تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     30-06-2014

انقلابی لشکر

تاریخ بتاتی ہے کہ شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری بڑی سرعت سے شکست خوردہ قبیلے کی سرداری قبول کر لیتے ہیں اور پھر اس پر نازاں بھی رہتے ہیں، یا یوں کہیے کہ بھگوڑے سپاہی نانِ جویں کی آس میں ان کے گرد آکر یوں دو زانو ا ہوتے ہیں کہ آپ قبلہ کو خود پر فاتح کا گمان گزرنے لگتا ہے۔قبلہ نے یہ کام نجانے زندگی میں کتنی بار کیا ہوگا لیکن باقاعدہ طور پر ہاری ہوئی سیاسی فوج کی سپاہ سالاری انہیں1990ء کی دہائی کے آخر میں میاں نواز شریف کے خلاف پاکستان عوامی اتحاد کی سربراہی کی صورت میں ملی،جس میں محترمہ بے نظیربھٹو سمیت اٹھارہ دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں۔ قبلہ کو اس اتحاد کی سربراہی سونپنے کا ایک مقصد خود پاکستان پیپلزپارٹی والے اس زمانے میں بتایا کرتے تھے کہ شیخ الاسلام کی جیبوں کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ سیاسی کاموں کے لیے سرمایہ کبھی مسئلہ نہیںبنے گا اور یوں بھی پیپلزپارٹی اس زمانے میں اتنی سکڑ سمٹ چکی تھی کہ اس کے لیے سرمائے کا حصول ایک مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹونے ایک دانشمند سیاستدان کی طرح آپ قبلہ کو اپناجزوقتی قائد بنا کر یہ مسئلہ حل کرلیا۔ آپ قبلہ کو نئی سج دھج سے نواز شریف کے خلاف کھڑا کرنا سیاسی طور پر ان کا منہ چڑانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن محترمہ آپ قبلہ کی حرکتوںسے خوب مسرور ہوتیں۔سیاسی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ قبلہ نے اس منصب کو کچھ یوں سمجھا کہ گویا محترمہ بینظیر بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں نے آپ کی سیادت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کے عقیدت مندوں کی طرح کام کرنا قبول کرلیا ہے۔ آپ قبلہ کے ذہن میں یہ خیال اتنا پختہ
ہے کہ سالوں بعدبھی اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے اس کارنامے کو یہ کہہ کر بیان کرتے ہیں کہ 'محترمہ بے نظیر بھٹونے میری ماتحتی میں کام کیا‘۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے آپ قبلہ کی 'ماتحتی‘ گوارا کی وہ اپنی سیاسی زندگی کے پست ترین مقام سے گزر رہی تھیں۔ دو مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد اب وہ ایک ایسی پارٹی کی سربراہ تھیں جس کے پاس قومی اسمبلی میں صرف سترہ نشستیں تھیں اور یہ کہا جانے لگا تھا کہ شاید پیپلزپارٹی آئندہ الیکشن میں آخری ہچکی لے کر تاریخ کا حصہ ہوجائے گی۔ خیر حالات بدلے تو پیپلزپارٹی کوبھی ایک بار پھر ملکی سیاست میں زیادہ طاقت کے ساتھ واپسی کو موقع ملا لیکن اس واپسی میں آپ قبلہ کی قیادت کا کوئی کردارنہیں تھا، بلکہ یوں کہیے کہ پیپلزپارٹی نے آپ سے فاصلہ پیدا کرلیا تو کامیابی اس کے قدم چومنے لگی۔ یہ سب دیکھ کر آپ پاکستانی سیاست و شہریت پر تین حرف بھیج کر اپنی قیادت لے کر کینیڈا سدھارگئے ۔ 
آپ قبلہ اور زوال زدگان کے درمیان دائمی رشتے کی ایک مثال چودھری برادران بھی ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے زیراہتمام چلنے والی اسمبلیوں میں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کو جو عروج ملااس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جس بارگاہِ طاقت سے آپ قبلہ کو قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی تھی وہیں سے چودھری برادران کو
وزارت عظمیٰ ، وزارت اعلیٰ اور نجانے کیا کیا کچھ مل گیا۔ اپنے اقتدار کے دنوں میں چودھر ی برادران نے آپ قبلہ سے اتنا ہی فاصلہ رکھا جتنا پاکستان اور کینیڈا کے درمیان ہے۔لیکن وقت کو لوگوں کے درمیان پھیرا جاتا ہے ،سو وہ دن بھی آگیا جب چودھری برادران کو ایوان اقتدار سے نکلنا پڑا، مگر اتنا ضرور ہوا کہ2008ء کے انتخابات نے انہیں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر قومی اسمبلی میں بھیج دیا اور کچھ عرصے کے لیے نائب وزیراعظم کا نمائشی عہدہ بھی چودھری پرویز الٰہی کو مل گیا۔ اس کے بعد وقت کی ایک اور ضرب نے چودھری برادران کے صنم خانے کو پاش پاش کرڈالا۔ یہ دونوں بھائی اپنے سیاسی زوال کی اتھاہ گہرائی میں اپنی کرچی کرچی سیاست کو جوڑنے کی کوشش میں تھے کہ انہیں بھی آپ قبلہ کی صورت میں امید کی ایک کرن نظر آگئی۔ پھر چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ لندن میں آپ قبلہ کے ساتھ اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین نے صحافیوں کو ہدایت دی کہ جن اصلاحات کا ذکر اس ایجنڈے میں ہے ان کے ساتھ 'انقلابی ‘ کا لفظ بھی لکھا اور بولا جائے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ اللہ اللہ ، یہ مقام چودھری شجاعت حسین ہی کو حاصل ہوا کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم بھی رہے، امریکی امداد سے چلنے والے ایک ڈرامے میںانہوں نے چیف صوفی کا کردار بھی ادا کیا اور اب آپ قبلہ کے چیف انقلابی کی حیثیت میں اپنے 'فرائض ‘ انجام دے رہے ہیں۔
چودھری برادران کے علاوہ بھی شیخ الاسلام کے آستانے پر آج کل آنے جانے والے حضرات اور سیاسی جماعتوں کی فہرست ملاحظہ فرمائیے تو معلوم ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ سے لے کر پاکستان مسلم لیگ ق تک ساری سیاسی قوتوں کا مجموعی حجم بھی قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے جیتنے کے لیے ناکافی ہے۔ان لوگوں میں بس ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے زوال۔آپ قبلہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ان سب فنکاروں کو یہ امید ہے کہ آپ قبلہ اس ملک کے ساتھ کوئی ایسا ہاتھ فرمائیں گے جس کا نتیجہ جمہوریت کے خاتمے کی صورت میں نکلے گا اوراس طرح وہ درِ دولت کھل جائے گا جہاں سے ان کو پہلے بھی خیرات ملتی رہی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک الیکشن، عوام اور جمہوریت ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کچھ نہیں، اگر کچھ ہے تو بس وہ طلسم کدہ جہاں کاٹھ کے پتلوں میں جان ڈال کر انہیں ہمارے سروں پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ کاغذ کے یہ سپاہی اس وقت اپنے اپنے مفاد کی تلواریں سونتے ہوئے آپ قبلہ کی قیادت میں ایک ایسا لشکر ترتیب دے رہے ہیں جو اس ملک کے دستور پر شبخون مارنا چاہتا ہے۔ آپ قبلہ کی سیاسی بصیرت کی داد دینی چاہیے کہ ان کاغذی سپاہیوں کے زور پر انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاتے ہوئے حلقِ مبارک خشک کر لیتے ہیں۔ 
قبلہ کی بے مثل سیاست پر تو کوئی انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو یک بیک آپ قبلہ کی تحریک میں کیا نظر آرہا ہے جو دستور کی وسیع شاہراہ چھوڑ کر انقلاب کی پگڈنڈی کا جائزہ لیے لگے ہیں؟ یہ دونوں جماعتیں اگرچہ دستور پر یقین رکھنے والی ہیں لیکن ان کا ماضی بہرحال غیر جمہوری قوتوں کی حمایت سے آلودہ ہے اور اس وقت بھی ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی غیر آئینی بندوبست کو عملی سیاست کے تقاضوں کی آڑ میں قبول کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ان دونوں جماعتوں کی طرف سے بیک وقت ڈاکٹر طاہرا لقادری کو ایک سنجیدہ سیاسی فریق قرار دینا، کئی سوال اٹھا دیتا ہے۔ ان دونوں کی آپ قبلہ کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کو کیا سمجھا جائے؟ کہیں طاہر القادری کا ہوا دکھا کر عمران خان سے وہی کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا جو خود عمران خان کو آلہ کار بنا کر کچھ ہی عرصہ پہلے نواز شریف سے کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی ؟ کہیں جماعت اسلامی کے بارے میں وہ ساری افواہیں سچ تو نہیں ہونے والی جو سراج الحق کے امیر جماعت منتخب ہونے پر سننے میں آئی تھیں؟ کہیں یہ دونوں جماعتیں کسی گہری کھائی میں تو لڑھکنے والی نہیں کہ انہیں قبلہ کے سوا کچھ سوجھا ہی نہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved