تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-07-2014

یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات اور پاکستان

اس سال 22 سے25 مئی تک جاری رہنے والے یورپی یونین کے انتخابات کے مکمل نتائج 26 مئی کوسامنے آ چکے ہیں جن میں365 ملین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے761 ممبران کو منتخب کیا۔ ان انتخابات میں یورپی یونین میں شامل 28 ممالک کے ووٹروںکو حصہ لینے کی اجا زت تھی۔ ڈالے گئے ووٹوں کا تنا سب کل ووٹوںکا43.9 فیصد رہا ۔ یورپی یونین کی تاریخ کا یہ الیکشن اس لحاظ سے بھی اہم ترین ہے کہ2007ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت یونین کا یہ پہلا انتخاب ہے۔ ان انتخابات کی اہم ترین اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کے تحت قائم ہونے والی یہ پارلیمنٹ یورپین کمیشن کی طرز پریورپی یونین اور یورپی زون کے معاملات کی دیکھ بھال بھی کرے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی منتخب پارلیمنٹ تاریخ میں پہلی دفعہ یورپی زون کے صدرکا انتخاب بھی کرے گی۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کس قدر اہمیت اختیار کر جائے گی۔ ان انتخابات کے عمومی نتائج پر غورکیا جائے تو برطانیہ اور فرانس سے قوم پرستوںکے ساتھ ساتھ Euroskeptic جما عتیں آگے آنے میں کامیاب ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ زیا دہ تریورپی ممالک سے دائیں بازوکے بنیاد پرست اور بائیں بازو کی انتہاپسند اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعتیںکامیاب ہو ئی ہیںاوران نتائج کو سامنے رکھیں تواب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ دائیں بازو کے بنیاد پرست اور بائیں بازو کے انتہا پسند ہی اس751رکنی ایوان میں فیصلہ کن کردار کرتے ہوئے غالب رہیں گے۔ 
کسی بھی ملک یا ادارے میں ہونے والے انتخابات میںکوئی ایک نقطہ انتخاب کا مرکزی حصہ بن کر رہ جاتا ہے، بالکل اسی طرح دنیاکی مہذب اورسب سے زیا دہ تعلیم یافتہ کہلانے والی ان اقوام کے سامنے یورپی زون کی اکانومی مرکزی نقطہ نگاہ بنی رہی اور ان انتخابات میں حصہ لینے والے ووٹروںکی غالب اکثریت کی دلچسپی صرف اسی ایک محورکے گرد گھومتی رہی اوراس اکانومی کے دائرے میں ووٹروں کے گرنے ابھرنے کی نوبت ایک ہی تان پرآ کر ٹوٹتی رہی کہ'' اپنے شہریوں کی بے روزگاری کو ختم کرنے کے لئے اب کچھ سخت اقدامات کرنے ہوںگے‘‘۔ ان انتخابات کے جماعتی بنیاد پر مکمل نتائج سامنے رکھیں تو دائیں بازو کی بنیادپرست یورپین پیپلز پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کئے ہوئے ہے اور اس کی قیادت Jean-Claud Juncker کر رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر جمہوری سوشلسٹ اور ترقی پسندوں کے اتحاد پر قائم ہونے والا الائنس ایس اینڈ ڈی ہے جس نے189 نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے جس کی قیادت جرمنی سے تعلق رکھنے والے اور یورپی یونین پارلیمنٹ کے سبکدوش ہونے والے صدر مارٹن شلزکر رہے ہیں اور انہیں الائنس آف لبرل اینڈ ڈیموکریٹس فار یورپی یونین کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جو سوچ اکثریت کی صورت میں ابھرکرکامیابی کی طرف بڑھی وہ بھی انتہائی توجہ طلب ہے۔ فرانس میں وہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں جو غیر ملکیوں کے فرانس میں داخلے کو کراہت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فرانس کا کامیاب ہونے والا یہ نیشنل فرنٹ گلوبلائزیشن کے تصورکا ہی سخت ترین مخالف ہے۔ برطانیہ میں ''یوکے انڈیپنڈنٹ‘‘ کے نام سے قائم ہونے والی پارٹی نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کو شکست دے دی ہے۔ اگر جرمنی کی طرف دیکھیں تو وہاں پر جرمن چانسلر انجیلا مارکل کا کنزرویٹو بلاک سب سے آگے ہے،اٹلی میں وزیر اعظم میٹو رینزی، بلجیئم میں فلیمش نیشنلسٹ، ڈنمارک میں امیگریشن دینے کی کٹر مخالف جماعت ڈینش پیپلز پارٹی،ہالینڈ میں ڈچ فریڈم پارٹی اور یونان میں بائیں بازوکا انتہا پسند گروپ ''Anti-austerity Syriza Movement'' نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈینش میں تو ٹی وی چینلز پر صبح شام عوام کو یہی بتایا جا رہاہے کہ یورپ کی زندگی اور برتری کا انحصار یورپی پارلیمنٹ کی طاقت میں ہی منحصر ہے۔
ان28 یورپی یونین ممالک کے انتخابی نتائج کے تناظر میں سامنے آنے والے ممکنہ اقدامات کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ خدشہ ابھر رہا ہے کہ اس سے پاکستان کے یورپی یونین سے وابستہ مفادات پر براہ راست اثر پڑنے کا امکان ہے، جس میں ''GSP+Scheme'' سر فہرست نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، ہیومن رائٹس اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پاکستان کو سخت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ میں اپنے مفروضات پر مبنی متوقع خدشات کی ناکامی کی دعا مانگتا ہوں، لیکن جنوبی یورپ کے ممالک پرتگال،اٹلی،فرانس، یونان اور سپین کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے دن بدن بڑھتے ہوئے دبائو کو دیکھتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کہ پاکستان کے لئے منظور شدہ جی ایس پی پلس سٹیٹس کو کہیں معطل نہ کر دیا جائے۔
اس نئی یورپی پارلیمنٹ کی اکثریتی جماعتوں اور ان کے منتخب اراکین کے تیور بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف بنیادی حقوق،اقلیتوں،لاپتہ افراد،خواتین کے حقوق، چائلڈ لیبر، بلوچستان ، فاٹا کی صورت حال اور ''Blasphemy Laws'' کے نام پر شکنجہ کسنے کی تیاریاں کی جانے والی ہیں۔اس کے علا وہ یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے سٹریٹیجک ڈائیلاگ میں جو سب سے زیادہ اور اہم ترین ایجنڈہ پاکستان کے سامنے رکھا جائے گا، اس میں افغانستان اور بھارت کے ساتھ پاکستان کا رویہ بنیادی اہمیت کا حامل رہے گا۔
عنقریب پیش آنے والے ان مسائل سے نمٹنے کے لئے حکومت کوابھی سے ان کا سد باب کرنا ہوگا اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے نو منتخب ارکان سے ہمارے سفارتی، سیاسی،تجارتی اور مذہبی افرادکو ڈائیلاگ کرتے ہوئے انہیں اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے بتانا ہوگا کہ پاکستان کا جو تاثر قائم کیا جا رہا ہے درست نہیں ہے اور اس سلسلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور فارن مشنوںکوان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یورپی معاشرے کے با اثراداروں تک رسائی دلواتے ہوئے ان کی مدد کر نی ہوگی، ساتھ ہی ملک کی لبرل قوتوںکو آگے بڑھانا ہو گا تاکہ پاکستان کے سافٹ امیج کو سامنے لایا جا سکے۔سب کو اپنی اپنی جگہ پر من حیث القوم ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور تمام اقلیتوں کو عزت و احترام اور برابر کے شہریوں کی حیثیت سے جینے کا حق دینا ہوگا۔ وہ منتخب ارکان پارلیمنٹ جو پاکستان مخالف کسی پراپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہیں، ان سے ہمارے سفارتی اور مذہبی افرادکو قریبی رابطہ رکھتے ہوئے امریکہ اوریورپ سمیت اقوام عالم کو باورکرانا ہو گا کہ پاکستان آج جن حالات کا شکار ہے یہ اس کی اپنی نہیں بلکہ اقوام عالم کی مدد کرنے کی وجہ سے ہے۔ یورپی ممالک کے طلباء ، مذہبی گروپوں، سکالروں اور کاروباری افراد، خواتین کی تنظیموں اور ہیومن رائٹس کے بین الاقوامی اداروںکو بتانا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اقوام عالم کا ہراول دستہ بننے کے جرم میں ساٹھ ہزارکے قریب قیمتی جانوں اور زبوں حال معیشت کا شکار ہو چکا ہے۔
ان ممکنہ حالات میںہمارے سفارتی مراکز کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، اگر وہ صحیح معنوں میں اپنے ذاتی مفادات کو ترک کرتے ہوئے ملک کو مستقبل میں پیش آنے والے تکلیف دہ اثرات سے چھٹکارا دلانے کے لئے ابھی سے کمرکس لیں تو نتائج بہت ہی بہتر نکل سکتے ہیں، لیکن اس کیلئے ہم سب کا ' سچا پاکستانی‘ بننا اولین شرط ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کے وقار کو اولیت دینی ہو گی کیونکہ آج کا کوئی بھی معاشرہ تنگ دلی کو قبول نہیں کرتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved