ہمدم دیرینہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے خبرنامہ ''شب خون‘‘ کا تازہ شمارہ ارسال کیا ہے اور ساتھ ہی‘ میری درخواست پر اُس مضمون کی ایک فوٹو کاپی بھی جو ان کے انگریزی مجموعۂ مضامین بعنوان ''اے سیکرٹ مِرر‘‘ میں ''اے غزل آف ظفر اقبال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس پرچے کا اصل کمال یہ ہے کہ منظومات اور فکشن نہ ہونے کے باوجود یہ اس قدر دلچسپ اور معلومات افزا ہوتا ہے کہ اس کا باقاعدہ انتظار رہتا ہے۔ اس کے آغاز میں چھپنے والے مکتوبات بطور خاص قابلِ مطالعہ ہوتے ہیں جن میں مختلف لکھنے والوں کے اس میں شائع ہونے والی تحریروں پر کمنٹس بھی ہوتے ہیں اور کہیں کہیں آپس کی نوک جھونک بھی۔
اس شمارے کا معتبر ترین حصہ وہ ہے جس میں حال ہی میں انتقال کر جانے والے ادیبوں کے بارے نہایت مفید اطلاعات بہم پہنچائی گئی ہیں جن میں محبوب خزاں‘ بلراج کومل‘ کمال احمد صدیقی‘ وارث علوی‘ شہاب للت‘ علی ظہیر‘ خالد بن سہیل‘ خوشونت سنگھ‘ عشرت علی صدیقی‘ مظہرالحق علوی اور سید مظفر حسین برنی شامل ہیں۔ بعض مضامین مثلاً خوشونت سنگھ‘ وارث علی‘ کمال احمد صدیقی اور محبوب خزاں پر لکھے گئے یادگاری مضامین کافی تفصیل سے لکھے گئے ہیں جس سے ان کی شخصیت اور کام پر روشنی پڑتی ہے۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر اسلم فرخی کا تفصیلی انٹرویو ہے جو عنبرین حسیب عنبر نے لیا ہے اور جو ہم ان کے رسالے ''اسالیب‘‘ میں بھی پڑھ چکے ہیں اور جو بھارتی قارئین کے لیے یقینا ایک خاصے کی چیز
ہے۔ اس کے بعد کمار پرساد مکھر جی کا لکھا اور تسلیم صدیقی کا ترجمہ کردہ استاد بڑے غلام علی خان اور استاد احمد جان تھرکوا جیسے عظیم موسیقاروں پر ایک نہایت مفید مضمون ہے۔ اس کے بعد حال ہی میں انتقال کر جانے والے شاعر رونق نعیم کا تذکرہ ہے جو اظہار الاسلام نے کیا ہے۔ اس کے بعد فاروقیات کے عنوان سے شمس الرحمن فاروقی کا مختصر انٹرویو ہے جو لاہور میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘ پروفیسر جعفر بلوچ‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن اور عزیز ابن الحسن نے لیا‘ اور معزز معاصر روزنامہ کے این بی ٹائمز گلبرگہ میں شائع ہوا۔
اس کے بعد زبان کی نوعیت سے ایک مراسلہ ہے جو پروفیسر غازی علم الدین کے نام ہے اور جسے شمس الرحمن فاروقی نے لکھ کر انہیں بھیجا ہے اور جس میں ان کی کتاب ''لسانی مطالعے‘‘ میں موجود زبان کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے اس کا جواب پروفیسر صاحب اگلے شمارے میں دینا پسند کریں۔ بعدازاں ''کچھ نئی کتابیں‘‘ کے عنوان سے شمس الرحمن فاروقی ہی کے قلم سے متعدد کتابوں پر مختصر تبصرے ہیں،جنہیں جسے پڑھ کر صاحبِ موصوف کی تنقیدی بصیرت اور مطالعہ پر ایک دفعہ پھر ایمان لانا پڑا۔ اس کے بعد خطاط غلام الہندی بنارسی کے بنائے ہوئے دو صفحوں پر دو خوبصورت طغرے ہیں جس کے بارے میں فاروقی ہی نے اپنے تبصرے میں بتایا ہے کہ یہ اقبال کی دو رباعیوں پر مشتمل ہیں۔ اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک تو یہ قطعات ہیں اور دوسرے رباعی کے متعدد اوزان میں سے کسی پر بھی پورے نہیں اُترتے اور نہ ہی خود اقبال نے انہیں اپنی رباعیاں قرار دیا ہے۔ اس لیے انہیں خواہ مخواہ رباعیاں قرار دینا فہم سے بالا تر ہے۔
اور‘ اب آخر میں اس اُبال کا ذکر جو شمس الرحمن فاروقی کی باسی کڑھی میں ایک بار پھر آیا ہے۔ ایک مکتوب نگار کے جواب میں لکھتے ہیں:
''بے شک میں نے ظفر اقبال کی بھرپور تعریف کی ہے۔ وہ اس تعریف کے مستحق تھے، لیکن میں نے ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر کبھی نہیں کہا۔ کبھی نہیں لکھا۔ ہاں ظفر اقبال صاحب اپنی بے سُری گائے جا رہے ہیں‘‘۔
سوال یہ ہے بھائی صاحب کہ اگر آپ نے واقعی کبھی ایسا کہا نہ لکھا تو بار بار اس کے انکار کرنے اور اس قدر برا فروختہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ''ظفر اقبال ہر طرف بدبو ہی پھیلا رہے ہیں‘‘۔ یہ طرز بیاں آپ ہی کو مبارک ہو‘ یعنی ؎
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا
اس میں آپ کا قصور نہیں‘ آپ کے والدین اور اساتذہ کا ہے۔ میں اس انداز میں آپ کو جواب نہیں دے سکتا۔ میری تربیت اس طرح سے نہیں ہوئی ہے!
ساتھ ہی صاحبِ موصوف نے محبی انتظار حسین کا وہ کالم بھی ری پروڈیوس کرنا ضروری سمجھا ہے جو یہاں روزنامہ ایکسپریس میں مورخہ 2 مارچ 2014ء کو شائع ہوا تھا۔ بے شک انہوں نے فاروقی کے موقف کی تائید کی تھی لیکن لہجہ دوستانہ بلکہ برادرانہ ہی رکھا۔ چلیے انتظار حسین نے بھی اپنا رانجھا راضی کر لیا؛ تاہم مجھے موصوف پر افسوس زیادہ ہے‘ یعنی ؎
ز گُل فروش ننالم کز اہلِ بازار است
تپاکِ گرمیِ رفتارِ باغبانم سوخت
کیا زائد از یک ارب کی آبادی والے اس ملک میں ایک بھی بندۂ خدا ایسا نہیں جو موصوف کے سر پر قرآن رکھ کر یہ پوچھے کہ آپ نے ایسا لکھا یا کہا تھا یا نہیں تاکہ یہ قضیہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے کیونکہ اعلیٰ حضرت ایک چھوٹی سی بات کے لیے اپنی عاقبت خراب کرنے کو کبھی تیار نہ ہوں گے۔ بلکہ اب تو جھوٹ پکڑنے والی مشین بھی ایجاد ہو چکی ہے۔ تاہم بار بار کے اس انکار کی وجہ ضمیر کی خلش تو نہیں؟ کہ خوابیدہ ضمیر میں بھی خلش تو ہو ہی سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ بات پھر بھی قابلِ تعریف ہے‘ یعنی ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر‘ ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
حق تو یہ ہے کہ میں اپنے دوست فاروقی‘ یا کسی کے بھی کہنے سے چھوٹا یا بڑا نہیں ہو سکتا۔ میں اتنا ہی رہوں گا جتنا کہ ہوں۔ پنجابی میں ایک محاورہ ہے کہ مر جانے اور مکر جانے والے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اور‘ اگر یہ بات فاروقی صاحب کی چِڑ بن چکی ہے تو اس سے زیادہ پُرلطف بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے میرا کام بھی چل رہا ہے اور صاحبِ موصوف کا بھی۔ اور یہ کہ تعلق بہرصورت قائم رہتا ہے‘ ٹوٹتا نہیں‘ کہ ادھر تو زیادہ سے زیادہ صورت حال یہی ہے کہ ع
اک چھیڑ ہے وگرنہ مُراد امتحاں نہیں
آج کا مقطع
میں بغاوت کر رہا ہوں عاجزی سے‘ اے ظفرؔ
میری شورش بھی سراسر انکسار امکان ہے