پاکستان میں توانائی کی کمی کیوں پیدا ہوئی۔ سابق حکومتوں نے کیا غلطیاں کیں۔ موجودہ حکومت جو کچھ کررہی ہے ، درست ہے یا نہیں۔ ان پہلوئوں پر تو بات ہوتی رہتی ہے ۔اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لوگ اب بور ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ عوام کو معلوم ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہونے والا نہیں ہے تو پھر لاحاصل بحث سننے میں کیوں وقت ضائع کیاجائے۔ اس پس منظر میں مجھے روزنامہ 'دنیا ‘کے ایک قاری کی ایمسٹرڈیم سے ای میل موصول ہوئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے اس پہلو پر کیوں سوچا نہیں جارہا کہ ملک میں بجلی کی راشننگ کا نظام اسی طرح نافذ کردیاجائے جس طرح جنگ کے زمانے میں اشیائے خورو نوش کی راشننگ کی جاتی ہے۔ ایم شفیق صاحب نے تجویز کیا ہے کہ ہسپتالوں اور بڑی عمارتوں کے سوا ہر جگہ ایئرکنڈیشنر ز کی جگہ ڈیزرٹ کولرز استعمال کیے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ہماری صنعتوں کو بھی فائدہ ہوگا اور ملکی پیداوار تیزی سے بڑھ سکے گی۔شفیق صاحب نے اپنی ای میل میں خود بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ کوئی حتمی تجویز نہیں لیکن موصوف نے جو بات زور دے کر کہی وہ یہ ہے کہ اس پہلو پرکوئی ہنگامی پلان کیو ں نہیں بنایا جاتا کہ بجلی کا استعمال کم ہوسکے اور جہاں بجلی کی اشد ضرورت ہے وہاں زیادہ سے زیادہ بجلی دی جاسکے۔
یہ بات تو ماہرین کے سوچنے کی ہے کہ بجلی کی راشننگ اگر ممکن ہے تو کس طرح ؟اوریہ کہ کس طرح ایئرکنڈیشنراستعمال کرنے والوں کو اس بات پر آمادہ کیاجاسکتا ہے وہ ڈیزرٹ کولر استعمال کرنا شروع کردیں لیکن شفیق صاحب نے جس مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا ہے وہ غالباً اس وجہ سے ہے کہ وہ یورپ میں رہتے ہیں۔مجھے یقین کامل ہے کہ اگر یہی شفیق صاحب یہاں ہمارے درمیان رہ رہے ہوتے تو ان کی سوچ بھی ویسی ہی ہوتی جس کا ہمارے ہاں دن رات اظہار ہوتا ہے۔ یعنی تنقید کرنا ، نقائص بیان کرنا، مذمت کرنا اور آخر میں ناامیدی کا اظہار کرتے کرتے رہ جانا اور قدرت سے کسی معجزے کاطالب رہنا۔
میں چونکہ خود بھی مغربی دنیا میں کئی برس قیام پذیر رہا ہوں اس لیے میں نے خود محسوس کیا ہے کہ مغرب کے طرز معاشرت میں منفی سوچ کم کم دیکھنے میں آتی ہے ۔سکولوں میں بچوں کو جس انداز سے تعلیم دی جاتی ہے اس میں مثبت سوچ رکھنے پر توجہ ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی برائی کرنے یا نقص بیان کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اسی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کے معاشرے میں منافقت بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اکثر جو شخص جو کچھ کہتا ہے اس کا مطلب بھی وہی ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ '' سیب کھا رہا ہو اور فون کے دوسری طرف شخص کو بتائے کہ وہ کیلا کھا رہا ہے‘‘
اسی ماحول میں جب پاکستانی ،مغرب کے کسی ملک میں جاکر آباد ہوتے ہیں تو ان کو شروع میں بہت مشکلات یوں پیش آتی ہیں کہ ان کی کہی ہوئی ہر بات کو ہر کوئی سچ سمجھتا ہے جبکہ اکثر اوقات وہ سچ نہیں ہوتی بلکہ برسبیل تذکرہ یونہی کہہ دی جاتی ہے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لہٰذا ایسی عادتیں ہمارے پاکستانی بھائیوں کو چھوڑنی پڑ جاتی ہیں اور پھر جب مغربی معاشرے کے حساب سے وہ اپنی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں تو ان کے سوچنے کا انداز آہستہ آہستہ منفی سے مثبت ہوتا جاتا ہے۔ میرے اس استدلال کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ محترم شفیق صاحب بھی ان مراحل سے گزرے ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں سب لوگ ہی منفی سوچ والے نہیں ہیں۔ میں اکثریت کی بات کررہا ہوں اور جس درد مندی سے شفیق صاحب نے تجاویز دی ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ شروع ہی سے مثبت سوچ رکھنے والے شخص ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی بہت کمی ہے۔
کسی شعبے میں دیکھ لیں آپ کو یہی آواز سنائی دے گی کہ سازشیں ہورہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے ملک کے وزیراعظم نے کہا کہ '' ہماری ٹانگیں نہ کھینچی جائیں‘‘ یہ ٹانگیں کھینچے جانے کا احساس کہاں نہیں ہے۔ کیا ہمارے سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں ، دفاتر، مدرسوں میں یہ ماحول موجود نہیں ہے۔ سرکاری دفاتر میں ہمارے ہاں یاغیبت ہوتی ہے اور یا پھر سرکاری وسائل پر اپنے ذاتی کام کیے جاتے ہیں۔ اس معاشرتی انحطاط کی وجوہ کا کھوج لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان سے پہلے ہماری معاشرت نسبتاً کافی بہتر تھی۔ مجھے اس کی بڑی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس دور میں ہمارے ہاں تعلیمی نظام آج کے تعلیمی نظام سے بدرجہا بہتر تھا اور اس دور میں پرائمری سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ طالب علموں کی تربیت پر بھی دھیان دیتے تھے۔گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے ہاں تعلیمی نظام مسلسل زوال پذیر ہے۔ ابتدائی تعلیم جس کے دوران بچوں کی شخصیت کے خدوخال بنتے ہیں وہ اول تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس قدر ناقص ہے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے والے لوگ وہی ہیں جن کو ہر دم آپ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں اور جن کی کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں ہے۔
سیاسی میدان میں بلاشبہ مغربی دنیا اپنے علاوہ باقی سب ملکوں کے استحصال پر مائل رہتی ہے۔ مسلمان ملکوں کو شکایات اور بھی زیادہ ہیں مگر جہاں تک تعلیم و تربیت کے طریقوں کا تعلق ہے اورجہاں تک تعلیم کی اہمیت کی بات تو ہم کو مغربی دنیا کے تعلیم و تربیت کے نظام سے سیکھنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں جو نام نہاد انگلش میڈیم سکول ہیں ان میں معیار تعلیم بھی محل نظر ہے کیونکہ ان سکولوں سے فارغ التحصیل بچوں کی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ نوجوان انگریزی تو بول لیتے ہیں مگر مزاج وہی رہتا ہے جو ہمارے ہاں اکثریت کا ہے۔ یعنی بلاوجہ جھوٹ بولنا، ایک دوسرے کی برائی کرتے رہنا اور ہر بات کا منفی پہلو ہی تلاش کرنا۔ ہمارا مذہبی طبقہ قوم کی اخلاقی تربیت کرنے میں کلی طور پر ناکام رہا ہے۔ ہمارے ہاں مذہب کا نام لیا جاتا ہے لیکن مذہب جن باتوں کی تلقین کرتا ہے ان پر عمل دیکھنے میں نہیں آتا۔
مغربی ملک پاکستان میں تعلیم کی ترویج کے لیے ہماری حکومت بھاری رقوم کو دیتے ہیں لیکن اس سرمائے کا آج تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکا۔ مغربی ملک ہمارے سلیبس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ہمارے ارباب حل و عقد یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان مغربی ملکوں کو بیوقوف بنایا جائے ۔ بھلے یہ کامیابی سے مغربی حکومتوں کو بیوقوف بنالیں لیکن نقصان تو ہمارا ہی ہورہا ہے۔
ایک اور غلط فہمی جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ تربیت تو ماں باپ کرتے ہیں۔ کسی حد تک تربیت تو یقینا ماں باپ ہی کرتے ہیں مگر بچوں کی شخصیت کی معاشرتی ساخت پرائمری سکول میں تربیت پاتی ہے۔ گھروں میں لاڈ پیار زیادہ ہوتا ہے جبکہ معاشرے میں بچے کی سوچ کیا ہوگی اس کا فیصلہ ابتدائی تعلیم و تربیت کے دوران ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حکومتیں ہمارے ہاں آج تک کچھ نہیں کرپائیں۔ وہ جی ڈی پی کا چار فیصد یا اس سے بھی زیادہ تعلیم پر لگادیں کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ پہلے مسئلے کی نوعیت کا اندازہ کیاجائے ۔ اس کو حل کرنے کے لیے سوچا جائے کہ کس طرح پرائمری تعلیم کے دوران ہم بچوں میں مثبت سوچ اجاگر کرسکتے ہیں۔ مغربی نظام تعلیم کا مطالعہ کیاجائے اس مطالعے کی روشنی میں اپنا ایک نیا نظام بناکر اساتذہ کی تربیت کی جائے اور پھر اس کو مرحلہ وار نافذ کیاجائے ۔ جب تک ایسا تعلیمی نظام نافذ نہیں ہوگا، تب تک اپنے معاشرے میں ایسے لوگ نہ دیکھ پائیں گے جو محترم شفیق صاحب کی طرح سوچتے ہوں اور مسائل کا محض منفی انداز میں ذکر کرنے کی بجائے ان کے حل کی بات کرتے ہوں۔