تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-07-2014

بل گیٹس کی حسرت‘کاش! میں ارسلان ہوتا؟

8 فروری2013ء کو‘واشنگٹن کے ایک مقامی ٹی وی چینل پر دو پاکستانی صحافیوں کے درمیان ایک مکالمہ نشر کیا گیا۔ ان صحافیوں میں ایک آپ کا جانا بوجھا ''بلیک ڈاگ‘‘ تھا اور دوسرا ایک متروک سماجی فلسفے کا‘ دانشور۔واشنگٹن میں اس ٹی وی چینل پرمکالمہ کرنے والے دونوں افراد کے ٹاک شو کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسے ایک گھنٹے کے چینل محض مالکان کے متعلقین دیکھا کرتے ہیں۔ امریکہ میں مختلف کمیونٹیز کو خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مقامی ٹی وی چینلز‘ اپنی نشریات کا ایک گھنٹہ‘ چھوٹی کمیونٹیز کو‘ اپنے معاملات پیش کرنے کے لئے رعایتی نرخوں پر یا بطور عطیہ دیتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کے افراد ‘ ایک گھنٹے کی نشریات میںبیشتر اوقات‘ اپنا شوق ہی پورا کرتے ہیں۔ میاں بیوی دونوں اینکرپرسن بن جاتے ہیں۔ اپنے کسی عزیز کو کیمرے کے سامنے بٹھا لیتے ہیں یا پھر نمودونمائش کا کوئی بھوکا‘ پانچ سات سو ڈالر دے کر ''ٹی وی سٹار‘‘بننے کا شوق پورا کر لیتا ہے۔ایسے بیکار چینل پر‘ پاکستان کے دو معروف صحافیوں کی گفتگو‘ ٹیلی کاسٹ کرنے کی وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ اس انٹرویو میں پاکستان کا ایک بہت بڑا سکینڈل پیش کیا گیا۔ ملک کے اندر اس کی نشرواشاعت ممکن نہیں تھی۔ اس میں ''دلارے میاں‘‘ یعنی ارسلان افتخار کی بدمستیوں کی کہانی تھی کہ انہوں نے کس طرح مقدمات کی طولانی میں گھرے‘ پریشان حال کھرب پتی‘ بلڈر ملک ریاض کو بلیک میل کیا اور ان سے کروڑوں روپے اینٹھے؟ ان کے خرچ پر ہوائی جہاز کے اعلیٰ درجوں میں بیرونی سفر کئے۔ سیون سٹار ہوٹلوں میں قیام کیا۔ دنیا میں جوئے کے معروف اور مہنگے ترین مرکز‘ مونٹی کارلو میں داد عیش دی۔ جوئے سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ مہنگی ترین خریداریاں کیں۔ کروڑوں روپے نقد اینٹھے اور ملک صاحب کولارے دیتے رہے کہ وہ ان کے مقدمات کے فیصلے جلد کرا دیں گے۔ ملک صاحب کسی قسم کی رعایت نہیں مانگ رہے تھے۔ انہیں تکلیف تھی کہ ان کے مقدمات لٹکائے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے کروڑوں کا نقصان پہنچ رہا ہے۔''دلارے میاں‘‘ اس کمزوری سے واقف تھے اور اس کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے۔ یہ کہانی‘ جو میں نے اپنی یادداشت کے مطابق لکھی ہے‘ ہو سکتا ہے لفظ بہ لفظ درست نہ ہو۔ حقائق کم و بیش یہی ہیں۔
مقامی ٹی وی پرکی گئی یہ گفتگو‘ ایک بڑے قومی چینل کے اینکر نے‘ اپنے پروگرام میں پیش کرتے ہوئے‘ تبصرہ کیا۔ اس کے بعد ایک دوسرے اینکر نے‘ اپنے پروگرام میں اسی گفتگو کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس کے صاحبزادے کے حوالے سے ملک میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں‘ جو ''بلیک ڈاگ‘‘ اور اس کی ٹیم کا مقصد تھا اور پھر فوراً ہی‘ یہ دونوں اینکرز‘ چیف جسٹس کے صف اول کے حامیوں میں شامل ہو گئے۔ ایک برسرمنصب چیف جسٹس کے خاندان کا سکینڈل‘ میڈیا میں لانے کی اس سے بہتر ترکیب کیا ہو سکتی تھی؟ ملک ریاض کا قصہ درد‘ عوام کے نوٹس میں آ گیا۔ کیا یہ خدمت بلاومعاوضہ تھی؟ یا اس کا معاوضہ لیا گیا؟ لیا گیا‘ تو کتنا ہو گا؟ کروڑوں؟ یا اربوں؟ قیاس آرائی آپ خود کر سکتے ہیں۔ یہ پرانی کہانی‘ مجھے کیوں یاد آئی؟ سابق چیف جسٹس کے لائق و فائق فرزند کو‘ بلوچستان حکومت نے‘ صوبے کے سرمایہ کاری بورڈ کا وائس چیئرمین مقرر کیا ہے۔ اس منصب کے تحت اسے دنیا میں سونے کی پانچویں یا چھٹی بڑی کان کی رکھوالی سونپ دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تانبے کا جو ذخیرہ موجود ہے‘ وہ دنیا میں سب سے بڑا نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور ہے۔ ان دونوں دھاتوں کے ذخیروں کی مجموعی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ پدموں میں لگانا پڑے گی۔ اردو کی گنتی میں کھرب کے بعد‘ پدم آتا ہے۔ وہ کتنا ہوتا ہے؟ اس کا تصور کر کے‘ میرا تو سر چکرا جاتا ہے۔ انگریزی کا ٹریلین سمجھ لیں۔ پاکستان کے اس خزانے کی رکھوالی کے لئے‘ 20 کروڑ کی آبادی میں جو دیانتدارترین آدمی‘ ڈاکٹر مالک اور انہیں‘ بلوچستان کی بادشاہت دینے والوں کو نظر آیا‘ اس کا نام ارسلان افتخار ہے۔ یہاں پر مجھے ایک محاورہ یاد آ گیا ''خربوزوں کا رکھوالا گیدڑ۔‘‘ لیکن اس معاملے میںیہ محاورہ حقیر ہو کے رہ گیا ہے۔شاید کوئی نیا محاورہ تخلیق کرنا پڑے۔ جیسے ''ہیروں کا رکھوالا‘ ڈاکو۔‘‘ ہمارے ہاںایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ لوگوں نے وزارتیں‘ گورنریاں‘ سونے کے انڈے دینے والی کارپوریشنوں کی سربراہی‘ حتیٰ کہ وزارت عظمیٰ‘ دولت کے بل بوتے پر حاصل کی۔ لیکن جو خزانہ ارسلان کے ہاتھ لگا ہے‘ اگر وہ چاہے‘ توپاکستان کو خرید کر اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے۔ خریدے گا کس سے؟ کون ہے‘ جو بیچنے سے انکار کرے گا؟ اگر بیچا جا سکے تو۔ 
میں نے یہ پرانی کہانی کیوں دہرائی؟ وجہ یہ ہے کہ وہی ارسلان افتخار‘ جسے ''بلیک ڈاگ‘‘ نے ‘ بلیک میلر ثابت کرنے کے لئے پاپڑ بیلے‘ آج سونے کی کان کا مالک بنتے ہی اسے ''بلیک ڈاگ‘‘ کی خدمات حاصل ہو گئیں۔ اس بات کو چھوڑیئے کہ ایسی ہی خدمات پر‘ ملک ریاض کا کیا خرچ ہوا تھا؟ یہ فضول بات ہے۔ آج یعنی یکم جولائی کواسی بلیک میلر ‘ارسلان افتخار کی وکالت کرتے ہوئے ''بلیک ڈاگ‘‘ نے ایک تبصرہ شائع کیا ہے۔ ارسلان افتخار کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ اس کے والد کو اس تقرری کا‘ میڈیا کے ذریعے علم ہوا اور انہوں نے مکمل ذمہ داری کے ساتھ عوام کی خدمت کا مشورہ دیا۔ ارسلان افتخار نے ''بلیک ڈاگ‘‘ کو بتایا ''مجھے سیاستدانوں کی باتیں سن کر ہنسی آتی ہے۔‘‘سونے کے ڈھیر پر بیٹھ کر اسے پاکستان تو کیا؟ دنیا بھر کے سیاستدانوں پر ہنسی آئے گی اور اگر صدر اوباما کا فون بھی آیا‘ تو وہ سیکرٹری سے کہے گا ''اسے کہو! ابھی مجھے بات کرنے کی فرصت نہیں۔‘‘ آگے چل کر ارسلان نے بتایا کہ ''مجھے یہ عہدہ اس لئے نہیں ملا کہ انتخابات میں دھاندلی میں نوازشریف کی معاونت کرنے پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا احسان چکایا گیا۔ کسی نے میرے تقرر میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ میں بلوچی ہوں اور میری چوتھی نسل بھی اسی صوبے میں ہے‘‘ ۔ ''بلیک ڈاگ ‘‘ نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ'' ارسلان‘ بلوچستان میں لاکھوں ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری لایا ہے۔‘‘اس بات پر کہ ارسلان کے والد کو اس کی تقرری کا علم نہیں تھا‘ مجھے پھر ماضی کی طرف جانا پڑے گا۔اگر آپ کو یاد ہو‘ ریکوڈیک لائسنس کا معاملہ‘ سپریم کورٹ آف پاکستان میں عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش ہوا تھا۔ انہوں نے تمام متعلقہ فریقوں کو ایک ایک کر کے‘ ریکو ڈیک میں سونے کے ذخیروں سے باہر کر دیا اور جب تک عہدے پر برقرار رہے‘ ان کی مداخلت کے خوف 
سے کسی کو جرات ہی نہ ہوئی کہ جس چیف جسٹس آف پاکستان نے‘ اتنے گراں بہا خزانے کے سارے دعویداروں کو فارغ کر کے‘ اسے دوبارہ منڈی میں بھیجاہے‘ اس کے پیچھے ضرور کوئی حکمت ہو گی۔ حکمت تھی یا نہیں؟ اندازے درست نکلے۔ خزانہ بند پڑا رہا۔ اب ملک کا ماہر سرمایہ کار اور تاجر‘ جو چند سال پہلے ایف آئی اے میں جانے اور چھوٹی چھوٹی تقرریوں کے لئے‘ جتن کرتا پھر رہا تھا‘ ٹریلینز کے خزانے کا سودا کرے گا۔ بھاری دولت بلوچستان میں لائے گا۔ یہ اس نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ بلوچستان میںیہ اس کی چوتھی نسل ہے۔ وہ آئندہ بھی ہمیشہ بلوچستان میں رہے گا اور شاید وہاں دنیا کا سب سے بڑا محل بنا کر‘ اسی جگہ مونٹی کارلو کے درجے کا شہر بسائے گا۔ وہاں مونٹی کارلو سے اچھے قمار خانے بنائے گا۔ یہ شہر تعمیر کرنے کا ٹھیکہ کس کے پاس ہو گا؟ اندازہ کریں! کیا ملک ریاض کا چانس ہے؟مجھے لگتا ہے‘ آج سے چند برس بعد بل گیٹس حسرت سے کہے گا''کاش! میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کا بیٹا ہوتا۔‘‘ اگر آپ یادیں تازہ کرنا چاہتے ہیں‘ توانٹرنیٹ پر dailymotion.com نکال کر شاہین صہبائی ٹو ڈاکٹر منظور اعجاز‘ ٹائپ کرکے پورا انٹرویو دیکھ سکتے ہیں اور اگر ریکوڈیک کا خزانہ‘ ارسلان افتخار کی تحویل میں جانے کی کہانی میں دلچسپی ہے‘ تو ہمارے سینئر کالم نویس منیر احمد بلوچ کا‘ 2 جولائی کا کالم ملاحظہ فرمائیں‘ جس کی اگلی قسط آج 3جولائی کو شائع ہوئی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved