ہم اکثر یہ بات سنتے ہیں کہ ہمارا ملک قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ مگر آج تک یہ بات محض سننے کی حد تک ہی رہی ہے کہ جن وسائل میں مالا مال ہونے کا ہمارے ہاں شروع سے مظاہرہ ہوتا رہاہے وہ دراصل سازشی وسائل ہیں۔ ہر کوئی مانے گا کہ ہمارے ملک میں سازش کرنے کے لیے جس قدر سازگار وسائل اور ماحول دستیاب ہے وہ غالباً دنیا میں کم ہی کسی اور ملک میں ہوگا۔ ساٹھ کے عشرے میں ہم بڑی امیدیں وابستہ کر رہے تھے کہ ہمارا ریلوے کا نظام جلد ہی بہترین ہو جائے گا اور انگریزوں نے ریل کے ذریعے مواصلات کا ایک بھرپور نظام جو یہاں نارتھ ویسٹرن ریلوے کی شکل میں چھوڑا تھا،اس کی ہم مزید حالت بہتر کر کے اپنے ملک کے رہنے والوں کو سستا اور آرام دہ سفر کرنے کی پہلے سے بھی زیادہ سہولتیں فراہم کر سکیں گے۔ یہ یاد رہے کہ ساٹھ کے عشرے میں ریل کے ذریعے سفر کرنے کی سہولتیں آج کے مقابلے میں بدرجہا بہتر تھیں اور ہم مزید بہتری کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اسی دور میں ریلوے بورڈ کے فنانس ممبر ہوتے تھے مشتاق احمد صاحب۔ گلبرگ لاہور میں رہتے تھے ۔میں ان کے بیٹے کو ٹیوشن پڑھانے جایا کرتا تھا تو کبھی کبھی ان سے بھی سلام دعا ہو جاتی تھی۔ میں تو بالکل نوجوان تھا اور مجھ سے مشتاق احمد صاحب کی کسی سنجیدہ مسئلے پر گفتگو کا کوئی امکان نہ تھا لیکن ان سے جو لوگ ملنے آتے تھے ،ان سے مشتاق صاحب کی جو گفتگو ہوتی تھی وہ کبھی کبھی مجھے بھی سنائی دے جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک گفتگو میں پہلی مرتبہ مجھے ہلکا سا اندازہ ہوا کہ دنیا میں جو ملک ٹرک اور موٹر گاڑیاں وغیرہ بناتے ہیں، وہ ترقی پذیر ملکوں میں ریلوے نظام کی ترقی نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ سڑکیں زیادہ بنیں تاکہ ان کے ٹرک وغیرہ زیادہ فروخت ہو سکیں۔ اب آپ خود اندازہ کر لیں کہ ہمارے ہاں جو ریلوے تباہ وبرباد ہوئی ہے تو کیا سازشیں نہیں ہوئی ہوں گی۔ مگر ان سازشوں کے لیے دوسرے ملکوں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ قصور ہمارے اپنے ہی لوگوں کا نکلے گا۔
آج کل آپ کراچی میں سرکلر ریلوے بنانے کی باتیں سنتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ کراچی میں ایک زمانے میں سرکلر ریلوے چلتی تھی۔ بھلی بُری جیسی تھی موجود تو تھی۔ اگر توجہ دی جاتی تو پچاس برسوں میں اس ٹریک پر بلٹ ٹرین چل رہی ہوتی مگر وہی بات کہ ہمارے ہاں جو سازش کرنے کے وافر وسائل موجود ہیں، وہ کارفرما ہوئے اور آج ہم بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہمارے محترم وزیراعظم موٹروے بنانے کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ کوئی بُری بات نہیں۔ مگر حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ اس بارے میں بھی قوم کو بتائیں کہ اپنے گزشتہ ادوار میں ریلوے نظام کو بہتر کرنے پر کیوں توجہ نہ دی گئی یا نہ دی جا سکی۔
1960ء میں جب بھارت کے ساتھ دریائوں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ ہوا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان میں کبھی پانی کی کمی ہو جائے گی۔ اس وقت دکھائی دیتا تھا کہ سندھ‘ جہلم اور چناب کا پانی ہمیشہ ہماری ضروریات سے زیادہ رہے گا۔ ہماری منصوبہ بندی تھی کہ ہم ان دریائوں پر ڈیم بنا کر نہ صرف سستی بجلی حاصل کریں گے بلکہ زراعت کو مسلسل پانی
فراہم کرتے رہیں گے۔ منگلا اور تربیلا تک تو ہماری منصوبہ بندی چلی مگر اس کے بعد ہمارے قدرتی وسائل کو دھکا دے کر سازشی وسائل نے پس پشت کردیا اور آج ہم پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں۔ بھارت ہمارا دشمن ہے۔ اس سے خیر کی توقع کرنا تو حماقت ہوگی لیکن ہم نے جو پانی کے ذخیرے بنانے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے کیا اس کا کوئی جواز تھا؟
ایوب خان کے بعد حکومتیں سیاسی ہوں یا فوجی‘ ان سب کے ادوار میں پانی کے صحیح استعمال کے لیے مناسب منصوبہ بندی کا جو مسلسل فقدان نظر آتا ہے تو کیا اس میں آپ کو سازش دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارے ملک کو مزید ڈیم بنانے سے روکنے کی سازشیں یقینا وہ ملک کرتے ہوں گے جن کو ہمارے ڈیم کھلتے ہوں گے لیکن کیا اصل قصور وار ہماری اپنی حکومتیں نہیں ہیں جن کے اندر موجود سازشی عناصر ہمارے دشمن ملک بھارت کا پاکستان میں پانی کی کمی پیدا کرنے کا ایجنڈا پورا کرتے رہے یا تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی اس خواہش کا احترام کرتے رہے کہ پاکستان مسلسل ان کے تیل کا خریدار ہی رہے ،بھلے اس طرح
ہماری معیشت کا کونڈا ہی ہو جائے۔
کالاباغ ڈیم کے ذکر سے میں نے قصداً گریز کیا ہے۔ اگرچہ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کے بقول تکنیکی لحاظ سے کوئی جائز وجہ موجود نہیں ہے کہ کالاباغ ڈیم نہ بنایا جائے لیکن اس کو سیاست کی نذر کر بھی دیا جائے تو یہ جو داسو ڈیم اور بھاشا ڈیم بنانے کی باتیں آج ہو رہی ہیں ،کیا ان ڈیموں کو گزشتہ چالیس برسوں میں نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ مگر کیا کریں ہمارے پانی کے وسائل کم ہیں اور سازش کرنے کے وسائل
زیادہ ہیں۔ جو وسائل زیادہ ہیں وہ غالب آ چکے ہیں۔ لہٰذا داسو اور بھاشا کو آپ بیانات ہی جانیں۔ اس ملک میں ڈیم بننے ویسے بھی مشکل ہو چکے ہیں لہٰذا اب لوگوں کو ڈیم فول بنا کر ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ یہاں عوام کا قصور بھی ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کی آواز بھی بلند نہیں کرتے۔ ملک میں بجلی ہے نہ صاف پانی۔ اس کے باوجود یہ ہر مرتبہ انہی لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کرتے ہیں جو انہیں ماضی میں بھی ریلیف نہیں دے سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کا کام صرف سازشی تھیوریاں تیار کرنا رہ گیا ہے اور عوام کا کام بیوقوف بننا۔ایسے میں حالات خودبخود تو تبدیل ہونے سے رہے۔ عوام عارضی طور پر اپنے مسائل کے حل کے لئے احتجاج کریں گے تو حکمران بھی ان کے مسائل عارضی بنیادوں پر ہی حل کریں گے۔
ریلوے اور پانی کے ذکر کے بعد آپ دیگر وسائل کو لے لیں۔ تانبے‘ کوئلے کے ذخائر کی بات کر لیں۔ تیل‘ گیس کے ذخائر کی بات کر لیں۔ یہ تمام وسائل مل کر بھی تاحال ہمارے ہاں جو سازش کرنے کے وسائل موجود ہیں ان پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سازش کرنے والا شخص پہلے اپنا ضمیر زسچتا ہے اور پھر سازش کرتا ہے۔ جس حساب سے ہمارے ہاں سازشیں ہو چکی اور ہو رہی ہیں ،اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس ملک خداداد میں کتنا ضمیر فروخت ہوا ہوگا اور کتنا ضمیر آج بھی فروخت ہو رہا ہے۔