تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     30-06-2014

جذبۂ حب الوطنی

زندگی کتنی بھی مشینی کیوں نہ ہو جائے لیکن انسان کی زندگی میں جذبوں کی اہمیت اب بھی وہی ہے۔ جذبہ حب الوطنی بھی ایک ایسا معجزانہ جذبہ ہے جو کسی قوم کو ایک لڑی میں پرو کر‘ مشکل سے مشکل وقت آسانی سے گزار سکتا ہے۔ وطن سے محبت کا سچا جذبہ ہو قومیں آزمائشوں کی ہر گھڑی میں سرخرو ہوتی ہیں۔ قربانی‘ ایثار اور اتحاد کے اسی جذبے سے جنگیں جیتی جاتی ہیں اور اگر قومیں اس جذبے سے عاری ہو جائیں تو ملک بکھر جاتے ہیں۔ وطن سے محبت کا وہ جذبہ جس سے مختلف نسلوں‘ مسالک اور صوبوں کے لوگ اتحاد کی ایک لڑی میں پروئے جاتے ہیں آج وہ نظر نہیں آتا۔ ہاں کرکٹ میچ جیسی سطحی چیزوں پر پورا ملک وطن کی محبت میں سرشار دکھائی دیتا ہے، مگر جن موقعوں پر ہمیں اس خوب صورت جذبے کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ایک بے حسی اور خودغرضی ہی دکھائی دیتی ہے۔ 
میں نے اپنی زندگی میں 65ء کی جنگ تو نہیں دیکھی مگر اپنی ماں سے سنا ضرور ہے کہ کیسے لوگ اس جنگ میں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن گئے تھے اور عام پاکستانیوں کی وطن کے لیے محبت نے سرحد پر لڑتے پاکستانی فوجیوں کے جذبوں کو کس طرح مہمیز کیے رکھا۔ کھیت کھلیانوں میں کام کرتا کسان ہو‘ یا دفتر میں فائل ورک کرنے والا کوئی شہری بابو ہو‘ گھر کے باورچی خانوں میں چولہا جھونکتی خواتین ہوں یا پھر نئے جہانوں کے خواب دیکھتے نوجوان... ہر شخص اپنی جگہ وطن کا سپاہی بن گیا تھا۔ اسی جذبۂ حب الوطنی کی آنچ سے شاعر کا دل پگھلا تو وطن کے کیسے کیسے دلنواز وطن کے ترانے وجود
میں آئے۔ اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں۔ قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں (انور مسرور)، ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘ (صوفی تبسم)،جمیل الدین عالی کے قلم سے یہ نغمہ پھوٹتا ہے... اے وطن کے سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں! مگر آج ایسے خوب صورت ملی نغمے‘ وطن کے ترانے کیوں نہیں لکھے جا رہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وطن کی محبت میں سرشار جو اعلیٰ اور شاندار شاعری اس دور میں تخلیق ہوئی‘ آج اس معیار کا ایک بھی ملی نغمہ نہ لکھا گیا اور نہ ہی گایا گیا۔ سچی بات ہے‘ آج بھی اس دور کے لکھے ہوئے ملی نغمے‘ لہو گرماتے ہیں اور جذبوں میں ایک حدت پیدا کرتے ہیں! مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ دلوں سے وطن کی محبت کا یہ خوب صورت جذبہ رفتہ رفتہ رخصت ہو گیا۔ ہاں 2005ء کا ہولناک زلزلہ ایک ایسا قومی سانحہ تھا جس میں ایک بار پھر پورے پاکستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے‘ مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ایک قوم کی صورت ابھرے۔ میڈیا کا کردار بھی اس میں قابلِ ستائش تھا۔ مجھے یاد ہے کہ رمضان المبارک کے دن تھے‘ عید آنے والی تھی اور ملک ایک حصے پر زلزلے کی صورت ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی... اور لوگوں کو اس قیامت کا احساس تھا۔ عید قریب تھی اور بازار خالی تھے۔ ایک سروے کے دوران ایک دکاندار نے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے کہ عید کے دن ہیں مگر لوگ اپنے لیے خریداری نہیں کر رہے۔ اس سانحے کے بعد پھر پاکستانی کبھی اس طرح دکھ کی ایک لڑی میں نہیں پروئے گئے۔ 
ایسی ہی کچھ کیفیت ان دنوں بھی موجود ہے۔ ملک کے ایک حصے میں باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے۔ ہماری بہادر افواج ایک مشکل اور گمبھیر دشمن کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ مائوں کے جری سپوت، دھرتی ماں کی حرمت اور حفاظت کے لیے شہادتیں قبول کر رہے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں سے ہمارے ہی پاکستانی بہن بھائی‘ لاکھوں کی تعداد میں‘ اپنے گھروں سے ہجرت کر کے‘ بے کسی اور بے گھری کے مشکل حالات سے دوچار ہیں مگر جو جذبہ حب الوطنی نظر آنا چاہیے تھا‘ کہیں نظر نہیں آتا۔ میری اور آپ کی جنگ، ہم سب کی اس جنگ میں‘ ہمارے وزیرستانی بہن بھائی حقیقتاً قربانیاں دے رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس وقت پورا ملک اس احساس کے ساتھ پاک فوج اور آئی ڈی پیز کے ساتھ کھڑا ہوتا‘حالات بالکل الٹ دکھائی دیتے ہیں۔ جذبہ حب الوطنی کی جس آنچ پر ہمارے دلوں کو پگھلنا چاہیے تھا، ہماری آنکھوں کو نم ہونا چاہیے تھا۔ وہ آنچ اتنی مدھم ہے کہ اس کی حدت محسوس نہیںہوتی۔ کاش اب بھی وطن کی حرمت پر اپنی جوانیاں قربان کرنے والے‘ سجیلے جوانوں کو خراج پیش کرنے کے لیے‘ میرے شاعر کا قلم کوئی نغمہ‘ بکھیرے... میری خواہش ہے کہ کوئی ایسی تان چھیڑے جس کے ایک ایک سُر میں وطن کی محبت کے سو سو رنگ بکھرے ہوں۔ نورجہاں تو بس ایک ہی تھی جس نے صوفی تبسم کے لکھے ہوئے گیتوں کو اپنی آواز کا درد یوں دیا کہ سننے والے آج بھی ان ترانوں پر اپنی آنکھوں کے آنسو نہیں روک پاتے۔ آج بھی‘ راہِ حق کے شہیدوں کو خراج پیش کرنے کے لیے ہم نسیم بیگم کی پُرسوز آواز کے ممنون ہوتے ہیں۔ 
اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو! 
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں! 
اس وقت حالتِ جنگ میں ہونے کے باوجود‘ میرے وطن میں سیاست کے نام پر ایک عجیب تماشاگری جاری ہے، جس نے ملک میں ایک Chaos کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ جہاں ہر شے بکھرتی جا رہی ہو، وہاں جذبے سلامت کیسے رہ سکتے ہیں۔ اگر آج ہمارے دل حب الوطنی کے جذبے سے خالی ہو رہے ہیں تو اس میں قصور ہمارے رہنمائوں کا بھی ہے۔ جہاں ویژن سے عاری سیاستدان صرف اقتدار کے حصول کے لیے سیاست کریں، وہاں لوگوں کی بھیڑ کا قوم بننا مشکل ہے۔ سیاستدانوں کی قلابازیاں‘ کرپشن کی کہانیاں‘ خود غرضی اور مفاد پر مشتمل کارِ سیاست،جھوٹے وعدے‘ کھوکھلے دعوے۔ ان سب نے کم از کم آج کی نسل کو بددل اور مایوس کردیا ہے۔ اور وطن سے محبت کا عظیم اور خوبصورت جذبہ بھی اسی ''سیاست‘‘ کی نذر ہو چکا ہے اور ہماری غربت کا عالم یہ ہے کہ ؎
وہ غربتیں کہ خواب کا زادِ سفر نہیں 
اس قافلے کا قافلہ سالار کون ہے؟ 
غربت کی اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دلوں میں وطن سے پیار اور وطن سے چاہت کے دیے روشن کرنا چاہئیں۔ اس لیے کہ مستحکم اور باوقار ملکوں کے لیے صرف مضبوط اکانومی ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی قیادت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں سے بے حسی اور خودغرضی کا زنگ اتار کر ان کے دلوں میں وطن کی محبت کا جذبہ بیدار کریں، لیکن اس کے لیے خود رہنمائوں کو جس معیار تک آنا ہوگا کیا ایسا ان کے لیے ممکن ہوگا؟ کیا وہ اپنے دھرنوں‘ ٹرین مارچوں‘ جلسے جلوسوں سے زیادہ وطن کی محبت کو اہمیت دے سکیں گے؟ 
جیسے زندگی کی خوب صورتی اور اعتدال کے لیے انسانی قدروں کا سلامت اور محفوظ رہنا ضروری ہے‘ اسی طرح وطن کے استحکام کے لیے دلوں میں جذبہ حب الوطنی کی آنچ کا ہونا لازم ہے۔ اس مدھم پڑتی آنچ کو بھڑکتے شعلے میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved