وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک نے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکی جانب سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بتایاکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے صاحبزادے ارسلان افتخارکو ریکو ڈک کے معاملات سنبھالنے کے لئے بورڈ آف انویسٹمنٹ بلوچستان کا وائس چیئر مین انہوں نے خودمقررکیاہے، اس میں کسی کے دبائوکی بات بالکل غلط ہے، یہ تقرری مکمل طور پر میری پسند اور آئین کی رُو سے مجھے حاصل صوابدیدی اختیار پر مبنی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مجھے اسلام آباد یا امریکی سفارت خانے سے کوئی خصوصی حکم جاری کیا گیا تھا تو یہ بات قطعی غلط ہے۔ وہ بات جو ڈاکٹر مالک گول کر گئے وہ ''روزنامہ دنیا‘‘ نے30 جون کی اپنی اشاعت میں سب کے سامنے رکھ دی ہے اور یہی خبریہ کالم لکھنے کا باعث ہے۔ روزنامہ دنیا کے صفحہ آخرکی اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ ''ارسلان افتخار چودھری کو بلوچستان کے سونے کی رکھوالی بھی سونپ دی گئی ہے اور یہ وہی سونے کی کانیں ہیں جن کے مختلف کمپنیوں کو دیئے جانے والے حکومتی کنٹریکٹ افتخار محمد چودھری نے بحیثیت چیف جسٹس سو موٹو لیتے ہوئے منسوخ کر دیئے تھے اور ارسلان افتخار کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ وہ اس سونے کی تلاش کو مکمل کرنے کے لئے'بیرونی سرمایہ کار‘ تلاش کرے‘‘۔
نوکنڈی کے شمال مغرب میں واقع ریکو ڈک ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے اور یہ ایران اور افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے۔ ریکوڈک کے مقام پرجسے Sandy Peak بھی کہاجاتا ہے، ایک عالمی رپورٹ کے مطا بق دنیا کا پانچوں بڑا سونے کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ چند سال قبل ایک بین الاقوامی رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا تھا کہ سینڈک کے مقابلہ میںکہیں زیا دہ سونا اور قیمتی کاپر ریکو ڈک میں موجود ہے جن کی مالیت بین الاقوامی مارکیٹ میں 130 بلین ڈالر سے کہیں زیا دہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ریکوڈک سے سالانہ چھ لاکھ ٹن کاپر اورپچیس ہزاراونس سونا56 سال تک متواتر نکالا جا سکتا ہے۔ ارسلان افتخارکی تقرری مائننگ سے متعلق بہت سے ملٹی نیشنل کمپنیوں میں انتہائی دلچسپی سے زیر بحث ہے۔ ڈاکٹر مالک جوچاہیں کہیں لیکن کوئی اسے سچ ماننے کو تیار نہیں ہو رہا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ تقرری اسلام آباد کے دو مختلف حلقوں کی خواہش اور ہدایت پر جا ری کی گئی ہے اور اس ضمن میں کوئی معیار اور ضابطہ پیش نظر نہیں رکھاگیا۔
اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں گردش کرنے والی اس خبر پر ابھی کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا جس میں کہا جا رہا ہے کہ سابق چیف جسٹس کے امریکہ کے حالیہ طویل دورے اور وہاں پر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بہت سے تھنک ٹینکس سے طویل ملاقاتوں کے بعد ارسلان افتخارکی یہ تقرری عمل میں لائی گئی ہے اوراس کا اصل اوربنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ چین کومشرف دور میںکئے گئے معاہدوںکی رُو سے گزشتہ دس برسوں میں بلوچستان میں معدنیات کی تلاش میں جو بہت سی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے،ان تمام منصوبوں سے دور رکھاجائے۔ عمران خان نے بہاولپورکے جلسہ عام میں سابق چیف جسٹس پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چیف صاحب ! آپ بیٹے کو وائس چیئر مین مقررکراکے بہت سستے بکے ہیں۔ عمران خان کوکون سمجھائے کہ جناب آپ کو دی گئی اطلاع غلط ہے۔ ریکوڈک اور دوسری معدنیات جن کا انہیں نگران اور مختارکل بنایا گیا ہے وہ سستا نہیں بلکہ پاکستان پر واجب الادا تمام قرضوں اوراس کے چارسالانہ بجٹ کی مجموعی رقم سے بھی زیا دہ ہے۔
ریکو ڈک کی تلاش کا آغاز پاکستان کی کسی سیا سی پارٹی نے نہیں بلکہ 1993ء میں اس وقت کے صدرغلام اسحٰق خان اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مشترکہ استعفوں کے بعد امریکہ سے وارد ہونے والے نگران وزیر اعظم معین قریشی کی ہدایت پراس وقت بلوچستان کی نگران صوبائی حکومت نے کیا تھا۔ ریکوڈک میں موجود سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کرنے کے لیے 29 جولائی1993ء کو بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی بی ایچ پی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق ریکوڈک پروجیکٹ کی آمدنی کے25فیصد کا حکومت بلوچستان اور75فیصد کابی ایچ پی کو حق دار بنایا گیا۔کچھ لوگ آج اعتراض کر رہے ہیں کہ اس وقت منافع کی یہ شرح جان بوجھ کر کم رکھی گئی تھی،اس پرکوئی رائے دینے سے پہلے 1999ء میں دنیا بھر میں مائننگ کے عالمی ریٹس پر نظر ڈالیں توآمدنی میں حصے کی شرح ترقی یافتہ ممالک میں33فیصد،مشرقی ایشیاء میں32 فیصد ، لاطینی امریکہ27 ،مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ26، مشرقی یورپ اور سینٹرل ایشیاء میں10فیصد اوردوسرے ملکوں میں28فیصد ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے پاکستان میں یہ شرح اس وقت بہت ہی مناسب تھی جس کا موازنہ ''Profit sharing between Government and Multinationals in Natural Resources Extraction: سے کیا جا سکتاہے۔
بلوچستان کی نگران صوبائی حکومت کے بعد اکتوبر1993ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی نئی سیا سی حکومت جب قائم ہوئی تو اس نے ریکو ڈک کے اس منصوبے میں عدم دلچسپی شروع کردی۔اس کا کہنا یہ تھا کہ صوبائی حکومت کے پاس تو اس منصوبے کے لئے فنڈز ہی نہیں ہیں۔ خیال کیا جارہا تھا کہ اس پروجیکٹ پرکام بند ہو جائے گا لیکن آسٹریلین کمپنی کے ساتھ نگران حکومت کے کئے گئے معاہدے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس اگر فنڈز نہیں ہو ں گے تو آسٹریلین کمپنی یہ اخراجات خود برداشت کرے گی، لیکن اس کے عوض آسٹریلین کمپنی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ حکومت بلوچستان سے یہ رقم مع سود لندن کے انٹر بینک ریٹس پر وصول کرنے کی مجازہوگی۔ 1993ء میں بلوچستان مائننگ قوانین کے تحت کیے گئے اس معاہدے میں سونے اور تانبے کی تلاش کے لئے چاغی کا تقریباًََ ایک ہزارکلومیٹر علا قہ شامل کیا گیا تھا۔ فروری2005 ء میں اس معاہدے کی تجدیدکی گئی اور تین سال بعدفروری2008ء میں ایک بار پھر اس کی تجدید کی گئی جس کی میعاد19 فروری 2011ء کو ختم ہو گئی۔ لیکن کام کی رفتار ابھی تک وہیں ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک بار پھر اس کی تجدید ہوگی۔بی ایچ پی نے1994ء میں جب یہاں کام کا آغاز کیا تو اسے ایک ہزارکلومیٹر کا علاقہ دیاگیا لیکن ٹی سی سی کی انتظامیہ صرف435مربع کلو میٹر میں کام کرنے کے بعد وہاں کے وسیع ذخائر سے اپنے حواس کھو بیٹھی۔۔۔۔ اس کمپنی کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں 22بلین پائونڈ کاپر اور13ملین اونس خالص سونے کے پچاس سال تک کے ذخائر موجود ہیں۔ 29جولائی 1993ء کے معاہدے کے بعدکام کا آغاز کرتے ہوئے جیالوجیکل سروے اور ڈرلنگ پر آسٹریلین مائننگ کمپنی کے مطابق دوسال میں ان کے سات ملین ڈالر خرچ ہوئے، لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ1996ء میں اس پروجیکٹ پر گہری خاموشی چھا گئی جوچھ سال تک محیط رہی اور چھ سال بعد ایک بار پھر مارچ 2002 ء میں بی ایچ پی کو پراسپکٹنگ لائسنس دیا گیا جسے چاغی ہل ایکسپلو ریشن جوائنٹ وینچرکے تحت 'ریکو ڈک لائسنس‘‘کا نام دیا گیا، لیکن اس لائسنس کے اجراء کے وقت بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جگہ حکومت بلوچستان نے خودکو معاہدے میں آسٹریلین کمپنی کے ساتھ پارٹنر درج کرایا جس پر ان دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے۔
جب مالی معاملات تشویش کن صورت اختیارکرگئے توکچھ عرصہ بعد بی ایچ پی نے آسٹریلیاکی ہی ایک اور کمپنی کو اپنے ساتھ شامل کر لیا جس نے ریکو ڈک پروجیکٹ پر3.5ملین ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا اور NL نے ایک تیسری کمپنی''ٹیتھاں کاپر کمپنی ‘‘کو اپنا سب پارٹنر بنا لیا اور اپریل2002 ء میں ٹی سی سی اور بی ایچ پی میں اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو گئے۔ دوسرے لفظوں میں ریکو ڈک پروجیکٹ پر ابتدائی آسٹریلین کمپنی بی ایچ پی کا عمل دخل ختم ہو گیااورٹی سی سی چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ریکوڈک ایکسپلوریشن لائسنس کے75فیصد حصے کی مالک بن گئی۔ لیکن ٹی سی سی نے بھی وہی خرگوش والی رفتار اختیار کی جوبی ایچ پی آسٹریلیا نے 1994ء سے اختیار کئے رکھی تھی جبکہ2002 ء میں ٹی سی سی بلوچستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے ہونے والے معاہدے کی رو سے2006ء تک ہر قسم کی فزیبلٹی سٹڈی سمیت سونے اور کاپر کی پیداوار دینے کی پابند تھی لیکن وہ نا کام رہی ۔ (جاری)