انصاف تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ ناتجربہ کاری اور الیکشن کے رائج الوقت قواعد سے ناآگاہی کے باعث وہ تیسرے نمبر پر آئی۔ اگر عمران خان الیکشن والے دن کا سوجھ بوجھ سے انتظام کر لیتے تو یقینا پی ٹی آئی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر پارلیمنٹ میں ہوتی‘ مگر ہسپتال میں پڑے ہوئے عمران خان الیکشن میں لگنے والے پنکچروں کی صحیح طور پر روک تھام نہ کر سکے۔ اس کے باوجود یہ کامیابی کسی طور کم نہ تھی؛ تاہم یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو عمران خان زیادہ اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں ہوتے اور یہ 
بات بھی طے ہے کہ 2013ء کا الیکشن عمران خان کی سیاست میں زور دار انٹری تو تھا مگر وزارت عظمیٰ ابھی اگلا مرحلہ ہے۔ اگر دھاندلی نہ ہوتی‘ تب بھی عمران خان سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ نہ ہوتے۔ ہاں ان کی پارٹی پارلیمنٹ میں دوسری بڑی پارٹی ضرور ہوتی لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی وہی کچھ کر سکتے ہیں جو وہ دوسرے نمبر پر رہ کر کر سکتے تھے۔ ایک زوردار اپوزیشن کا کردار‘ جس سے پاکستان پیپلز پارٹی یکسر عاری ہے۔ 
اگلا الیکشن عمران خان کا ہے بشرطیکہ یہ نظام چلتا رہا۔ اگر یہ نظام ڈی ریل ہو گیا تو سب سے بڑا خسارہ عمران خان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے اور نوازشریف زرداری مک مکا کے بعد ابھی پیپلز پارٹی کی پاکستانی سیاست میں دوبارہ زوردار آمد کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ نوازشریف کی مسلم لیگ اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل محاذ آرائی اور بنیادی عوامی مسائل کے حل میں ابھی تک ناکامی کے باعث مسلسل روبہ زوال ہے۔ ایسے ماحول میں عمران خان کو قدرتی عوامل ہر طرف سے مدد فراہم کر رہے ہیں اور وہ صرف سمجھداری سے ان عوامل کو اپنے حق میں استعمال کر لیں تو انہیں وہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے جس کی لوگ توقع اور خواہش کر سکتے ہیں مگر اصل معاملہ ''سمجھداری‘‘ کا ہے اور اسی کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ 
عمران خان کو جلدی کس بات کی ہے؟ اگلا الیکشن چار سال دور ہے۔ یہ چار سال عمران خان کے لیے مسلسل سیاسی فائدے کا باعث بن سکتے ہیں اور اس کے لیے شاید انہیں خود کوئی زیادہ زور بھی نہیں لگانا پڑے گا۔ ان کے سیاسی حریفوں کی حماقتیں ہی کافی ہیں۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے حریفوں کی حماقتوں کے مقابلے میں حماقتیں کریں؟ انہیں اسمبلی میں ایک حقیقی اور زوردار اپوزیشن کا کردار سرانجام دینا چاہیے۔ صرف اور صرف دھاندلی کا رونا رونے کے بجائے خیبرپختونخوا میں کارکردگی دکھانی چاہیے اور سسٹم کو ڈی ریل کرنے پر تلے ہوئے سیاسی یتیموں سے دور رہنا چاہیے۔ مثلاً چودھری برادران اور طاہر القادری۔
ڈاکٹر طاہر القادری الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتے اور لیں بھی کس طرح؟ پاکستان بھر میں بکھرے ہوئے اپنے لاکھ ڈیڑھ لاکھ مریدوں اور پیروکاروں کے ذریعے ایئرپورٹ پر تو تماشا لگایا جا سکتا ہے مگر بیلٹ بکس نہیں بھرے جا سکتے۔ اب بھلا اگر وہ الیکشن میں حصہ بھی نہیں لیتے اور اقتدار کے شدید خواہشمند بھی ہیں تو ان کے سامنے اس سارے منصوبے کا کیا نقشہ ہے؟ عمران خان کی مستقبل کی ساری کامیابی جمہوری نظام سے جڑی ہوئی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ساری توقعات اور امیدیں جمہوری سسٹم کو لپیٹنے سے وابستہ ہیں۔ اگر یہ جمہوری سسٹم لپٹا تو پہلا نقصان یقینا میاں نوازشریف اینڈ کمپنی کو ہوگا کہ ان کے بقیہ چار برسوں کا ملیدہ بن جائے گا لیکن سب سے بڑا نقصان عمران خان کا ہوگا کہ ان کا سارا سیاسی مستقبل اس جمہوری سسٹم اور اگلے الیکشن سے وابستہ ہے۔ اگر یہ سسٹم لپٹا تو اسے لپیٹنے والے طالع آزما اپنے نئے نظام میں کسی حقیقی عوامی نمائندگی رکھنے والے کو شامل کرنے کے بجائے دو نمبر اور سکائی لیب لیڈروں کو استعمال کریں گے۔ 
عمران خان کی ساری پھرتیوں کے پیچھے ان کے جلدی میں لگے ہوئے کچھ پارٹی لیڈر ہیں۔ مثلاً شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین اور شیریں مزاری۔ ان سب کو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو اگر اقتدار مل سکتا ہے تو وہ آئندہ الیکشن میں ہی ممکن ہے۔ اگر آئندہ الیکشن سے پہلے کچھ ہوتا ہے تو اس میں عمران خان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ شاہ محمود قریشی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی جلدی پڑی ہوئی ہے تو جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کو اپنی سرمایہ کاری کی وصولی کی جلدی ہے۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ اگر یہ نظام تلپٹ ہوا تو شاید اگلے دس سال الیکشن کے انتظار میں گزر جائیں۔ اس لیے انہیں صبر کرنا چاہیے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میاں نوازشریف کو بھی اب سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ سیکھنے کے لیے دس سال بہت ہوتے ہیں‘ بشرطیکہ کوئی سیکھنا چاہے۔ آج کا کالم بور اور خشک ہے۔ اسے خوشگوار بنانے کے لیے ایک سطری تازہ لطیفہ... ''میں شہید ہونے کے لیے تیار ہوں‘ مگر مجھے سکیورٹی تو دی جائے‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved