بالآخر عمران خان نے بہاولپور میں نواز حکومت کو الٹی میٹم دیتے ہوئے 14 اگست کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اس سے دو دن قبل مسلم لیگ نواز نے اپنا سیا سی کھیل کھیلتے ہوئے عمران خان کو اپنے ساتھ بنوں چلنے کی دعوت اس بات کو اچھالنے کیلئے دی کہ انکار کی صورت میں انہیں یہ کہتے ہوئے سیاسی رگڑا دیا جاسکے کہ انہیں ایسے وقت میں سیا ست کرنے کی بجائے وزیر اعظم کے ساتھ بنوں آئی ڈی پیزکیمپوں میںجانا چاہیے تھا ۔ میاں نواز شریف کی یہ دعوت عمران خان پر ایک بھر پور سیا سی حملہ تھا لیکن شائد وہ بھول گئے تھے کہ عمران خان پاکستان کی سیا سی جماعتوں کے وہ پہلے سیاسی سربراہ ہیں جو میاں نواز شریف سے بھی پانچ دن قبل 22 جون کو شمالی وزیرستان سے بے گھر ہو کر بنوں آنے والے پاکستانیوں کے کیمپوں میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے کئی گھنٹے ان کے ساتھ گزار چکے ہیں لیکن سیا ستدانوں کے چونکہ اپنے انداز ہوتے ہیں اس لئے بھول چوک ان کی عادت ہوتی ہے ۔جب عمران خان کو دی گئی یہ دعوت نواز حکومت کامیڈیا سیل اچھال ر ہاتھا تو اس وقت وہ شمالی وزیرستان کے انہی پاکستانیوںکی امداد کیلئے لاہور کی مختلف تقریبات میں عوام سے چندہ اکٹھا کر نے میں مصروف تھے۔عمران خان کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چودہ اگست کے لانگ مارچ کے اعلان کو جاننے کیلئے ہمیں ان انتخابات کے اندر تک جھانک کر دیکھنا ہو گا کہ انتخابات کیسے ہوئے؟۔کیا یہ درست نہیں ہے کہ ان انتخابات کے نتائج ہمیشہ کی طرح امریکی خواہشات پر ترتیب دیئے گئے؟ پاکستانی ایک بات ذہن میں رکھ لیں کہ امریکہ کی مسز رابن رافیل انتخابات سے کچھ پہلے جس جس
سے طویل ملاقاتیں کرتی ہیں اسی کو کامیاب کرایا جاتا ہے اور اس کیلئے1996ء میں مسز رابن رافیل کی مری یاترا اور مارچ میں ان کے رائے ونڈ کے دورے سامنے رکھنے ہوں گے۔با خبر لوگ یقینا واقف ہوں گے کہ ا یم آئی 5 اور 6 ،یہ دو برطانوی خفیہ ادارے 2006 ء سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں ایک بار پھر انتہائی دخیل ہو چکے ہیں۔ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے این آر او سے لے کر عدلیہ کی آزادی ،کراچی سٹیل مل سے ایک گروپ کو نکالنے ، عدلیہ کی تحریک اور پھر 2008 ء اور2013ء کے انتخابات کو امریکی اور برطانوی اہداف کے مطا بق منعقد کرانا ان کا باقاعدہ ہدف تھا ۔کیا الیکشن کمشن کے ذمہ داران یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ راجیو شاہ نے امریکہ کے کہنے پر ان کو ان انتخابات کیلئے کتنے کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی تھی؟۔
جب2013 ء کے انتخابات کی مہم زوروں پر تھی تو میں نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے انتخابات میں امریکی، برطانوی اور بھارتی سفارت کاروں کے با قاعدہ نام لکھے تھے جوہمارے ملکی انتخابات میںبھر پور مداخلت کر تے ہوئے ایک سیا سی جماعت کی براہ راست حمایت کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ سفارتی آداب کو روندتا ہوا اپنی خوفناک حدود کو چھورہا تھا۔۔۔ ان انتخابات سے چند دن قبل ایک بڑے عرب ملک کے سفیر کا ایک مخصوص سیاسی جماعت کے سربراہ کو عشائیہ پر بلا نا معنی خیز تھا۔ اسی طرح انتخابات سے چند دن قبل ان کیلئے اپنے ملک کی حمایت کا اظہار کرنا سفارتی اور انتخابی اخلاقیات کے خلاف تھا اور یہ ایک ایسا نا پسندیدہ سفارتی طرز عمل تھا جس کا نوٹس لیا جا نا انتہائی ضروری تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس وقت تمام بین الاقوامی سفارتی اخلاقیات کو روندتے ہوئے لاہور میں بھارت، امریکہ اور برطانیہ کے سفارتکار کھل کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف عمل تھے ۔اس کے علا وہ کچھ این جی اوز کی آڑ میں سرمائے کی برسات جا ری تھی جن کے ذمے مختلف اخبارات
میں مرضی کے سروے شائع کرانا اور اپنی پسند کی جماعتوں کیلئے مختلف فورم مہیا کرتے ہوئے ان کے حق میں مختلف تنظیموں کے سیمینار کروانا تھا۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں بیرونی مداخلت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یہ کوئی عیب نہیں رہا بلکہ اب تو لوگ بڑے فخر سے یہ بات مشہور کرتے ہیں کہ ان کا تعلق فلاں بڑے ملک کی فلاں ایجنسی سے ہے '' ملک کی عظمت اور سالمیت سے کھیلنے والے اس حد تک آزاد ہو چکے ہیں کہ پاکستان سے صحافیوں اور نام نہاد دانشوروں کا ایک گروپ 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف کام کرنے کے صلے میں بھارتی حکومت کی دعوت اور خرچے پر ڈھاکہ جا کر بھارتی صدر اور حسینہ واجد سے فخریہ انداز میں ایوارڈ وصول کرتا ہے ‘‘ اور یہ لوگ پاکستان واپس آ کر اس پر ندامت نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔اور فخر کیوں نہ کریں کیونکہ پنجاب حکومت ان کی ان خدمات کے اعتراف اور ملک دشمنوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لاہور کے پلوں اور سڑکوں کے نام بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں سے '' غداری ایوارڈ‘‘ وصول کرنے والوں کے نام پر رکھنا شروع کردیتی ہے۔ میڈیا سے متعلق ان دانشور وں کی ملک دشمنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سی ڈبلیو ایس نام کی ایک غیر ملکی این جی او پاکستان کے انتہائی حساس صوبے بلوچستان میں پاکستان کے انتہائی سینئر صحافیوں کے ایک مخصوص گروپ کو تربیت کے نام پر وہاں مدعو کرکے پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے نام نہاد مظالم کی تشہیر اور اپنے ڈھب کے ــ مخصوص ایجنڈے کیلئیبھی ان کی خدمات حاصل کر چکی ہے۔۔۔
ایک عام پاکستانی کو تو خبر ہی نہیں کہ انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی یہ بین الاقوامی این جی اوز پاکستانی انتخابات اور پھر بلوچستان کے حالات بگاڑنے میں بے تحاشا سرمایہ کہاں سے حاصل کرتی ہیں؟ جب پاکستان کی تاریخ کے سب سے اہم انتخابات ہونے جا رہے تھے تو ہمارے کمزور اور مصلحت آمیز سفارتی قوانین اور کانپتا ہوا جمہوری نظام نہ تو سفارت کاروں کو ان کی مقررہ حدود کی پابندی یاد کراتا تھا اور نہ ہی ملک کے کسی بھی ادارے کی جانب سے ان غیر ملکی این جی اوز کی اپنے فرائض سے ہٹ کر جاری سرگرمیوں کو روکنے کی کوئی معمولی سی بھی کوشش کرتا ہے ۔ہماری انہی کمزوریوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس کا دل چاہتا ہے پاکستان کے خلاف کام کرنے کیلئے ایک ادارہ تشکیل دے دیتا ہے جو جب چاہے جہاں چاہے مصروف عمل ہو جاتا ہے ۔عمران خان نے 11مئی کے انتخابات کے بعد جب کہا کہ ملکی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ان کی جماعت انتخابات کو تو مان لیتی ہے لیکن ان انتخابات میں کی گئی غیر ملکی دھاندلی قبول نہیں کر سکتی اس لیے صرف چار حلقوں کے کاسٹ کئے جانے والے ووٹوں کی تصدیق کرا دی جائے تاکہ عوام کے سامنے سچ نکھر کر آ جائے لیکن ایسا اب تک نہیں کیا گیا بلکہ ہر ادارہ اس مطالبے کو حقارت سے ٹھکراتا گیا... اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ان عام انتخابات کیلئے کاغذات نامز دگی داخل کرنے سے تین ماہ قبل مہیا کی گئی ''ایک فہرست‘‘ کے مطابق ریٹرننگ افسران کا انتخاب ہو چکا تھا جن سے پہلے مرحلے میں نظریہ پاکستان، اسلام اور آئین کے آرٹیکل62-63 کی میڈیا کے ذریعے بڑے منظم طریقوں سے تضحیک کرائی گئی تاکہ ان شقوں کو اس طرح مضحکہ خیز بنا دیا جائے کہ لوگ ان سے بیزار ہو جائیں۔ابھی تک کوئی بھی یہ بتانے کی جرأت نہیں کر رہا کہ یہ سب کیوں کرہو ااور دینی عقائد کو تضحیک کا نشانہ بنتے دیکھتے ہوئے بھی ابھی تک سب چپ کیوں ہیں ؟...!