تحریکِ انصاف کا موقف بجا اور حکمتِ عملی ناقص ہے ۔ 14اگست کو اگر وہ ہار گئے تو شکست ایسی ہوگی کہ مدّتوں زخم چاٹتے رہیں گے۔ اگّے تیرے بھاگ لچھیے !باقی تیری قسمت، اے منہ زور حسینہ!
ابھی کچھ دیر پہلے ایک محترم نے عجیب سوال کیا۔ آدمی ایسا کہ جس پہ رشک آئے اور سوال ایسا کہ حیرت ہوتی رہے۔ پولیس ، انٹلی جنس ، سول سروس اور سیاست کا ایسا شناور کہ ہمیشہ حقیقت پسند۔ استفسار یہ کہ کیا عمران خان کی اس تحریک کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ بھی کارفرماہے ، جس کے بل پر وہ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے پر تلے ہیں ۔ 14اگست کا لانگ مارچ!
غیب کا حال تو اللہ جانتاہے ، عرض کیا: جہاں تک عسکری قیادت کو یہ ناچیز سمجھ سکتاہے ، ، اس کی اوّلین ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہے ۔ اس بھید کو اس نے پالیا ہے کہ جب تک قتل و غارت کا یہ کھیل ختم نہ ہوگا، ملک کو استحکام نصیب نہیں ہو سکتا۔ استحکام نہ ہو گا تو ظاہر ہے کہ معاشی نمو بھی ممکن نہیں اور سب جانتے ہیں کہ احتیاج کی موجودہ صورت حال کے ساتھ قوم آبرو مند نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں آزاد خارجہ پالیسی کا سوال ہی نہیں۔ دوسروں کو ادراک ہے تو فوجی قیادت کو بھی ہونا چاہیے کہ آزادی کے بغیر انسانی صلاحیت بکمال و تمام ظہور نہیں کرتی۔ کب تک عساکر کے سائے میں پروان چڑھنے والی، ذہنی طور پر مفلوج لیڈر شپ گوارا کی جائے گی۔ سیاسی پارٹیوں کواپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ انہی میں جمہوریت اور بلوغت آئے گی تو پارلیمان طاقتور ہو گی ۔ تبھی کابینہ کی مجموعی ذمہ داری کا خیال دلوں اور دماغوں میں جڑ پکڑے گا۔ تبھی وہ مرحلہ آئے گا کہ عدالت، میڈیا، سول سروس اور انتظامیہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں متحرک ہوں ۔نتیجہ خیز بھی۔
اب انہوں نے دوسرا سوال کیا: احتجاجی تحریک پہ اتنے بہت سے اخراجات ہیں ۔ کہاں سے اس کابندوبست ہے ؟ ایک لمحے کو خیال آیا کہ یہ وفاقی وزیرِ اطلاعات کا شوشہ ہے ۔ گزارش کی کہ کسی پارٹی کے حامیوں میں حرکت اور جوش و خروش پیدا ہو جائے تو مالی ایثار پہ وہ آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ تحریکِ انصاف سے حسنِ ظن رکھنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے کم نہیں ۔ ان میں درماندہ اور مفلس ہیں تو خوشحال اور فیاض بھی ۔ پھر حکومت سے ناراض عناصر ہیں ۔ انتقام کی آرزو بڑی طاقتور ہوتی ہے ۔ ان میں سے بعض خاموشی سے اپوزیشن کی مدد کر سکتے ہیں ۔ یہ تو آشکار ہے کہ اس بڑے پیمانے کی رقوم فوج یا خفیہ ایجنسی کے بجٹ سے جاری نہیں ہو سکتیں۔ نوازشریف کی مسلم لیگ کو خاکی سرپرستی حاصل تھی تو تاجروں کو اکسایا گیا تھا۔ ایک بینکر نے ان کے سر پہ ہاتھ رکھا تھااور ایک عرب ملک کے علاوہ اسامہ بن لادن نے سرمایہ فراہم کیا تھا۔
کہا: اسی طرف تو میں اشارہ کر رہاہوں ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بعض کو اشارہ ہو۔ عرض کیا: ایسی چیزیں چھپی نہیں رہتیں ۔ درجنوں افراد جب ملوّث ہوتے ہیں تو بھید کھل جاتا ہے ۔ پھر تحریکِ انصاف کی تاریخ یہ ہے کہ حکومتوں سے کبھی کوئی مالی امداد اس نے قبول نہیں کی۔ خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی کا الزام بھی افسانہ ثابت ہوا۔
اس کے ساتھ یہ بحث تمام ہو جاتی مگر اب انہوں نے کہا : کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 14اگست کو دارالحکومت پہ چڑھ دوڑنے کا منصوبہ ثمر بار ہوگا؟ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے پیش کر دی۔ جی نہیں ، ہرگز یہ موزوں وقت نہیں۔ سب سے بڑھ کر وہی دہشت گردی کا معاملہ۔ جنگ وزیرستان میں تمام نہ ہوگی بلکہ اس کے بعد ملک بھر میں لڑی جائے گی ۔ بڑے شہروں ، بالخصوص کراچی، لاہور اور اسلام آبادمیں بھی۔ بلوچستان کے دور درازعلاقوں اور خود پختون خوا کے پہاڑوں میں بھی ۔ وزیراعظم کو بھارت اور افغانستان سے کیسا ہی حسنِ ظن ہو ، شرارت سے وہ باز نہ آئیں گے ۔ بھارت امریکہ کا تزویراتی حلیف ہے ؛چنانچہ امریکی اور اس کے زیرِ اثر یورپ سے امداد پانے والی این جی اوز بھارت کے گیت گاتی ہیں ۔ پاکستان سے کوئی خطا سرزد ہو تو مغربی پریس اور لیڈر چیخ اٹھتے ہیں مگر بھارت کے باب میں بھیانک ترین جرائم پہ آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں ۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ قومی سیاست میں وہ کاروباری طبقات ، بعض عرب ممالک اور امریکی اثرات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں رکھتے ۔ کرکٹ میں جس طرح ہر گیند کو سوچ سمجھ کر کھیلنا ہوتاہے۔ سیاست میں بھی اسی طرح جو مختلف فریق ہوتے ہیں، ان کے رجحانات ، مفادات اور مجبوریوں کو ملحوظ رکھ کر حکمتِ عملی بنائی جاتی ہے ۔ بھارت یا امریکہ سے متصادم ہونے کی ضرورت نہیں مگر یہ تو لازم ہے کہ ان سے رابطہ رہے اور خسارے سے بچنے کی کوشش کی جائے ۔سیاست ایک جنگ ہے اور جنگ میں فریب کاری کا مقابلہ حکمت کے ساتھ کیا جاتاہے، نعرے بازی سے نہیں ۔
دھاندلی پر عمران خان کا موقف درست ہے اور کسی بھی عدالت میں اسے ثابت کیا جا سکتاہے ، جو سننے پر آمادہ ہو ۔ عوامی رجحانات کو مگر ملحوظ رکھنا ہوتاہے ۔ جب کوئی حکومت قائم ہو چکے تو لوگ اسے مہلت دینے کے حق میں ہوتے ہیں ۔ ان میں سے جو زیادہ باشعور نہیں ، جبلّی طور پر وہ بھی جانتے ہیں کہ آئے دن کی اکھاڑ پچھاڑ سے خرابی جنم لیتی ہے ، احساسِ عدم تحفظ اور معاشی زیاں ۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں کتنا ہی جوش و خروش ہو ، شہریوں کی اکثریت فی الوقت حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتی ۔ نہ صرف وہ اسے مزید مہلت دینے کے حق میں ہے بلکہ متوازی طور پر پختون خوا حکومت کی کارکردگی بھی جانچ رہی ہے۔ چینی سرمایہ کاری کے بلند بانگ دعووں کے علاوہ ، دوسرے گل رنگ وعدوں کا بھی کچھ نہ کچھ اثر عام ذہنوں پہ لازماً ہوتاہے ۔ ایک امید سی بندھ جاتی ہے ۔ زیادہ نہیں تو خود فریبی کی ایک کیفیت ۔۔۔ شاید ، شاید!
آخر کبھی تو کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے
کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ عمران خان کو اپنی پارٹی کی تطہیر اور اسے منظّم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر طرح کے غیر ذمہ دار ، خود غرض بلکہ بعض چور اچکّے تک ،اس میں گھس آئے ہیں ۔ موجودہ حالت میں یہ بہت مشکل ہے ، فرض کیجیے ، وسط مدّتی الیکشن وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ بظاہر یہ ناممکن ہے ، فرض کیجیے ، وہ جیت بھی جائے تو کیا وہ صداقت عباسی ، سیف اللہ نیازی، عامر کیانی اور اعجاز چوہدری کے ساتھ کاروبار ِ حکومت چلائے گا؟کیا وہ اس کی کشتی ساحل پر غرق نہ کر دیں گے ؟
یہ 1971ء تھا، مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل جاری تھا۔ شہرہ آفاق خطیب، شاعر اور نثر نگار آغا شورش کاشمیری نے ترجمہ کے لیے ایک مضمون مجھے دیا۔ غالباً ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تحریر۔ مسوّدہ ان کے حوالے کیا تو پوچھا "Provocateurs of Awami League"کا مفہوم کن الفاظ میں بیان کیا ؟ عرض کیا ''عوامی لیگ کے اشتعال دلانے والے‘‘۔ بولے ٹھیک ہے مگر اس سے زیادہ فصیح ہو سکتا ہے ''عوامی لیگ کے انگلیانے والے‘‘
ایسے لوگوں سے چوکنّا رہنا ہوتاہے ۔ کاروبار اور جنگ کی طرح ، سیاست بھی جذبات نہیں بلکہ حکمتِ عملی کا کھیل ہے... تحریکِ انصاف کا موقف بجااور حکمتِ عملی ناقص ہے ۔ 14اگست کو اگر وہ ہار گئے تو شکست ایسی ہوگی کہ مدّتوں زخم چاٹتے رہیں گے۔ اگّے تیرے بھاگ لچھیے ! باقی تیری قسمت، اے منہ زور حسینہ!