رمضان المبارک میںاہلِ ایمان غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس جذبے کے عملی اظہار کے لیے شمالی وزیرستان، جہاں انتہاپسندوںکے خاتمے کے لیے فیصلہ کن جنگ ہورہی ہے، کے سوا اورکون سی جگہ ہوسکتی ہے؟ اس جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان امداد کے منتظر ہیں ؛ تاہم موجودہ اور سابق حکومتیں، چاہے وہ صوبائی ہوں یا وفاقی، بے گھر ہونے والے افرادکو امداد پہنچانے کا اچھا ریکارڈ نہیں رکھتیں، اگرچہ میڈیا پر اس کے برعکس دعوے کیے جاتے ہیں۔
اس وقت بنوں میں جہاں درجہ حرارت 45اور50ڈگری سینٹی گریڈکے درمیان ہے، خوراک کی کمیابی کی وجہ لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔ پچپن سالہ نیاز ولی خان نے جو ایک فارمیسی چلاتے ہیں، میڈیا کو بتایاکہ وہ چار دن سے لائن میںکھڑا ہورہا ہے لیکن اُسے راشن نہیں ملا۔ اس نے کہا: ''ٹھیک رمضا ن سے پہلے آپریشن شروع کردیا گیا جبکہ انتہا پسند یہاںکئی برسوںسے رہ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ہی کیوں؟ ہمیںاس شدید گرم موسم میں بے گھر ہونا پڑا؛ تاہم میں اس امید پر روزے رکھ رہاہوں کہ خدا اس مقدس مہینے کے طفیل ہماری مشکلات ٹال دے گا‘‘۔ لیکن بہت سے دوسرے بے گھرافرادکی امید دم توڑرہی ہے۔ 43 سالہ جالت خان نے کہا:'' ہماری تمام جمع پونجی گاڑیوںکے کرایوںپر صرف ہوگئی، اب یہاں ہمارے پاس روزہ افطار کرنے کے لیے پانی کے سوا کچھ نہیں ‘‘۔
اس وقت ہمارا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔ اگر یہ قبائلی بھائی پاکستان کے رویے سے خوش نہ ہوئے تو ہم یہ جنگ کبھی نہیں جیت سکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ پورا پاکستان اس جنگ کا بوجھ برداشت کرے۔ اس اہم مسئلے کو سیاست کی نذرنہ کیا جائے۔ 2009ء میںسوات میں انتہا پسندوںکے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران بھی کچھ ایسی ہی صورت ِ حال دیکھنے میں آئی۔ اُس وقت سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر خیبر پختونخوا حکومت میں موجود اپنے آدمیوںکو نوازا۔ اُس وقت میںنے امدادی کاموں کی نگرانی کرنے والے ایک فوجی افسر سے انٹرویو لیا۔ اُس کاکہنا تھاکہ جب بھی پاکستان میں کوئی انسانی المیہ جنم لیتا ہے، امریکہ مدد کو آگے بڑھتا ہے۔ جب 2005ء کے ہولناک زلزلے نے شمالی علاقہ جات کو تباہ کر دیا تو فوراً ہی امریکی سفیر مسٹر ریان کروکر (Ryan Crocker)نے امدادی سرگرمیاں شروع کردیں؛ تاہم امریکی تعاون ہمیشہ ہی موثر نہیںہوتا۔ امریکہ نے مشرف حکومت کو یقین دلایا کہ ضرورت کے وقت امریکی پاکستان کے بہترین دوست ہیں اور یہ بھی کہا کہ''ہم ریلیف سرگرمیاں پاکستانیوں کی نسبت بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں‘‘۔ کروکر اور ان کی ٹیم نے وزیر ِ اعظم سیکرٹریٹ میں اپنا سیل قائم کرلیا؛ تاہم بقول اُس فوجی افسر، ہوا یوں کہ امریکی سرگرمیاں سیل فونز پر پیغامات کے تبادلے یا اپنے پاکستانی عملے کو احکامات صادرکرنے تک ہی محدود رہیں۔ پاکستانی سٹاف اُن سے خائف تھا۔ خوش قسمتی سے کسی نے دانائی کا مظاہرہ کیا اور امریکیوں سے کہا کہ بس کافی ہے، اپنی سرگرمیاں موقوف کردیں‘‘۔ اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوںنے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔
جب سوات میں2009ء میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے وزیرِ اعظم گیلانی سے رابطہ کیا،این پیٹرسن نے مدد کی پیش کش کی ۔ وزیر ِ اعظم کا جواب کیاتھا، یہ تو معلوم نہ ہوسکا تاہم ایک طرف خیبر پختونخوا کی حکومت کوآئی ڈی پیزکی مدد اور بحالی کی ذمہ داری سونپی گئی تو دوسری طرف ''ایچ ڈی سنٹر‘‘ (Centre for Humanitarian Dialogue) قائم کیا گیا۔ اس میں حکومت ِ پاکستان، صوبائی حکومت، این جی اوز اور فاٹا کے نمائندے شامل تھے۔ اُنہوںنے ریڈ کراس اور یواین کی مختلف ایجنسیوں کے نمائندوںسے ملاقات کرنی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ دعوے کے برعکس پاکستان اپنی اتھارٹی پر سمجھوتہ کررہا تھا۔ ایچ ڈی نے دس پاکستانی نمائندوں کو منتخب کیا اور ان کے فضائی سفر اور جنیوا میں اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام کے اخراجات برداشت کیے۔ اس تما م کارروائی میں دفترِ خارجہ کو نظر اندازکردیا گیا۔ صدر زرداری ہر قسم کے معاہدوں پر اندھا دھند دستخط کیے جارہے تھے۔ خیبر پختونخوا کے دو ارکانِ پارلیمنٹ جن میں سے ایک فاٹا سے سینیٹر تھے اور دوسرے ایک این جی او چلارہے تھے، آئی ڈی پیزکے کمشنر قرار پائے۔ جنیوا سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق''ایچ ڈی سنٹرکے ذریعے شرکا کو امدادی کاموں کے بارے میں بات چیت کرنے کا بہترین موقع میسر آیا اور وہ امداد اور اس کی ٹرانسپورٹیشن کے معاملات پر حتمی نتیجے میں پہنچنے میں کامیاب رہے‘‘۔
اس تمام معاملے میں ایک بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ حکومت، چاہے وفاقی تھی یا صوبائی، اپنی اتھارٹی کو غیر ملکی ایجنسیوں اور اداروں کے ہاتھ رہن رکھنے کے لیے تیار ہوگئی۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ جب بھی کوئی انسانی المیہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو بہت سی اقوام امدادی کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہیں لیکن کوئی قوم اس طرح تمام اختیار کسی اورکے ہاتھ میں نہیں تھما دیتی۔ دنیا کا اورکون ساملک اس طرح کے اداروںکو اپنے داخلی فیصلے کرنے کی اجاز ت دیتا ہے یاکوئی ریاست امدادی کاموں کی آڑ میں حساس معلومات کسی اور کے حوالے کرتی ہے؟ سوات میں معاملہ سخت جان جنگجوئوںسے تھا اور یقیناً یہ فلاحی ادارے ان سے نہیں نمٹ سکتے تھے۔ ان سے سکیورٹی اداروںنے ہی عہدہ برآ ہونا تھا۔ ایک اور بات، امریکی اور دیگر ملکی نمائندوں کو اس طرح کے فوجی آپریشن میں مداخلت کا موقع دیناکہاں کی دانائی تھا؟
آج جب قوم ایک مرتبہ پھر شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں سے معرکے میں مصروف ہے اور لاکھوں آئی ڈی پیزکا مسئلہ سراٹھا رہا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توجہ اسی طرف مرکوز رکھے۔ پاکستان میں بھی مخیرحضرات کی کمی نہیں، بہت سے رفاہی ادارے بھی بہت عمدہ کام کررہے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق ملک ریاض نے بھی ایک لاکھ مہاجرین کی ذمہ داری اٹھانے کی پیشکش کی ہے۔ اُن کی اور دوسرے متمول حضرات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس وقت ہمیں عالمی برادری سے جوسب سے بڑا تعاون درکار ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں روپوش ہمارے مطلوبہ اہداف کو وہاںسے نکالا جائے یا انہیں ختم کیا جائے۔ جب ہم اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے نمٹا دینے کے لیے کمر بستہ ہوہی گئے ہیں تو امریکہ ، افغان حکومت اور نیٹوکو ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
دنیا کا کوئی ملک بھی عالمی تنہائی افورڈ نہیںکرسکتا، ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں ۔ ہم کوئی بہت طاقتوریا امیر ریاست نہیں، اس لیے اپنی خودمختاری کا تحفظ کرتے ہوئے ہمیںکسی کا دست ِ تعاون جھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ قوموں کی زندگی میں مشکل دن آتے رہتے ہیں ۔۔۔ ہمارے ہاں سے تو یہ جانے کا نام نہیں لیتے۔۔۔ اور عالمی برادری ریاستوںکے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہمیں بعض دوست ممالک کا نظریاتی تعاون بھی درکار ہوگا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ کچھ دوست ممالک مذہبی مدرسوںکو فنڈز مہیا کرتے ہیں لیکن ان مدرسوں سے انتہا پسندی اور جہادی کلچر پھوٹ رہا ہے۔ دنیاکا کوئی ملک بھی کسی کو اپنے نظریات کے پرچارکے لیے مدرسے قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس آپریشن کا شاید سب سے مشکل مرحلہ یہی ہوگا۔