کسی بھی معاشرے میں مروجہ سیاست اس عہد کی معیشت اور سماجی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور عام انتخابات سرمایہ دارانہ انقلابات کے مثبت نتائج تھے جن کا آغاز یورپ سے ہوا۔ ابتدائی دنوں میں اس نظام کے سیاسی اور ریاستی اداروں پر اعتماد موجود تھا اور محنت کش عوام انتخابات میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ یہ سوشل ڈیموکریسی کا کلاسیکی عہد تھا اور عوام اپنی دیوہیکل روایتی پارٹیوں کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت کا حصہ بنا کرتے تھے۔ اس وقت سرمایہ داری میں اتنی گنجائش موجود تھی کہ محنت کش طبقہ چھین کر ہی سہی،کچھ حاصل ضرورکر لیتا تھا۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے سابق نوآبادیاتی ممالک میں اس نظام کی معیشت اور سیاسی ڈھانچے سامراجی سنگینوں کے بھیانک سائے میں مسلط کئے گئے۔ متحدہ ہندوستان میں انگریز راج کے تحت ہونے والے انتخابات سامراج کی عائدکردہ حدود و قیود سے تجاوز نہیںکرسکتے تھے۔ برطانوی آقائوںکے سامنے سر تسلیم خم کرنے والی مقامی اشرافیہ کے سیاسی نمائندے ہی اس''ولایتی جمہوریت‘‘ کا حصہ بن سکتے تھے۔ سرکش باغی اس بے غیرتی میں شامل ہونے کو تیار تھے نہ ہی انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ لہٰذا برصغیرکی انتخابی سیاست میں وہی افراد ابھرکر سامنے آئے جو سامراجی آقائوں کے مہرے بننے پر راضی تھے۔ سامراجیوں کے معاشی نظام کو ''جمہوری‘‘ طوالت دینے والے زیادہ تر مقامی سیاستدان برطانوی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے اور سوائے رنگ اور نسل کے ہر لحاظ سے''انگریز‘‘ ہی تھے۔
خونی بٹوارے کے بعد''آزاد‘‘ ہونے والی ریاستیں جدوجہد یا انقلاب کی بجائے سامراج سے مصالحت کا نتیجہ تھیں۔ ماضی میں براہِ راست حکمرانی کرنے والے سامراجی آقائوں نے ''آزادی‘‘ کے بعد اس خطے کو ''ٹھیکے‘‘ پر مقامی حکمرانوں کے حوالے کر دیا۔ سامراجی حدود و قیودکی حفاظت کا ذمہ گوری اشرافیہ کے بعد بھورے حکمران طبقے نے لے لیا۔ پرانے کھلواڑ میں مصنوعی قوم، ملک اور تہذیب کو بھی شامل کردیا گیا۔ مقصد دوسری جنگ عظیم کے بعد عوام کے بے قابو ہوتے ہوئے اشتعال کو ٹھنڈا کر کے استحصالی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانا تھا۔
نومولود ریاستوں کے حکمران طبقے نے ریاست میں''اپنائیت‘‘ اور سیاست میں عوام کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کئی ڈھونگ رچائے، رنگ برنگ سرکس لگائے۔ مذہبی عقائد ،ذاتیات اور نجی معاملات کو سرمائے کی سیاسی منڈی میں خوب اچھالا گیا۔ مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی، لسانی تعصبات اور نان ایشوز کے ذریعے عوام کو ایک ایسی سیاست میں الجھانے کی کوشش کی گئی جس کا ان کی زندگی کے مسائل اور ضروریات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ لیکن گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران حکمرانوںکی سیاست میں عوام کی دلچسپی بھی برائے نام اور غیر سنجیدہ رہی ہے۔
پاکستان میں صرف 1970ء کے عام انتخابات ایسے تھے جن میں عوام نے دل و جان لگا کراپنی زندگیاں بدل جانے کی امید سے شرکت کی تھی۔ یہ انتخابات امیر اور غریب، دولت اور محنت، انقلاب اور ردِ انقلاب کے درمیان ایک طبقاتی جنگ کا درجہ اختیارکر گئے تھے۔اس کے بعد ہونے والے تمام چھوٹے بڑے الیکشن عوام کو تبدیلی کی نوید سنانے کی بجائے دھوکہ دہی کا ہتھکنڈا بن کر رہ گئے۔ سرمائے کے جبر میں محنت کے مفادات کا سیاسی اظہاراور حصول بھلا کیسے ممکن ہے؟ آج سرمایہ دارانہ معیشت کے شدید بحران کے باعث اس کی سیاست کا تماشا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ گھٹیا، بدنما اور بے ہودہ ہوچکا ہے۔
دولت کے پہاڑوں پر اپنا تخت سجاکربیٹھے حکمران اندر سے اتنے بزدل اورکھوکھلے ہیں کہ ''ترقی‘‘کے منصوبوں سے زیادہ اخراجات ان کی اشتہار بازی پرکررہے ہیں۔ عوام کو حب الوطنی اور قومی سالمیت کا درس دینے والے حکمرانوں کے اعتمادکا عالم یہ ہے کہ چین اور ترکی سمیت پوری دنیا کے سرمایہ داروں سے سرمایہ کاری کی بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ ان کی اپنی سرمایہ کاری ملک سے باہر ہے۔ جتنا بڑا''مینڈیٹ‘‘ ہے، حکومت اتنی ہی نحیف اور متزلزل ہے۔ ہرکچھ مہینوں بعد شوربپا کرنے والے ایک صاحب کی گیدڑ بھبکیوں سے گھبرا جانے والے بھلا عوام کے مسائل کیا حل کریں گے؟
عمران خان کی صورت حال پہلے ہی بڑی نازک اور قابل رحم ہے۔ خان صاحب موتی چور کا لڈوکھاکر پچھتا بھی رہے ہیں اورہاتھ نہ آنے والے لڈوئوں پر رونا دھونا بھی کررہے ہیں۔ تحریک انصاف مذہبی بنیاد پرستی، لبرل ازم اور مڈل کلاس کی شعوری پسماندگی کا ایک ناقابل فہم امتزاج ہے ۔''انقلاب‘‘ کا
نعرہ لگا کر صوبائی حکومت میں آنے کے بعد انتخابات کو درست کروانے والے ایک نئے انقلاب کی کال عمران خان کی مرجھاتی ہوئی سیاست کی آخری ہچکی معلوم ہوتی ہے۔ دس لاکھ کے مارچ میں صرف نو لاکھ نوے ہزار یا اس سے کچھ زیادہ افراد کی کمی رہ جائے گی۔ انقلاب کی جتنی کالیں عمران خان نے دی ہیں اس سے تو انقلاب بھی تنگ آگیا ہوگا۔ لیکن اس مجوزہ انقلاب کا کوئی نام نہیں ہے اور جس انقلاب کا کوئی نام نہ ہو اس کا کام کیا ہوسکتا ہے؟ اس''انقلاب‘‘ کااصل چہرہ سب نے پختونخوا میں دیکھ لیا ہے لیکن یہ تو صرف آغاز ہے۔
ق لیگ کا بھی میڈیا پر بڑا شور ہے۔ چودھری برادران پر مشتمل یہ ''جماعت‘‘ جوڑ توڑکے چکر میں، وقتی طور پر شہرت پانے والے کسی بھی سیاسی مداری کے اردگرد چکرلگانا شروع کردیتی ہے۔ یہ لوگ مشرف سے لے کر زرداری اور عمران خان سے لے کر قادری تک، ہرکسی کی کشتی پرسوار ہوجاتے ہیں۔ ڈوبنے کے آثار نظر آئیں تو اپنا تختہ سمندر میں پھینک کرکسی اورکشتی کی تلاش میں ادھر ادھر منڈلانے لگتے ہیں۔
پھر الطاف بھائی ہیں جو اکثر اپنے کارکنوں سے ٹیلی فون پر خطاب فرماتے رہتے ہیں ۔اے این پی ''سیکولر ازم‘‘ کو پشتون قوم پرستی پر سبقت دے چکی ہے اور اس کے رہنمائوں کی رہی سہی ساکھ بھی پشتونوں میں ختم ہورہی ہے۔ آپسی لڑائیوں کے باعث پارٹی کی داخلی سیاست زیادہ سر گرم ہے۔ جوڑ توڑ اور بڑھک بازی چلتی رہتی ہے۔ انتہائی کمزور پرفارمنس دینے والے پیپلز پارٹی کے رہنما اب صرف تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ایک قوم پرست این جی او میں تبدیل کر کے یہ لوگ سندھ کے' آخری ٹھکانے‘ کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جانتے نہیں کہ سندھ کے عوام معاشی طور پر محروم تو ضرور ہیں، ذہنی طور پر مفلوج نہیں۔
مداری اورجوکر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت یہ سارا سرکس فلاپ ہوگیا ہے۔ محنت کش عوام پہلے صرف اکتائے ہوئے تھے لیکن اب ان سیاسی مداریوں کی طرف نفرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں۔ جب معاشی نظام اپنی موت آپ مر رہا ہو تو اس کو چلانے والا ہر سیاسی ڈھونگ، ہر تماشا ناکام اور نامراد ہی رہتا ہے۔ اس ملک پر تقریباً ایک دہائی تک حکمرانی کرنے والے آمر پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات میں اعتراف کیا ہے کہ ''سیاسی نظام اور قانون سویلین ہو یا فوجی، جبر و تشدد کا شکار ہمیشہ غریب ہی رہتے ہیں‘‘۔ (صفحہ 126)
سرمایہ داری کے اس سیاسی سرکس کے ذریعے عوام کے شعورکو آخری حدوں تک مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ ان تماشوںکا مقصد صرف بربادیوں، محرومیوں اور استحصال سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ لیکن بیماری جان لیوا ہوتی جارہی ہو تو درد کا احساس بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے؟ یہ احساس ایک غم، غصے اور نفرت کی آگ بھڑکا رہا ہے۔ یہی آگ جلد ایک دھماکہ خیز بغاوت بن کے اس نظام ، ریاست اور حکمران طبقے کو جلا کے راکھ کر دے گی۔ پھر تماشے اور سرکس نہیں ہوں گے بلکہ فیض کے بقول:
یہیں سے اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ یوم حساب ہو گا