تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     01-07-2014

داخلی طورپر بے گھر بلکہ دَربدر لوگ

ہم نے مالاکنڈ سوات آپریشن کے موقع پر (IDPS)Internally Displaced Personsکی اصطلاح سب سے پہلے سنی تھی، اِسی مفہوم کو ہم نے ''داخلی طورپر بے گھر بلکہ دَربدر لوگ‘‘ سے تعبیر کیاہے ۔وزیرِ اعظم میاں نوازشریف نے اپنے ذاتی فیصلے یاحالات کے جبر کے تحت شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالے سے پہل کرکے اعزاز حاصل کیا؛چنانچہ عمران خان کودل پر پتھر رکھ کر بادلِ ناخواستہ شمالی وزیرستان فوجی آپریشن کی بابت اپنے برسوں کے موقف کو ایک طرف رکھ کر آپریشن کی حمایت کرنا پڑی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حکومت توخیبر پختونخوا میں کررہے ہیں،لیکن ان کی سیاسی تگ وتاز کامرکز ومحور پنجاب ہے ۔پنجاب پر مبنی سیاست کرنے والے کے لئے دوسرا آپشن ہوہی نہیں سکتا ، باقی سب باتیں ساکھ بچانے کے زُمرے میں آتی ہیں۔ 
ہماری دانست میںان کا یہ شکوہ بے جا ہے کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیا ،سوات مالاکنڈآپریشن میں کارروائی کا اعلان اورعوام کے اِنخلا کا اقدام پہلے کرنے کی وجہ سے کوئی ہائی ویلیو ٹارگٹ حتیٰ کہ مُلا فضل اللہ بھی ہاتھ نہ آسکا اوراس نے با آسانی وبحفاظت نقل مکانی کرکے افغانستان میں اپنا محفوظ مرکزبنالیا اوراپنی ترجیح کے مطابق پاکستان کی داخلی حدود میں کارروائیاں شروع کردیں اور بالآخر تحریک طالبان پاکستان کی امارت بھی حاصل کرلی ۔اس سے تحریک پر اُن کے اثر ورسوخ کا بخوبی اندازہ لگا یاجاسکتاہے۔ فریق ِ مخالف کی طاقت اور رسوخ کا صحیح اندازہ نہ لگاسکنا بھی حکمت عملی کی ناکامی پر منتج ہوتاہے ۔ابھی تک ہمارے علم میں تو نہیں کہ اس جاری آپریشن کے نتیجے میں کتنے اہم اَہداف نشانہ بنے ،نہ ہی ان کے ناموں کا کسی میڈیا رپورٹ یا پریس بریفنگ میں تفصیلی ذکر آیا ہے ،جبکہ امریکہ ہر ڈرون حملے کے بعد اپنے حاصل شدہ اَہداف کا اعلان کرتا ہے اورقدرے توقُّف کے بعد فریق ِمخالف بھی اُسے تسلیم کرہی لیتا ہے ۔لیکن اب ایک اہم ترین کام ''بے گھر لوگوں ‘‘ کو فوری سہارا دینے اورپھر مستقل بحالی کی منصوبہ بندی کا ہے۔ہم بدقسمتی سے ایسے مواقع پر بہتر منصوبہ بندی اوربہتر نظم وضبط کا معیار پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں ۔ ایک تومیڈیا ہرمسئلے میں پیشہ ورانہ مسابقت کی وجہ سے منفی پہلوؤں کو اتنا زیادہ اجاگر کرتاہے کہ دنیا کے سامنے صرف ایک ہی تصویر آتی ہے کہ پاکستان خرابیوں کا مجموعہ ہے اور اس میں خیر کا کوئی ایک پہلو بھی نہیںہے ۔اس کے نتیجے میں متعلقہ حکومتی ادارے بوکھلاہٹ کاشکار ہوجاتے ہیں اورجو تھوڑا بہت کارِ خیر ہورہاہوتاہے ،وہ بھی بگاڑ کا شکارہوجاتا ہے ۔پھر اس طرح کے کاموں میں بدانتظامی بھی بہت بہت دیکھنے میں آتی ہے ،کسی کوچار چار ذرائع سے مل جاتاہے اورکسی کو کچھ بھی نہیں ملتا ۔
لہٰذا میری ناقص رائے میں مناسب یہ ہے کہ ایک''ادارہ ٔ بحالی وترقیات وزیرستان‘‘بنایاجائے ،اس میں وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اچھی انتظامی شہرت کے حامل اوردیانت دار افراد شامل کئے جائیں اور مُسلح افواج کے ساتھ ساتھ جن رفاہی اداروں کی شہرت اور کارکردگی کا معیار اچھاہے ، اُن کے نمائندے بھی شامل کئے جائیں ۔تمام داخلی اوربیرونی وسائل اس اتھارٹی یاٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوںاورامدادی رقوم کی تقسیم اور بحالی کا سارا کام اسی کے تحت ہو ۔اوریہ قانونی پابندی بھی عائد کی جائے کہ اس رقم کو کسی اور مدمیں منتقل نہیں کیاجاسکے گا ۔جوصوبائی حکومتیں خاصی اعانتی رقوم دیں ، ان کا نمائندہ بھی مبصر کے طورپر شامل کیاجاسکتا ہے ۔واضح رہے کہ آزادکشمیر ہزارہ کے متاثرین زلزلہ کے لئے جو اتھارٹی بنائی گئی تھی ،اس کے اکاؤنٹ میں جمع شدہ پوری کی پوری رقوم اُن علاقوں پر شفّاف طریقے سے خرچ نہ ہوسکی۔یہ بہترین موقع ہے کہ سابق کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ منسوخ کرکے موقع پر ہی نئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کئے جائیں، اس طرح پورے علاقے کا ایک مکمل ڈیٹا یعنی پورے اَعدادوشمار بھی مُرتب کئے جاسکیںگے اور آئندہ اُن کی بحالی وترقی کی منصوبہ بندی میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے مستقل بنیاد فراہم ہوجائے گی ،نیز اس کے ذریعے غیر قانونی لوگوں کو چھان بین کرکے الگ بھی کیاجاسکے گا ۔
حال ہی میں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤکا انٹر ویونظر سے گزرا ۔اُنہوں نے یہ معقول اور مثبت تجویز پیش کی ہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام آزاد قبائل فاٹا کے لوگوں کوآزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے آپشن دیاجائے کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل ہونا چاہتے ہیں یاالگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں یا بدستور وفاق کے زیرِ انتظام رہنا چاہتے ہیں۔فاٹا کو جتنی جلد ممکن ہو باقاعدہ نظم میں لاکر ان کا انتظام وانصرام ان کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں دیاجائے اورجیساکہ جنرل راحیل شریف نے کہاہے کہ وہاں باقاعدہ چھاؤنی بناکر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر بنایاجائے گا اورایک بریگیڈ فوج وہاں تعینات کی جائے گی ، تواس کے ساتھ ساتھ پورا حکومتی نظم بھی قائم کیاجائے ۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ قبائل کے منتخب نمائندے خود اسلام آباد میں آئی ڈی پیز بن کر قیام پذیر ہیں،تووہ بے چارے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کیاکریں گے ۔
سینٹ میں فاٹا کی نمائندگی کا تناسب بھی عجیب ہے، 12اراکین قومی اسمبلی ہیں اور8اراکین سینٹ ہیں ۔ڈیڑھ ایم این اے کے ووٹ ایک سینیٹر کو چاہئیں اور بعض اوقات ایک ایم این اے ایک سینیٹر منتخب کرسکتاہے ،یہ بدعنوانی کا ایک واضح اشتہار نہیں تو اورکیاہے ۔پھر قومی اسمبلی اورسینٹ کے ان ارکان کو خواستہ وناخواستہ وفاق میں برسراقتدار جماعت کا ہمنوا بن کر رہنا پڑتاہے ،کیونکہ اس کے بغیر انہیں مراعات نہیں مل سکتیں اور نہ ہی اپنے حصے کے ترقیاتی فنڈ مل سکتے ہیں،اس لیے انہیں شامل باجا بن کر رہنا پڑتاہے ۔پس وہ ملکی سیاست میں کوئی بھی تعمیری اور آزادانہ کردار ادانہیں کرسکتے۔
ہمارے نظام کے تضادات کی ایک اورنمایاں مثال آزاد کشمیر اسمبلی کی ساخت ہے ،چونکہ اس کا سرکاری نام ''آزاد جموں وکشمیر اسمبلی ‘‘ہے ، اس لئے یہ اسمبلی 40ارکان پر مشتمل ہے ،جن میں سے 28ارکان آزاد کشمیر سے منتخب ہوتے ہیں اور 12پاکستان بھر میں پھیلے مہاجرین جموں وکشمیر منتخب کرتے ہیں ، حالانکہ اب وہ مہاجر نہیں رہے ۔وہ جہاں بھی ہیں ،وہاں باقاعدہ مستقل حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔اب فرض کریں کہ آزاد کشمیر سے براہ راست کسی جماعت کے منتخب ارکان کی تعداد28میں سے 15یا16یا اس سے زائد ہے ،تو اسے حکومت بنانے اورچلانے کا حق ملنا چاہئے ۔لیکن ہوتایہ ہے کہ وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہو،مہاجرین کی بیش تر نشستیں اسی کے حصے میں آتی ہیں اورمقامی اکثریتی جماعت حکومت کے استحقاق سے محروم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کراچی یالاہور یا سیالکوٹ یا راولپنڈی سے ایک شخص وہاں جاکر وزیر بن جاتاہے ،نہ اس کا وہاں مستقل یا عارضی قیام ہے ،نہ مقامی لوگوں سے رشتے داریاں یا کاروبار ی معاملات ہیں ،تویہ ان کے مفادات کا تحفظ کیسے کرے گا اور اس کی ترجیحات کیاہوں گی۔اگر کوئی پروپیگنڈا یا مجلس مباحثہ برائے آزاد جموں وکشمیر بنانی ہے،تو وہ الگ سے بنائی جائے اور اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی پہلے سے موجود ہے ،اسے توسیع دی جاسکتی ہے۔مگر غیر حقیقت پسندانہ نظام بنانے کا کیافائدہ ؟۔مجھے قطعی معلومات تو نہیں ہیں ،لیکن سنا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر اسمبلی میںبھی آزاد کشمیر کے نام پر نشستیں محفوظ ہیں،لیکن وہ خالی رکھی جاتی ہیں ،ہماری طرح کا غیر حقیقت پسندانہ طریقہ ٔ کار بہرحال نہیں ۔واللہ اعلم بالصواب!
الغرض ہمیں بے ثمر اوربے مقصد تضادات سے نکل کر ایک بامقصد حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہئے ۔ابھی تو لگتاہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی ایک طویل اورخوفناک مسلکی آویزش خدانخواستہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے ۔یہ ایک ہمہ گیر عالمی سازش ہے،جو عالمِ اسلام کو مزید شکست وریخت سے دوچار کرسکتی ہے ،اس کا انجام انتہائی خوفناک لگتاہے ،ایسے میں ہمیں اجتماعی دانش اور بصیرت کو بروئے کار لانے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ۔لیکن ایسالگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بحیثیتِ مجموعی دوربینی ودور اندیشی کی صلاحیت سے عاری ہے اور کچھ بہت عجلت میں ہیں اور آنِ واحد میں ایوانِ اقتدار میں داخل ہونا چاہتے ہیں ،بلکہ اب تو لگتاہے کہ اُن کی بلا سے تاجِ اقتدار بُوم کے سر سجے یا ہُما کے ،بس شریف برادران کو محرومِ اقتدار کردیاجائے،مگر اس عجلت پسندی کی قیمت ملک کو کیا چکانی پڑے گی،اللہ تعالیٰ توفیق دے ،تو ذرا سوچ لیں ۔ 
نوٹ:گزشتہ سے پیوستہ کالم کا عنوان 'لارَجُل‘ تھا جو کمپوزنگ کی غلطی سے 'طلا رجل‘ لکھا گیا۔ قارئین تصحیح فرما لیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved