جواہلِ ایمان اﷲتعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے باقاعدگی کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھ رہے ہیں، اُسے محض ضابطہ کی کارروائی نہیں سمجھتے اور اس کے بے پایاں اجر اور اﷲتعالیٰ کی بارگا ہ میں اس کے خصوصی مقام سے آگاہ ہیں، تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے روزوں کی حفاظت کی فکرکریں ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:''روزہ(نارِ جہنم سے بچاؤ کے لئے ) ڈھال ہے (اور یہ ڈھال سلامت رہتی ہے)، تاوقتیکہ یہ پھٹ جائے یا اس میں شگاف ڈال دیا جائے‘‘(سنن دارمی :1738)۔ڈھال کو آج کل دفاعی شیلڈ کہا جاتاہے، جو اکثر آپ نے احتجاجی مظاہرہ کرنے والے مشتعل عوام کا سامنا کرتے ہوئے پولیس کے ہاتھ میں دیکھی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک اور طویل حدیث میں فرمایا:''روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو، تو نہ بیہودہ بات کرے اور نہ چیخے اور چلائے ، سو اگر کوئی (زبر دستی) اس سے گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے پہ اتر آئے، تو(عاجزی سے کہہ دے مجھے معاف کرو) میں روزے سے ہوں‘‘(مسلم:2704)۔شارحِ مشکوٰۃ المصابیح علامہ شرف الدین الحسین الطیبی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا: ''روزے دار جب حصولِ ثواب کا طلب گار نہ ہو اور جھوٹ، بہتا ن اور غیبت جیسے محرمات میں مبتلاہو، تو اسے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر چہ( ضابطے کی حدتک فرض ساقط ہوجاتاہے اور)قضا لازم نہیں آتی اور یہی حکم غصب شدہ زمین میں بغیر عذر کے جماعت ترک کرکے نماز ادا کرنے کا ہے، کیونکہ اس سے قضا تو ساقط ہو جاتی ہے، لیکن اس پر کوئی ثواب مرتب نہیں ہوتا‘‘۔
اس حقیقت کو مزید وضاحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے احادیثِ مبارَکہ میں بیان فرمایا:(1):''جو شخص( روزے کی حالت میں)جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے ، تو اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ (روزے کے مقصد کو ترک کرکے محض) کھانا پینا چھوڑ دے‘‘(بخاری:6057)۔(2):''کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ ان کے روزوں سے انہیں پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو (تراویح میں) قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ جنہیں بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘(سنن ابن ماجہ:1690)۔
رسول اللہ ﷺ سے پوچھاگیاکہ سب سے بہترین شخص کون ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا:''جو صَدُوق اللسان (یعنی نہایت سچا) اور ''مَخموم ُالقلب ‘‘ہو۔ صحابہ نے عرض کی:صَدوق اللسان کے معنی تو ہمیں سمجھ میں آتے ہیں ،یہ ''مَخموم القلب‘‘ کون ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جس کا قلب (غیبت، بدخواہی اور ہر اخلاقی عیب سے)پاک وصاف ہو، اس میں گناہ کے اثرات نہ ہوں اور سرکشی ، کینہ اور حسد نہ ہو‘‘(ابن ماجہ:4216)۔
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ محض بھوک پیاس اور شب بیداری کی مشقت برداشت کرنے کانام نہیں ہے، بلکہ روزے کی معنویت اور حقیقت کو اپنے قلب وقالب ، بدن اور روح اور ظاہر وباطن پر طاری کرنے کا نام ہے۔ موجودہ حالات میں ہمارے ملک میں داخلی بدامنی اور فساد کی وجہ سے کئی لاکھ افراد بے گھر اور دربدر ہوچکے ہیں ۔ موسم کی شدت وحدت ان کے مصائب ومشکلات میں مزید اضافے کا سبب ہے اور ابھی کچھ اندازہ نہیں کہ وہ امن وعافیت اور سلامتی کی فضا میں کب تک اپنے گھروں کو لوٹ پائیں گے؟۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ کچھ وقت کے لئے ہم اپنے سیاسی مناقشات اور اختلافات کو بھلا دیتے اور سب مل کر ان مصیبت زَدگان کی مدد کرتے ، مگر بدقسمتی سے ہماری ترجیحات مختلف ہیں ۔ دنیا کے تمام مہذب اور متمدن ممالک میں ایسے ہنگامی حالات میں اختلافات بھلا دئیے جاتے ہیں، مشترکہ اور متفقہ حکمتِ عملی تیار کی جاتی ہے اور یکسو ہوکر ملک وقوم کو مشکلات سے نکالنے کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ۔
جس طرح پوری قوم کی عملی حمایت اور ہمدردی آزاد کشمیر کے زلزلے اور سوات مالاکنڈ کے داخلی فوجی آپریشن کے موقع پر دیکھنے میں آئی تھی کہ پوری قوم اور رفاہی ادارے مصیبت زَدگان کی مدد کے لئے یکسو ہوگئے تھے، نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت وہ فضا دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلح افواج اور وفاقی وصوبائی حکومتیں مشترکہ حکمتِ عملی بنائیں ، تمام سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں میدانِ عمل میں آئیں اور ملک وقوم کو ان مشکل حالات سے عہدہ برا ہونے کے قابل بنائیں۔ اُن مواقع پر جب قوم متحد ہوگئی تھی ، تو بیرونی دنیا نے بھی کھل کر مدد کی اور کسی طرح کی سراسیمگی اور انتشار کا ماحول پیدا نہیں ہوا۔ متاثرین کے بھی حوصلے بلند ہوئے کہ پوری قوم ان کی پشت پر ہے اور ہر پاکستانی ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ رہا ہے اور ان کی تکالیف کی کسک اور چوٹ اپنے دل پر محسوس کررہا ہے۔ یہی تو وقت ہوتاہے کہ بدگمانی کو باہمی اعتماد میں ، نفرت کو محبت میں، دوری کو قُربت میں اور بیگانگی کو یگانگت میں بدلا جاسکتا ہے، یعنی قلبِ ماہیت ممکن ہے۔
ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی چاہیے کہ اپنے پولیٹکل ٹاک شوز اور دیگر پروگراموں کا رخ اس طرف موڑیں اور ترجیحات کا تعین بہتر انداز میں کریں تاکہ متاثرین کو معلوم ہوکہ سیاسی ، معاشی اور سماجی تجزیہ کار اور اینکر پرسن اسٹوڈیو ز میں بیٹھ کر صرف ملٹری آپریشن ہی کی رَٹ نہیں لگاتے، بلکہ متاثرین کے دکھ درد کو بھی مثبت انداز میں نمایاں کرتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ۔ہم بحیثیتِ قوم اچانک نہیں بدل سکتے، اگرچہ اﷲتعالیٰ کی قدرت سے یہ بعیدنہیں ہے، لیکن عام سنتِّ الٰہیہ یہی ہے ، جسے مولانا حالی نے بیان کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال ، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
وزیرستان کے مسئلے میں مشکل یہ ہے کہ آزاد کشمیر وہزارہ اور مردان ونواحی علاقوں کی طرح عام اہلِ خیر براہِ راست متاثرین تک نہیں پہنچ پارہے، ایک تو لوگوں کے دلوں میں انجانا سا خوف بھی ہے اور دوسرا معاملے کی حساسیت بھی ہے، ایسی صورتِ حال میں جب میڈیا بدنظمی اور انتشار کو زیادہ نمایاں کرتاہے تو تعاون کے لئے بڑھتے ہوئے ہاتھ بھی رک جاتے ہیں کہ ہماری امدادی رقوم اور سامان کسی اندھے کنوئیں کی نظر تو نہیں ہوجائیں گے ۔ پس جہاں خرابیوں کی نشاندہی اَز حد ضروری ہے ، وہاں بعض اوقات کمزوریوں کی پردہ پوشی بھی حکمت کا تقاضا ہوتی ہے۔ اسی لیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا: ''جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا،اﷲتعالیٰ قیامت میں اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گااور جو کسی کی پردہ دری کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے گھر میں رسوا کردے گا‘‘۔سو کبھی کبھی بندے کو اللہ تعالیٰ کی'' شانِ ستّاری‘‘کا بھی مظہر بننا چاہئے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور نیکی اور تقوے کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ اور ظلم وعُدوان کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو‘‘(المائدہ:2)۔