تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-07-2014

وہی گھسا پٹا موضوع‘ وہی گھسی پٹی باتیں!

روزے اس سے زیادہ گرمی میں بھی رکھے ہیں۔ تب دیگر عوامل اتنے خراب نہیں تھے۔ بجلی کا حال کیا لکھیں‘ مخلوق خدا گرمی اور لوڈشیڈنگ کے حسین امتزاج سے دھڑا دھڑ سفر آخرت پر روانہ ہو رہی ہے۔ اوپر سے مہنگائی‘ شاہ جی فروٹ چاٹ کا سامان لینے گئے تھے دہی بھلے لے کر واپس گھر آ گئے۔ رمضان بازاروں کا حال بھی خراب و خستہ ہے اور صرف وہی پھل‘ سبزی وغیرہ سستی ہے جس کی کوالٹی کمتر ہے۔ انتظامات ٹھیک ہیں مگر کوالٹی اور ریٹ کا معاملہ گڑ بڑ ہے ۔ٹماٹر بازار میں پچاس روپے کلو ہیں تو رمضان بازار میں اڑتالیس روپے کلو۔محض دو روپے کا فرق ہے لیکن پچاس روپے دے کر آپ ٹماٹر خود چن لیتے ہیں مگر اڑتالیس روپے کلو خریدنے سے آپ اس اختیار سے محروم ہو جاتے ہیں۔تمام پھلوں اور سبزیوں کا یہی حال ہے‘ مگر سب سے برا حال بجلی کا ہے۔
میپکو (ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی) نے رمضان کے لیے بجلی کا شیڈول جاری کرتے ہوئے تکلفاً ایک فون نمبر بھی دے دیا‘ جس پر شکایت درج کروائی جا سکتی ہے مگر وہ نمبر ہمہ وقت مصروف ملتا ہے۔ ''صبح دو بجے سے چار بجے تک(سحری کے لیے) شام چھ بجے سے آٹھ بجے تک(افطاری کے لیے) اور رات نو بجے سے گیارہ بجے تک(تراویح کیلئے) لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی‘‘۔ یہ وہ اشتہاری اعلان ہے جو میپکو نے اخبارات کے ذریعے صارفین تک پہنچایا۔ اسی طرح کا اعلان کسی زمانے میں بسوں میں لکھا ہوتا تھا کہ ''سر اور بازو کھڑکی سے باہر نہ نکالیں‘‘بعض احمق اس سے یہ مراد لیتے تھے کہ صرف سر اور بازو کھڑکی سے باہر نکالنا منع ہے۔ جسم کے باقی حصے اگر باہر نکال دیے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔یہی حال مذکورہ اعلان کا ہے۔ رات نو بجے سے گیارہ بجے تک بجلی نہیں گئی تھی مگر پورے گیارہ بجے چلی گئی اور رات پونے دو بجے آئی پھر سوا دو بجے دوبارہ پندرہ منٹ کے لیے چلی گئی ۔گیارہ بجے کے بعد بجلی پورے پونے تین گھنٹے نہ آئی۔شدید گرمی‘حبس اور اوپر سے بجلی غائب! 
پیپلز پارٹی کے اشتہارات اور موجودہ حکومت کے اشتہارات میں دی گئی بجلی کی تفصیل‘ جو انہوں نے نیشنل گرڈ میں شامل کی ہے‘ جمع کی جائے تو ٹوٹل تقریباً اتنا ہی بن جاتا ہے‘ جتنی بجلی اس قوم کو نصیب ہو رہی ہے۔ یہ وہی لطیفہ ہے کہ مالک نے نوکر سے پوچھا کہ ڈیڑھ کلو گوشت کہاں گیا؟ملازم نے جواب دیا کہ بلی کھا گئی۔ مالک نے بلی کو پکڑ کر اس کا وزن کیا تو پورا ڈیڑھ کلو نکلا۔مالک نے ملازم سے پوچھا کہ اگر یہ بلی کا وزن ہے تو گوشت کہاں گیا؟ اگر یہ گوشت کا وزن ہے تو پھر بلی خود کہاں ہے؟ یہی سوال اس بجلی کے معاملے میں ہے کہ اگر یہ ساری بجلی یعنی تقریباً 12500میگاواٹ وہی اشتہاری بجلی ہے جو آپ حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں نیشنل گرڈ میں ڈالی ہے تو پہلے والی بجلی کہاں گئی؟ اور اگر یہ پہلے والی بجلی ہے تو آپ والی بجلی کہاں چلی گئی؟ 
اس وقت بجلی کی کل طلب اٹھارہ ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداواری استعداد اس سے بہرحال زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ استعداد انیس ہزار آٹھ سو پچپن میگاواٹ ہے یعنی طلب سے ایک ہزار آٹھ سو پچپن میگاواٹ زیادہ۔دوسری رپورٹ کے مطابق یہ پیداواری استعداد اکیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔یعنی طلب سے تین ہزار میگاواٹ زیادہ مگر فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ طلب اٹھارہ ہزار میگاواٹ ہے اور رسد بارہ ہزار پانچ سو میگاواٹ۔ یعنی شارٹ فال تقریباً ساڑھے پانچ ہزار میگاواٹ ہے۔اس حساب سے شارٹ فال ایک تہائی ہے اور اس شرح فیصد کو سامنے رکھتے ہوئے حساب جوڑیں تو کل لوڈشیڈنگ ایک تہائی یعنی آٹھ گھنٹے ہونی چاہیے لیکن معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔شہروں میں یہ دورانیہ آٹھ گھنٹے سے شروع ہو کر بارہ تیرہ گھنٹوں تک ہے اور دیہی علاقوں میں یہ دورانیہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے ہے۔باقی والا شارٹ فال کہاں سے آیا؟ 
اب دو سوال ہیں۔پہلا یہ کہ اگر پیداواری استعداد انیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے اور اس میں سے تقریباً ساڑھے چھ ہزار میگاواٹ ہائیڈل پاور کی ہے ۔اگر صرف اس سیکٹر میں پیداوار کو آدھا تصور کر لیں تو بقیہ کل پیداواری استعداد ساڑھے سولہ ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ بنتی ہے اور اگر یہ استعداد اکیس ہزار میگاواٹ تصور کریں تو پیداوار سترہ ہزار سا ت سو پچاس میگاواٹ یعنی طلب کے تقریباً برابر بنتی ہے مگر شارٹ فال ساڑھے پانچ 
ہزار سے چھ ہزار میگاواٹ ہے۔یہ بجلی کہاں ہے؟ظاہر ہے پیداوار اس حساب سے نہیں ہو رہی جس حساب سے ہونی چاہیے۔ بہت سے بجلی گھر اپنی پوری استعداد سے نہیں چل رہے‘ جس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔پہلی یہ کہ ان کے پاس فرنس آئل یا دیگر ایندھن خریدنے کے لیے پیسے نہیں اور حکومت ان کو ادائیگی نہیں کر رہی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پیداواری لاگت زیادہ ہے اور بجلی کی قیمت کم وصول ہو رہی ہے؛ نتیجتاً ادائیگی اور وصولی کا درمیانی فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے‘ اب یہ سرکلر ڈیٹ تین کھرب تیس ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔حکومت رمضان میں بجلی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے چالیس ارب روپے کی ادائیگی کرنے جا رہی ہے ۔اس میں سے پندرہ ارب روپے آئی پی پیز کو اور پچیس ارب روپے پی ایس او کو دیئے جائیں گے۔ آئی پی پیز کو تین سو تیس ارب کی ادائیگی کے مقابلے میں محض پندرہ ارب روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے جو واجب الادا رقم کا ساڑھے چار فیصد ہے۔ اب اس ادائیگی سے جتنی بہتر ی آئے گی اس کا تصور بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
2012ء کے اوائل میں حکومت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں پروفیشنل چیف ایگزیکٹوز لگانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں درخواستیں مانگیں‘ شارٹ لسٹ کیا‘ انٹرویو ہوئے‘ پانچ ٹاپ امیدواروں کے نام وزارت پانی و بجلی کو بھجوائے گئے۔آج تک اس کا جواب نہیں آیا۔تب سے اب تک ساری تقسیم کار کمپنیاں‘این ٹی ڈی سی اور دیگر متعلقہ ادارے ''ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔صرف بجلی کو کیا روئیں‘ تقریباً تمام قومی ادارے باقاعدہ سربراہ کے بغیر چلائے جا رہے ہیں۔ کے ای ایس سی یعنی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو پرائیویٹائز کر دیا گیا۔اس پر بڑا شور بھی مچا‘ بڑی لے دے بھی ہوئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ ''کے الیکٹرک‘‘یعنی کراچی الیکٹرک (کمپنی) خسارے سے نکل کر نفع میں آ گئی۔ لائن لاسز میں تقریباً دس فیصد کمی ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ کراچی میں ہو رہا ہے جہاں کُنڈا مافیا‘ بھتہ خور‘ ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل جتھوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی چھتری تلے پناہ گزین زور آور افراد بھی مفت کی بجلی استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ ان حالات میں کے الیکٹرک کا خسارے سے نکل آنا اور دس فیصد لائن لاسز کم کرنا ایک قابل تقلید مثال ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ الیکٹرک کا انتظامی ڈھانچہ اب نوجوان پروفیشنلز کے ہاتھ میں ہے۔ ورنہ فرسودہ نظام میں عرصے سے موجود گلے سڑے افسران‘ یہ سسٹم چلا رہے ہیں۔ انہیں کمیشن‘ بجلی چوری میں حصہ اور اپنے ذاتی مفادات کے علاوہ اور کسی چیز سے غرض ہی نہیں‘ اور حکومت کو کوئی فکر ہی نہیں۔
اگر فی الوقت صرف ‘اچھی ‘ صاف ستھری‘ نیک نیت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل انتظامیہ کا اہتمام کر دیا جائے تو معاملات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ بجلی چوری اور لائن لاسز میں کمی سے ہی صورتحال کو بہت بہتر کیا جا سکتا ہے مگر بات پھر وہی پرانی اور گھسی پٹی ہے مگر سچائی یہی ہے کہ حکومت کو نان ایشوز سے ہی فرصت نہیں۔ اگر وہ نان ایشوز سے فارغ ہو تو وہ ان چیزوں میں بہتر ی لا سکتی ہے مگر اصل مسئلہ اس''مگر ‘‘ کا ہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved