تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-07-2014

بجلی کا معاملہ اور حکومتی سنجیدگی

سحری کرکے ابھی پوری طرح سنبھلے بھی نہ تھے کہ بجلی چلی گئی۔ تین بج کر اڑتیس منٹ پر اختتام سحری ہوا اور بائیس منٹ بعد جبکہ ابھی نماز فجر بھی پوری طرح ادا نہیں ہوئی تھی لوڈشیڈنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد پھر وہی گھنٹہ بجلی ہے اورگھنٹہ بجلی غائب ہے۔ ماہ صیام، رمضان کریم کا افتتاح ہی خوب تھا۔
بظاہر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کم از کم بجلی کے معاملے میں سنجیدہ نظر آتی ہے مگر چیزوں کو بغور دیکھیں اور معاملات میں ترجیحات دیکھیں تو معاملہ الٹ نظر آتا ہے۔ معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت میں موجود ہر شخص کے پاس اس کا حل موجود ہے مگرمزے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص کاحل دوسرے سے مختلف ہے۔ میاں نوازشریف کوئلے کے بجلی گھروں پرزور دے رہے ہیں۔ میاں شہبازشریف قائداعظم سولر پارک بہاولپور کے منصوبے پر سوار ہیں۔ سیکرٹری پانی و بجلی نرگس سیٹھی کے پاس اس سارے مسئلے کا تیر بہدف حل یہ ہے کہ روزانہ بلاناغہ صبح سے دوپہر تک ویڈیو لنک کانفرنس کی جائے اور بجلی سے متعلق پیداواری یونٹس اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے افسران کے پاس اس ویڈیو لنک کانفرنس سے جو وقت بچ جاتا ہے وہ اس میں اپنی دیہاڑی لگانے پرلگ جاتے ہیں۔ ان کی اس سلسلے میں پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں کہ ان کا آدھا دن تو سیکرٹری پانی و بجلی نرگس سیٹھی نے ضائع کردیا ہوتا ہے۔ اس آدھے دن میں ان کی جو طبیعت صاف کی جاتی ہے وہ اس بے عزتی پروگرام کا بدلہ اپنے سائلوں سے لیتے ہیں۔ اس بدلے میں وہ اپنی ہونے والی بے عزتی کا بدلہ جوابی بے عزتی اور ریٹ بڑھانے کی صورت میں لیتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کے معاملات پر پردہ ہی پڑا رہنے دیں تو بہتر ہے۔
کوئلے کے بجلی گھروں کا معاملہ بڑا مزیدار ہے۔ تھر سے کوئلہ نکالنے کا جو ٹائم فریم دیا گیا ہے وہ سات سال ہے۔ یعنی مقامی کوئلہ سات سال بعد دستیاب ہوگا۔ اب اس دوران لگنے والے تمام کول پاور پروجیکٹس کا دارو مدار درآمد شدہ کوئلے پر ہوگا۔ اس کے لیے جو انفراسٹرکچر درکار ہے ابھی وہ بھی نہیں ہے۔ کول پاور پروجیکٹس کا پہلا بجلی گھر جامشورو میں لگایا جارہا ہے۔ یہ چھ سو ساٹھ میگا واٹ کا بجلی گھر ہے اور اس کے لیے کوئلہ درآمد کیا جائے گا۔ درآمدی کوئلے کو جامشورو تک لے جانا اب بذات خود ایک مرحلہ ہے۔ کراچی کی بندرگاہ کا انتظام و انصرام چلانے والی کے پی ٹی یعنی کراچی پورٹ ٹرسٹ نے اس سلسلے میں مکمل معذوری ظاہر کردی ہے کہ کراچی پورٹ کی تمام برتھیں پہلے سے ہی دبائو میں ہیں اور وہاں پر مزید کسی قسم کی گنجائش ہی نہیں کہ وہ کوئلے کو وہاں اتار سکیں۔ اب واحد متبادل جگہ پورٹ قاسم ہے۔ وہاں بھی کوئلہ اتارنے اور اسے وہاں سے اندرون ملک منتقل کرنے کی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کی برتھیں خالی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سٹیل مل بند ہے۔ لیکن معاملہ وہاں بھی اتنا سادہ نہیں جتنا ہم تصور کرسکتے ہیں۔ سٹیل ملز والی برتھوں سے پپری ریلوے سٹیشن تک تین کلومیٹر فاصلے پر ریلوے ٹریک بچھانا پڑے گا اور وہ بھی ڈبل ٹریک تاکہ آنے جانے والی ریلوے بوگیوں کو کراسنگ کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔ اسی طرح جامشورو ریلوے سٹیشن سے پاورپروجیکٹ تک دو اڑھائی کلومیٹر میں بھی ریلوے ٹریک بچھانا پڑے گا۔ صرف اس ایک بجلی گھر کو کوئلہ سے مسلسل فراہمی کے لیے بارہ ریلوے انجن اور کم ازکم ساٹھ ستر بوگیوں کی ضرورت ہے جو فی الوقت ریلوے کے پاس نہیں ہیں۔ اب اس کے دوحل ہیں۔
پہلا یہ کہ بجلی گھر والے خود یہ کام کریں اور سارا ابتدائی خرچہ خود کریں اور بعدازاں یہ پیسے ریلوے سے کرائے کی مد میں کاٹ لیں اور دوسرا یہ کہ ریلوے یہ سارا خرچہ خود کرے اور کرائے کی مد میں آہستہ آہستہ اپنی لاگت وصول کرے ۔ پہلے سے انجنوں کی کمی ، بوگیوں کی عدم دستیابی اور دیگر انتظامی خرابیوں کے باعث شدید خسارے کاشکار ریلوے جو بذات خود بیل آئوٹ پیکیج کی منتظر ہے یہ مزید خرچہ کرنے کے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی اس قابل ہے۔ دوسری طرف اگر یہ خرچہ بجلی گھر والے اٹھاتے ہیں تو بجلی گھر کی لاگت اور اس خرچے کے بعد وہاں پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے پیداواری اخراجات کے باعث پہنچ سے باہر ہوجائے گی۔ یہ صرف جامشورو میں لگنے والے ایک پاور پروجیکٹ کا معاملہ ہے ۔اندرون ملک لگنے والے دیگر کول پاور پروجیکٹس کے لیے بھی یہی مسائل ہوں گے اور ان پر نہ تو کسی نے غور کیا ہے اور نہ ہی کوئی بروقت منصوبہ بندی کی ہے۔ ساہیوال میں اسی قسم کے ایک کول پاور پروجیکٹ کا افتتاح ہوچکا ہے اور مظفر گڑھ میں ایسا ہی ایک کول پاور پروجیکٹ لگانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
بہاولپور میں لگنے والا سولر پاور پروجیکٹ دھڑا دھڑ تکمیل کی جانب جارہا ہے۔ فی الوقت سو میگا واٹ پر کام ہورہا ہے اور اس کا ٹارگٹ ہزار میگا واٹ ہے۔ تیرہ ارب روپے سے مکمل ہونے والے اس پروجیکٹ پر پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت فی الوقت تقریباً سولہ روپے فی یونٹ ہوگی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ یہ قیمت بیس سینٹ فی یونٹ یعنی موجودہ حساب سے تقریباً بیس روپے فی یونٹ ہوگی مگر ہم سولہ روپے والی بات پر یقین کرلیتے ہیں۔ یہ سو میگا واٹ بھی دس دس میگا واٹ کے چھوٹے چھوٹے دس انفرادی سولر پروجیکٹس کا مجموعی نتیجہ ہوگا۔ ان دس دس میگا واٹ کے بچونگڑا ٹائپ بجلی گھروں کے لیے سولر پارک سے سولہ کلومیٹر دور واقع سیون بی سی گرڈ سٹیشن تک دس لائنیں بچھانی پڑیں گی۔ منصوبہ یہ ہے کہ اس کے لیے گیارہ گیارہ کے وی کی لائنیں ڈالی جائیں۔ گیارہ کے وی پر اس سولہ کلومیٹر طویل فاصلے کے دوران لائن لاسز کی شرح بہت زیادہ ہوگی۔ تقریباً بیس فیصد۔ میپکو نے یہ منصوبہ ختم کرکے اس سے پیدا ہونے والی بجلی کو ایک سو بتیس کے وی پر منتقل کرکے قومی گرڈ میں شامل کرنے کا متبادل منصوبہ دیا ہے۔ خدا جانے پنجاب حکومت کو اس طرح کے ناقابل عمل اور خسارے کے منصوبے کون بناکر دے رہا ہے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا حال سب سے خراب ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں شاید یہ کہیں دور دور تک نہیں کہ ان کمپنیوں کی حالت درست کی جائے۔ لائن لاسز، انتظامی خرابیاں ، مالی بدعنوانیاں اور غیر یقینی صورتحال ۔ ان عوامل نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا مزید بیڑہ غرق کردیا ہے اور اوپر سے ہمہ وقت بڑھتا ہوا سرکلر ڈیٹ ۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹائز کیے بغیر گزارہ نہیں ہے مگر جب تک یہ معاملات اسی طرح چل رہے ہیں انہیں درست طریقے سے چلانا ہوگا مگر یہ حکومتی ترجیحات میں کہیں دور دور تک نہیں ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا معاملہ خرابی کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ اس معاملے میں بہتری کی غرض سے حکومت کوجو کچھ کرنا چاہیے وہ اسے کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ بجلی کے معاملے میں بہتری ملک کی معاشی ترقی کے لیے زندگی موت کامسئلہ ہے لیکن حکومت کو رتی برابر پروا نہیں ۔ زبانی دعوے ایک طرف لیکن عملی اقدام صفر ہیں۔ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کا معاملہ یہ ہے کہ پچھلے پونے دو سال میں حکومت کوئی کل وقتی چیف ایگزیکٹو مقرر نہیں کرسکی۔ تین ستمبر2012ء میں ایک کل وقتی چیف ایگزیکٹو فارغ ہوا۔ اس کے بعد وقتی چارج ایک ریٹائرمنٹ کے قریب افسر کو دے دیا۔ یہ افسر آٹھ ماہ بعد نو مئی 2013ء کو ریٹائر ہوگیا۔ اب چارج اسی قسم کے ایک اور افسر کو دے دیا گیا جو تین ماہ بعد 6اگست 2013ء کو ریٹائر ہوگیا۔ اس کے بعد چارج ایک اور پیدا گیر افسر کے پاس آگیا۔ اس کو پانچ ماہ بعد چوبیس جنوری 2014ء کو فارغ کردیا گیا۔اب چارج ایک اور بزرگ افسر کے پاس ہے جس کی ریٹائرمنٹ 8ماہ بعد ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی ڈسٹری بیوشن کمپنی گزشتہ پونے دو سال سے ایڈہاک ازم کے تحت کسی مستقل چیف ایگزیکٹو آفیسر کے بغیر چلائی جارہی ہے۔ یہ حکومت کے پاور سیکٹر کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت سارا ملک ہی نظام شمسی کی مانند خودبخود چل رہا ہے اور کسی معاملے میں حکومت کوئی دخل اندازی نہیں کررہی مگر کم از کم یہ معاملہ ایسا نہیں کہ اسے اسی طرح چلتا چھوڑ دیاجائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اس لیے بھیجا تھا کہ وہ عقل استعمال کرے اور ہاتھ پائوں چلائے تاکہ دنیا کے معاملات چلتے رہیں مگر ہمارے حکمران دونوں چیزوں کو بیک وقت استعمال کرنے میں ہمیشہ سے ہی بخیل واقع ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved