تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-06-2014

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

تماشا لگانے والوں کا بخار جلد
اُتر جائے گا... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''تماشا لگانے والوں کا بخار جلد اُتر جائے گا‘‘ البتہ ہمیں وہ جس بخار میں مبتلا کر رہے ہیں‘ اس کے لیے ابھی کوئی کونین ایجاد نہیں ہوئی کیونکہ ہم اس بخار کا اہتمام خود بھی پورے ذوق و شوق سے کیا کرتے ہیں جو شومئی قسمت سے بعد میں گردن توڑ بخار ہی ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ دربدر اور ہم سرخرو ہوں گے‘‘ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ دربدر کون ہوتا ہے اور کسے بوریا بستر لپیٹ کر کسی طرف کو منہ کرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ''جلسے جلوس اور شور شرابہ ہماری منزل کھوٹی نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ کافی سے زیادہ منزل پہلے ہی کھری کر چکے ہیں جو ہماری کارکردگی سے ظاہر ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''کچھ انہونی ہونے والی نہیں‘‘ اگرچہ ہونے سے پہلے یہ بتایا بھی نہیں کرتی اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب سارا چھابہ ہی الٹ چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بحران کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ہے‘‘ اور ہم اس سے مبرّا اس لیے ہیں کہ ہم نے ذہن وغیرہ کا تکلف ہی نہیں پال رکھا۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
کارکنوں پر ہاتھ اٹھایا تو پولیس والوں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا... عمران خان 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا 
ہے کہ ''اگر ہمارے کارکنوں پر ہاتھ اٹھایا یا گولی چلائی تو پولیس والوں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا‘‘ کیونکہ اس وقت تک میں خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آجائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت ایک ماہ میں چار سوالوں کے جواب دے ورنہ اسلام آباد تک سونامی مارچ ہوگا‘‘ اور وہ کم از کم اتنا جواب تو دے ہی سکتی ہے کہ یہ سوالات الیکشن کمیشن حل کر سکتا ہے یا عدالتیں‘ تاکہ اس کے بعد سونامی لانے کی ضرورت ہی نہ رہے‘ جیسا کہ پہلے بھی ہر بار ہوتا آیا ہے اور سونامی آنے سے رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم مجبور متاثرین کے نام پر سیاست نہ کریں‘‘ کیونکہ وہ تو اقتدار میں آ چکے ہیں‘ انہیں سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ سیاست تو میری مجبوری ہے تاکہ کبھی میرا لُچ بھی تلا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''جو ساتھ چلے گا‘ حقیقی جمہوریت لائے گا‘‘ کیونکہ حقیقی جمہوریت وہی ہوگی جس میں خاکسار کا اُلو بھی سیدھا ہو سکے۔ آپ اگلے روز بہاولپور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ 
اقتدار پر قبضے کی کوشش کی تو فوج کے خلاف جنگ کروں گا... طاہرالقادری 
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ''اقتدار پر قبضے کی کوشش کی تو فوج کے خلاف جنگ کروں گا‘‘ کیونکہ فوج اگر آج میرا ساتھ نہیں دے رہی تو میں بھی اس کی کسی ایسی کوشش کی حمایت نہیں کروں گا بلکہ اس کے خلاف سینہ سپر ہو جائوں گا؛ تاہم معمولی کوشش کے بعد میرا یہ موقف تبدیل بھی کرایا جا سکتا ہے جیسا کہ اب تک ہر معاملے میں ہوتا آیا ہے کیونکہ اُدھر میں سب کچھ حاصل کر لینے پر اپنے ساتھیوں کو مبارکباد دے رہا ہوتا ہوں اور اُدھر مجھے جھوٹے سچے وعدوں پر راضی کر لیا جاتا ہے کیونکہ میں فطری طور پر رحمدل واقع ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''چٹکی مار کر حکومت گرا سکتے ہیں لیکن یہ ہمارا ایجنڈا نہیں‘‘ کیونکہ حکومت گرانے کا مزہ تبھی ہے اگر وہ گر کر ٹپکے ہوئے آم کی طرح خاکسار کی جھولی میں آ گرے جس کا فی الحال کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا جبکہ ابھی مجھے اس سلسلے میں کسی طرح کی بشارت بھی نہیں ہوئی ہے‘ البتہ کسی وقت ہو بھی سکتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
ریاست کے خلاف جو بندوق اٹھائے گا‘ آپریشن کیا جائے گا... پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''ریاست کے خلاف جو بندوق اٹھائے گا‘ آپریشن کیا جائے گا‘‘ اگرچہ موجودہ آپریشن بھی ہم طوعاً و کرہاً ہی کر رہے ہیں کیونکہ اگر یہ نہ کرتے تو شاید یہ آپریشن ہمارے خلاف ہی ہو جاتا جبکہ ویسے بھی طالبان کے خلاف آپریشن شروع کروا کر دل خون کے آنسو روتا ہے جنہوں نے ہمیشہ ہمارا نہ صرف خیال رکھا اور خادم اعلیٰ کی درخواست پر پنجاب پر ہاتھ ہولا رکھا بلکہ اپنے ہمنوائوں کے تعاون سے ہمیں الیکشن بھی جتوایا اور اب ہم ان سے خواہ مخواہ شرمندہ ہو رہے ہیں جبکہ انہوں نے تو ہمارے خلاف بندوق بھی نہیں اٹھائی تھی بلکہ بموں اور بارودی جیکٹوں وغیرہ پر ہی گزارا کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان لوگوں کی خدمت پر توجہ دیں‘‘ اور ہم سے سبق حاصل کریں جو لوگوں کی خدمت کے نام پر اپنی خدمت ہی کر رہے ہیں کیونکہ میگا پروجیکٹس کے ٹھیکوں وغیرہ سے ہی جملہ نیک مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں جبکہ حکومتی کاروبار بھی رُوبہ ترقی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔ 
کسی تحریک کا حصہ بنیں گے نہ جمہوریت ڈی ریل ہونے دیں گے... خورشید شاہ 
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''ہم کسی تحریک کا حصہ بنیں گے نہ جمہوریت ڈی ریل ہونے دیں گے‘‘ کیونکہ جس کے نتیجے میں ہمارا کوئی اُلو سیدھا نہ ہو‘ ایسی تحریک میں شامل ہو کر ہم گناہِ بے لذت میں کیونکر شریک ہو سکتے ہیں جبکہ لذت کوشی کی تو ہماری عادت ویسے ہی پختہ ہو چکی ہے کہ اپنے اقتدار کے پانچ برسوں میں ہمارا زیادہ زور لذتِ کام و دہن پر ہی رہا ہے۔ اگرچہ اب اس کی پاداش میں کچھ انتقامی کارروائیاں بھی بھگتنی پڑ رہی ہیں؛ تاہم ع 
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 
انہوں نے کہا کہ ''طاہرالقادری نے بلایا تو پارٹی سے مشاورت کے بعد ہی مل سکوں گا‘‘ کیونکہ اگر تحریک کی کامیابی کی صورت میں ہمارے دال دلیے کی بھی کوئی صورت نکلتی ہو تو بہرحال تعاون ہو سکتا ہے ،اگرچہ زیادہ امکان بلکہ خطرہ یہی ہے کہ کسی کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا اور سارا دودھ کوئی نیا بلّا پی جائے گا ،اس لیے ظاہر ہے کہ پھونک پھونک کر ہی قدم رکھنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز سکھر میں ایک ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں شرکت کر رہے تھے۔ 
آج کا مطلع 
یہ جہاں آدھا فقط آہنگ سے پیدا ہوا 
اور جو باقی بچا وہ رنگ سے پیدا ہوا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved