جنوبی ایشیا میں بھارت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں جمہوری اداروں کی جڑیں خاصی مضبوط اور گہری ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی سیاست میں غنڈہ عناصر اور مجرموں کی آمیزش،نیز سیاسی جماعتوں کا سرمایہ داروں کے عطیات پر کلی انحصار، جمہوریت اور آزادیٔ اظہار رائے کے لیے خطرہ ہے۔حال ہی میں جس طرح ایٹمی بجلی گھر اور غریبوں کی زمینوں کو سرمایہ کاری کے نام پر لینے کے خلاف سرگرم ،چند رضا کار تنظیموں کے خلاف پروپیگنڈا کر کے ان کو ملک دشمن ثابت کرنے کی جو کوشش کی گئی، یہ اُس خطرناک رجحان کی طرف ہلکا سا اشارہ ہے۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق حالیہ پارلیمانی انتخابات میں لوک سبھا (ایوان زیریں )کے 543ارکان میں سے 53 فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ تعداد 24،حکمران بی جے پی سے تعلق رکھتی ہے ؛جبکہ پانچ ارکان کے ساتھ دوسرے نمبر پر شیو سینا ہے ۔ خیال رہے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے لئے امیدواری کا فارم پُر کرتے وقت عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعات 8(1) اور 8(3) کے تحت اپنے اوپر مقدمات کا اندراج کرنا لازمی ہوتا ہے۔ ان اراکین کے خلاف ایسی سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں،اگر ان کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو وہ سپریم کورٹ کے گزشتہ سال کے فیصلہ کی روشنی میں اپنی رکنیت سے محروم ہوسکتے ہیں ،جس طرح لالو پرشاد یادو اور قاضی رشید مسعود کو اپنی رکنیت سے محروم ہونا پڑا تھا۔
بھارتی جمہوریت کیلئے اس سے بھی بڑا خطرہ کارپوریٹ
گھرانوں کا سیاسی جماعتوں پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ہے۔ حالیہ انتخابات میں توکارپوریٹ لابی نے کھلے عام وزیر اعظم نریندر مودی کو کرسی اقتدار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ایک اندازے کے مطابق اس لابی نے ان کی انتخابی مہم پر کم و بیش 400 ارب (چالیس کھرب )روپے خرچ کئے، گو کہ اس رقم کا کہیں حساب کتاب نہیں ،لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے عام کئے گئے اعدادو شمار بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ملکی سیاست سرمایہ دارو ں کی اسیر بنتی جارہی ہے۔چند دہائی قبل تک سیاسی جماعتیں عوامی چندے سے اپنے دفاتر چلاتی اور ہمہ وقتی کارکنوں کو تنخواہیں دیتی تھیں۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ چندہ دینے والا بھی پارٹی سے قلبی اور ذہنی وابستگی محسوس کرتا تھا۔مگر اب سیاسی جماعتوں کو گھر گھر جاکر چندہ وصول کرنے کی ضرورت نہیں رہی ۔
مالی سال2012-13 ء میں چھ بڑی قومی سیاسی جماعتوں کو991.2 کروڑ روپے سرمایہ داروں سے بطور عطیہ ملے ۔ جس میں سب سے زیادہ رقم کانگریس کے حصہ میں آئی جو 425.69 کروڑ ہے جبکہ بی جے پی کی رقم 324.16 کروڑ ہے۔ اسی طرح بی ایس پی کو87.63 کروڑ ، این سی پی کو 26.56،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کو 126.09 اورکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو 1.07کروڑ روپے بطور چندہ ملے ۔ بی جے پی کو عطیہ دینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ پارٹی کے سب سے زیادہ 1670عطیہ دہندگان نے تقریباً 26 کروڑ روپے عطیہ دیا ۔ کوئلہ کرپشن کیس میں ماخوذ ادتیہ برلا کے جنرل الیکٹریکل ٹرسٹ نے 2004-05ء سے 2011-12ء کے درمیان پارٹی (بی جے پی ) کو تقریباً27کروڑ کا چندہ دیا۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2013-14ء میں پارٹی کوکس قدر چندہ ملا ہوگا ،اس کا اندازہ انتخابات میں بی جے پی کے ہوشربا اخراجات سے لگایا جاسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اس سے بڑی بد دیانتی کیا ہوسکتی ہے کہ بھارت میں ابھی تک عطیات کی تفصیلات مخفی رکھی جاتی ہیں۔ بیشتر ممالک جیسے جرمنی ، فرانس ، امریکہ ، برازیل اور جاپان حتیٰ کہ بھوٹان اور نیپال میں عطیات کی تفصیلات عام کر نا لازم ہے۔
انتخابی مہم کے دوران مودی نے سیاست کو مقدمات میںماخوذ لوگوں سے پاک کرنے کا عہد کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی سپریم کورٹ سے گزارش کریں گے کہ وہ سیاسی شخصیات کے خلاف درج کئے گئے مقدمات کو ایک مخصوص مدت کے اندر منطقی انجام تک پہچانے کے لئے ذیلی عدالتوں کے لیے راہنما اصول وضع کرے۔ مگر چونکہ اب سب سے زیادہ ملزم اراکین لوک سبھا ان ہی کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی نااہلی کی صورت میں ان کی حکومت اقلیت میں آسکتی ہے، اس لیے انہوں نے شاید خاموشی میں ہی عافیت جانی ہے۔ خیال رہے پچھلے سال بھارتی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ میں کہا تھا کہ اگر عوامی نمائندگی قانون کی دفعات 8(1)، 8(2) اور8(3) کے تحت عائد الزامات میں پارلیمان یا اسمبلی کا کوئی رکن قصوروار پایا جاتا ہے اور اسے سزا ہوتی ہے تو وہ پارلیمان یا اسمبلی کی رکنیت کے لئے نا اہل اور اس کی نشست خالی قرار دے دی جائے گی۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی وکیل محترمہ لیلیٰ تھامس اور لوک پرہاری کے وکیل ایس این شکلا کی مفاد عامہ کی ایک درخواست پر سنایا گیا تھا۔عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ 8(1) میں الزامات کی فہرست درج کی گئی ہے جس کے تحت اگر کوئی ایم پی یا ایم ایل اے ملزم قراردیا جاتا ہے اور اسے چھ مہینے کی قید ہوتی ہے تو اس صورت میں وہ نا اہل قرار پائے گا۔ اسی طرح 8(3) میں کہا گیا ہے کہ '' اگر کسی رکن کو سنگین جرم میں سزائے قید ہوتی ہے جس کی مدت دو سال سے کم نہ ہو تو اس صورت میں جس دن اسے سز ا ہوئی اس دن سے وہ نا اہل قرار پائے گا اور اپنی رہائی کے بعد سے چھ سال تک مزید کوئی الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہوگا ۔ مزید برآں ، سپریم کورٹ نے 10 مارچ 2014 میں ایک این جی او پبلک انٹرسٹ فائونڈیشن کی مفاد عامہ کی ایک پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ '' ان افراد کے خلاف جو پارلیمان یا اسمبلی کے رکن ہیں، عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعات 8(1)،8(2)،اور 8(3) کے تحت فرد جرم عائد ہے ان کے مقدمات کی سماعت جتنی جلد ممکن ہوسکے ،کی جائے اور یہ مدت ایک سال سے کم ہو اور اس کے لئے روزانہ سماعت کی جائے۔‘‘ مودی نے ایوان میں بھی کہا تھا کہ وہ پارلیمان کو داغ
دار ارکان سے صاف کرنے کے لئے عدالتی نظام کا سہارا لیں گے اور سال 2015ء تک پارلیمان کو ا یسے افراد سے پاک کریں گے۔جن کے خلاف مقدمات درج ہیں ، ان میں مرکزی وزراء اوما بھارتی ، ایل کے ایڈوانی ، ایم ایم جوشی بھی شامل ہیں جن کے خلاف فساد بھڑکانے ، دو فرقوں کے درمیان عداوت پید اکرنے اور بابری مسجد سے متعلق مقدمات درج ہیں۔یہ مقدمات 1992ء سے عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ بھارت میں نچلی سطح پر نظام انصاف کس قدر جانبدار اورمتعصب ہے۔ ایڈوانی اور جوشی اور دیگر کے خلاف مقدمات کی جو حالت ہے ، یا ملک کے دیگر حصوں میں با لخصوص گجرات میں جو حالات ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ان حوصلہ شکن حالات میں سیاست کو جرائم سے پاک کرنا اور جمہوری نظام کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں!