1970ء کی دہائی کے اواخر میں عالمی سطح پر اپنائے جانے والے ''مانیٹرسٹ‘‘معاشی ماڈل اور قرضوں کے پھیلائوکے ذریعے سے گزشتہ تین دہائیوں میں اگرچہ ایک نئی مڈل کلاس ابھری، لیکن معاشی ناہمواری میں خوفناک اضافہ ہوگیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں پیٹی بورژوازی (چھوٹاکاروباری اور درمیانہ طبقہ) سماجی اور معاشی طور پر دودھاری تلوارکا کردار ادا کرتی ہے۔ مڈل کلاس کا ابھارایک طرف حکمران طبقے کے بے رحم استحصال اور دولت کے ارتکازکودھندلا دیتا ہے تو دوسری طرف درمیانے طبقے کی رجعتی اور فرسودہ اقدار، فن، ادب، ثقافت، روایات اور سماجی رویوں پرحاوی ہوکر محنت کش طبقے کو نفسیاتی طور پر مجروح کر دیتی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری کی وبا تیسری دنیاکے سماجوں میں انسانیت کوغربت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں سماجی انتشار اور معاشی بحران میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
حالات ، واقعات اور زمینی حقائق نے مارکس کی اس پیش گوئی کو بالکل درست ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ طرز پر معاشی ارتقا کا ناگزیر نتیجہ کم سے کم ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ دولت کے ارتکازکی شکل میں برآمد ہوگا۔ ''سرمایہ‘‘کی پہلی جلد میں مارکس لکھتا ہے کہ ''ایک طرف دولت کے ارتکازکا مطلب دوسری طرف بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے‘‘۔
1992ء سے 2007ء امریکہ کے چارسوامیرترین افراد کی آمدن میں 392فیصداضافہ جبکہ ان پر ٹیکسوں میں 37فیصدکمی ہوئی۔ 1993ء سے 2011ء تک امریکہ کی مجموعی آمدن میں 13.1فیصدکا اضافہ ہوا۔ اس اضافے میں 99فیصد عوام کا حصہ صرف 5.8فیصد ہے۔ باقی تمام اضافی آمدن کا رخ ایک فیصدامیر ترین افراد کی طرف تھا۔ 2010ء میں مجموعی قومی
آمدن میں اضافے کے 93فیصد ثمرات ایک فیصدامیر ترین افراد نے سمیٹے۔ یکم اپریل 2014ء کو ''ٹائم‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مائیکل شومین لکھتے ہیں کہ ''ایک سال پہلے میں نے سوال کیا تھاکہ کیا مارکس کی رائے سرمایہ داری کے بارے میں درست تھی؟ اورکیا طبقاتی جدوجہد دوبارہ ابھر رہی ہے؟ آج واضح ہے کہ مارکس کا نظریہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ امریکہ میں امیر ترین دس فیصد آبادی کا قومی آمدن میں حصہ 1980ء میں 30فیصد سے بڑھ کر 2012ء میں 48فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ امیر ترین ایک فیصد افراد کی آمدن دو گنا سے زیادہ ہوچکی ہے۔ 2009ء کے بعد سے قومی آمدن میں اضافے کا 95فیصد حصہ اسی ایک فیصدکے پاس گیا ہے جبکہ 90فیصدعوام پہلے سے زیادہ غریب ہوئے ہیں‘‘۔
خیرہ کن تضادیہ ہے کہ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے امریکی سٹاک مارکیٹ کے حجم میں 50فیصد اضافہ جبکہ عام آدمی کی آمدن میں کمی ہوئی۔ اس مظہرکو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کے کئی دعووںکا پول کھل جاتا ہے۔ پیسے کا زور''جمہوریت‘‘ کو بہا لے جاتا ہے۔ سرمائے کی سیاست میں سیاستدانوں کی بولیاں لگتی ہیں، سیاسی جماعتیں یا ان کے اندر مختلف دھڑے کرائے پر دستیاب ہوتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کو خریدکر ''رائے عامہ‘‘ استوارکی جاتی ہے۔امریکی صدر بننے کے لئے لکھ پتی ہونا ضروری لیکن ارب پتیوںکی پشت پناہی لازمی شرط ہے۔
''محنت‘‘ سے امیر بننے کا طریقہ کار اس طبقاتی سماج کے 99.99فیصد لوگوں کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ جو مٹھی بھر افراد لاکھوں کروڑوں لوگوں کی گردنوں پر پیر رکھ کر اوپر پہنچ جاتے ہیں،ان کی''سکسیس سٹوریز‘‘ کی تشہیر انتہائی منافقت سے کر کے غربت کا قصوروار غریب کو ہی ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ امیروں کے بچے بھی امیر ہوتے ہیں۔ دولت کا رخ جس ایک فیصدی طبقے کی طرف ہے اس کے افرادکسی اور ہی سیارے پر زندگی گزارتے ہیں۔ تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے اور اعلیٰ تعلیم تو انتہائی مہنگی ہے۔ امریکہ میں ہرگریجوایٹ اوسطاً 25ہزارڈالرکا مقروض ہوکر یونیورسٹی سے فارغ ہوتا ہے۔ نوکریاں اول تو ہیں ہی نہیں، روزگار ملے بھی توکام کی نوعیت کی قابلیت سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان برگر بیچنے والی عالمی کمپنیوں میں برگر بنا رہے ہیں یا پھر سپر مارکیٹوں میں سامان ڈھو رہے ہیں۔ آج امریکی نوجوان بالکل اسی صورت حال سے دوچار ہیں جس نے 2011ء میں تیونس اور مصرکے نوجوانوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکردیا تھا۔
''امریکن ڈریم‘‘ دراصل ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔''انڈیپنڈنٹ ووٹرزنیٹ ورک‘‘ کے جیمز بٹلرکے مطابق ''صرف پچاس سال میں قرضہ چند افراد کی عیاشی سے تبدیل ہوکر آبادی کے بڑے حصے کی سہولت اور پھر اکثریت کے لئے ایک لت سے بڑھ کر پورے سماج کے لئے تباہی بن چکا ہے۔یہ ایک وائرس ہے جو پوری معیشت میں پھیل چکا ہے۔ ایک عام صارف 0.75ڈالر کی ٹافی خریدنے کے لئے کریڈٹ کارڈ کا سہارا لے رہا ہے تو ریاست روزانہ کی بنیاد پر قرض لیتے لیتے 17ہزارارب ڈالرکی مقروض ہوچکی ہے‘‘۔
عالمی سطح پر معاشی عدم مساوات پر''کریڈٹ سوئس‘‘ نے کئی دلچسپ اعداد و شمار شائع کئے ہیں جن کے مطابق امیر ترین تین کروڑ بیس لاکھ لوگ 99ہزارارب ڈالر پر قابض ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی 41فیصد دولت آبادی کے 0.7فیصد حصے کے تصرف میں ہے۔ دوسری طرف 68.7فیصد آبادی کے پاس دنیاکی کل دولت کا صرف 3فیصد حصہ ہے، یعنی امیر ترین 0.7فیصد افراد کی دولت، غریب ترین 68فیصد آبادی کی مجموعی دولت سے بھی 14گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح برطانوی ادارے''آکس فیم‘‘ کے مطابق 85امیر ترین افراد کے پاس 3.5ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والا معاشی ابھار تقریباً تین دہائیوں تک جاری رہا۔ اسے ''سرمایہ داری کا سنہری دور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جنگ سے تباہ حال یورپ کی تعمیر نو اور عالمگیرتجارت کا پھیلائو وہ بنیادی وجوہ تھیں جن کی بنیاد پر زائد پیداوار کا بحران وقتی طور پر ٹلا رہا ۔ اس عہد میں یورپ کے سیاسی افق پر اصلاح پسندی اور سوشل ڈیموکریسی حاوی رہی کیونکہ معیشت پھیل رہی تھی اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی شرح پر منافع کمانے والے سرمایہ داروںکے لئے چند ٹکڑے عوام کی طرف پھینکنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ آج صورت حال بالکل الٹ ہے۔ فلاحی ریاست کو پرزہ پرزہ کیا جارہا ہے۔ عوام سے مفت علاج اور تعلیم جیسی سہولتیں چھینی جارہی ہیں اورکٹوتیاں نافذکی جارہی ہیں۔ بے روزگار نوجوان، کم اجرت کے عوض محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ یورپ کو واپس مارکس اور ڈکنزکے عہد میںدھکیلا جارہا ہے۔ سماجی رد انقلاب کے اس سیلاب کے سامنے منظم اور متحرک محنت کش طبقہ ہی بند باندھ سکتا ہے۔
آنے والامعاشی تناظرکٹوتیوں، بے روزگاری اورپست معیار زندگی سے لبریز ہے۔ یہ طبقاتی جدوجہد اور انقلابات کا مکمل نسخہ ہے۔ حکمران طبقہ تعلیم، علاج، رہائش، بے روزگاری الائونس اور پینشن وغیرہ پر آنے والے''غیر ضروری‘‘اخراجات کے خاتمے اور ''متوازن‘‘ بجٹ کا خواہاں ہے۔انہیں بینکوںکو ہزاروں ارب یورو کا سود یا بیل آئوٹ دینے پر بہرحال کوئی اعتراض نہیں ۔ ان کااستدلال قدیم زمانے کے سوفطائیوں والا ہے:'' ان کڑوی گولیوں سے 'فی الوقت‘ معیشت سکڑے گی اور معیار زندگی گرے گا لیکن مستقبل بعید میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔ کینز نے اس دلیل کا جواب بہت پہلے دیا تھا کہ ''مستقبل بعید میں تو ہم سب ہی مردہ ہیں‘‘۔
معاشی نا ہمواری ہر سماجی برائی کی جڑ ہے۔ ایک سے زائد تحقیقات اورکتب موجود ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے معاشی ناہمواری میں اضافے سے ڈپریشن، جرائم، گھریلو تشدد،ذہنی اورجسمانی امراض، جرائم، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات، دوسروں پر عدم اعتماد، حسد اور ناخواندگی جیسی لعنتوں میں شدت آتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک مخصوص حد سے زیادہ دولت کا ارتکازخود سرمایہ دارانہ معیشت کے لئے نقصان دہ ہے اور سنجیدہ بورژوا معیشت دان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جنوری 2014ء میں شائع ہونے والی ''ورلڈ اکنامک فورم‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ''اگلے دس برسوں میں دنیا کو سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری سے لاحق ہے جس کی وجہ سے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں درمیانہ طبقہ سکڑتا جارہا ہے‘‘۔ دنیا کے سات سو بڑے معیشت دانوں کی مدد سے تیار ہونے والی یہ رپورٹ اس حقیقت کی عکاس ہے کہ سرمایہ داری خود اپنے اصولوں کے مطابق چلنے سے بھی قاصر ہوچکی ہے۔ اس متروک نظام کے خلاف بغاوت کا لاوادنیا بھر میں پک رہا ہے۔ اس آتش فشاں کے پھٹنے کے ابتدائی آثار دنیاکے کئی خطوں میں پہلے سے ہی نظر آرہے ہیں!