روزنامہ ''دنیا‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا‘ تو ہمارے ساتھ اوریا مقبول جان بھی تھے۔ ان کی انتہاپسندی کا اندازہ کر کے‘ میں نے جوابی انتہاپسندی کا انتظام کیا۔ کامریڈ لال خان سے بہتر انتخاب کیا ہوتا؟ جب دونوں ایک ہی اخبار میں اکٹھے ہو گئے‘ تومجھے اچھا لگا۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ انتظار حسین کی طرزکے ایک اردو دان بزرگ‘ پاک ٹی ہائوس میں اداس بلکہ غمزدہ بیٹھے تھے۔ کراچی سے‘ ان کے ایک دوست ملاقات کے لئے پاک ٹی ہائوس آئے اور بزرگ محترم کی مخصوص ٹیبل پر بیٹھ کر‘ تبادلہ خیال شروع کر دیا۔ کراچی والے مہمان نے پوچھا کہ ''حضرت!خیریت تو ہے؟ اداس کیوں بیٹھے ہیں؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟‘‘
''جی! اللہ کا شکر ہے۔ انارکلی میں دکان ہے۔ ماڈل ٹائون میں رہتا ہوں۔ کاروبار اچھا ہے۔‘‘
مہمان نے پوچھا ''تو اداسی کی وجہ کیا ہے؟ طبیعت تو ٹھیک رہتی ہے؟‘‘
''الحمد للہ‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔‘‘
''خاندان کے اندر کوئی مسئلہ؟‘‘
''بالکل نہیں۔ سارے بچے بخیروعافیت ہیں۔ میری اپنی شادی کی بات بھی چل رہی ہے۔‘‘
''تو پھر اتنی پریشانی کی وجہ کیا ہے؟‘‘
''میاں! پنجاب میں رہتے رہتے‘ زبان خراب ہو گئی ہے۔‘‘
اوریا مقبول جان کی رخصت سے ‘میرا بیلنس بھی خراب ہو گیا ہے۔ شروع میں اوریا‘ ہمارے ساتھی تھے۔ ہارون الرشید کے بعد ان کے پوسٹرز سب سے زیادہ لگائے گئے تھے۔تشہیری مہم میں‘ میں شامل باجا تھا۔ میں آج بھی شامل باجا ہوں‘ لیکن اوریا مقبول جان ‘ ہمارے کالم نویسوں میں نمایاں تھے۔ ان کی تحریریں دیکھنے کے بعد‘میں نے فیصلہ کیا کہ بیلنس کرنے کے لئے کوئی مقابلے کا رائٹر تلاش کیا جائے۔ کامریڈ لال خان یاد آئے۔ ان سے درخواست کی۔ انہوں نے ہمارے ہاں کالم لکھنا شروع کر دیا اور ان دونوں نے ایک دوسرے کو بیلنس کر دیا۔ مگر اب اوریا ہمیں چھوڑ گئے ہیں۔ میرا بیلنس خراب ہو گیا ہے۔ اوریا جہاں بھی رہیں‘ خوش رہیں۔ میں کامریڈ لال خان پر خوش ہوں۔اوریا مقبول جان بھی خوش ہیں‘ اللہ انہیں خوش رکھے۔ بیلنس دونوں طرف خراب ہے۔
ابھی تک گپ شپ چل رہی تھی۔ سنجیدہ موضوع کی طرف آتے ہیں۔ غور کریں تو یہ موضوع بھی سنجیدہ نہیں۔ میں تو اسے لطیفہ کہوں گا۔ چند روز پہلے نہتے مردوں اور عورتوں پر گولیاں چلانے کے لئے پولیس کو ‘کونسی دشواری پیش آئی تھی کہ تحفظ پاکستان بل منظور کر لیا گیا؟ یہ بل پاس ہونے کے بعد فرق کیا پڑے گا؟ پولیس نے تو رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں‘ اندھا دھند گولیاں برسائیں۔ خواتین کے منہ پر ڈائریکٹ فائر مارے۔ کسی نے کچھ پوچھا؟ کوئی عدالت؟ کوئی سوموٹو؟ کسی اسمبلی میں قرارداد؟ کچھ ہوا؟ تو پھر حکومت کو یہ قانون بنانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس حرکت کو صرف'' موراوور ‘‘ہی کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کو داد دینا پڑتی ہے کہ یہ جو کچھ بھی کرے‘ اس کی حمایت کرنے والے‘ ہمیشہ بے تاب رہتے ہیں۔ جس دن پولیس کو محض وارننگ دے کر گولی مارنے کا اختیار ملا‘ ہمارے ٹی وی دانشور اس پر تبصرے کر رہے تھے۔ جب یہ سوال ہوا کہ پولیس کو محض وارننگ دے کر گولی مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے‘ تو ''وارننگ‘‘ کا ثبوت کون دے گا؟ وارننگ تو اسے ملی ہو گی‘ جسے گولی مار دی گئی۔ اب کونسی عدالت اس سے پوچھے گی کہ اس کو وارننگ دی گئی یا نہیں؟ یہ عجیب الخلقت قانون زیربحث تھا کہ ایک مرغی مکھن دانشور نے فوراً کہا کہ ''یہ کونسی نئی بات ہے؟ امریکہ میں اس سے بدتر قوانین موجود ہیں۔ لاطینی امریکہ میں حکومتوں کو اس سے بھی زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں حکومتوں کو وارننگ دے کر گولی مارنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ بہت سے ملکوں میں تو وارننگ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔‘‘ ایسے دانشور مجھے اچھے لگتے ہیں۔ جب میں تاریخ پر نظر دوڑاتا ہوں‘ تو ان کی سچائی پر یقین آ جاتا ہے۔ بادشاہوں کا زمانہ یاد کر لیں۔ انہیں نہ صرف وجہ بتائے بغیر‘ ہر شخص کو ہلاک کرنے کا حق حاصل تھا‘ بلکہ یہ حق اتنا زیادہ تھا کہ انسانوں کو ہلاک کرنے کا فن بھی ایک فیشن بن گیا تھا۔ ایک بادشاہ ‘ بھوکے شیروں کے آگے انسانوں کو دھکیل کر‘ ان کی چیرپھاڑ سے لطف اندوز ہوتا تھا‘ تو دوسرا لطف اندوزی کے نئے طریقے ایجاد کرتا۔ ان میں سے مقبول عام طریقہ یہ تھا کہ کسی بھی انسان کو قابو کر کے‘ زمین پر لٹا دیا جاتا اور پھرمہاوت سے کہا جاتا کہ اس کے سینے پر ہاتھی کا پائوں رکھوائو۔ہاتھی میدان میں لایا جاتا۔ اس بے بس انسان کو ہاتھ پیر باندھ کر زمین پر لٹا دیا جاتا اور ہاتھی اپنا پائوں‘ اس کے سینے پر رکھ کر اپنا بوجھ ڈالتا۔ اس کی ہڈیاں چٹخ جاتیں۔ اس کا جسم پھٹ جاتا۔ انتڑیاں باہر نکل آتیں اور بادشاہ اس منظر سے لطف اندوز ہوا کرتے۔ یورپ میں گلوٹین ایجاد کی گئی۔ یہ ایک طرح کا ٹوکہ تھا۔ لکڑی کے دو شہتیروں کے اندرانسانی گردن کے سائز کے مطابق‘ جگہ بنا دی جاتی۔ اس میں انسان کی گردن رکھ کر ‘ لکڑی کے دونوں تختے جوڑ دیئے جاتے۔ کافی اوپر سے تیزدھار کادھاتی بلیڈچھوڑا جاتا۔ گردن کٹ جاتی۔ بادشاہ سلامت لطف اندوز ہوا کرتے۔ انگریز نے جب برصغیر پر قبضہ جمایا‘ تو ّٓاس نے بغاوت کرنے والوں کے لئے جو سزائیں مقرر کیں‘ وہ یہ تھیں کہ جس گائوں میں کوئی سر اٹھاتا‘ اس کو وہیں کسی درخت کے ساتھ باندھ کر لٹکا دیا جاتا اور ایسے لوگوںکی لاشیں کئی کئی مہینے لٹکتی رہا کرتیں۔ حکمرانوں میںانسانی زندگی سے کھیلنے کی آزادی ہمیشہ پسندیدہ رہی ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ پرانے طور طریقے ختم ہو گئے ہیں‘ تو اسے اپنی غلط فہمی دور کر لینا چاہیے۔ آج بھی سب کچھ وہی ہے۔ جس دنیا کو آپ مہذب کہتے ہیں اور جس میں ہم زبردستی شامل ہونے کے دعوے کرتے ہیں‘ ہمارے ہاں بھی انسانیت کا قتل آج بھی ایک تفریح ہے۔ ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں انسانوں کے پیچھے کتے لگا کر‘ ان کی موت کا منظر دیکھنا ایک مشغلہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں عورتوں کو خاص طور پر اس تفریح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں آگ میں جلا دیا جاتا ہے۔ ان پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ پنچایتوں میں ان کی آبروریزی کے احکامات پر عمل کرایا جاتا ہے۔ سنگسار کیا جاتا ہے۔ جلتی آگ پر ننگے پائوں چلنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
آج اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کے حکمرانوں کو قدیم بادشاہوں کی طرح ساری طاقت مل چکی ہے۔ اپوزیشن ان کی جیب میں ہے۔ بیوروکریسی ان کے جوتے کے نیچے ہے۔ عدلیہ کے بارے میں لکھنے سے مجھے خوف آتا ہے۔ حاکم اعلیٰ کے اختیارات کی انتہا پر پاکستان کے حکمران پہنچ چکے ہیں۔ بیہودہ قسم کے دانشور سوالات اٹھا رہے ہیں کہ پولیس کو محض وارننگ دے کر‘ گولی چلانے کا اختیار کیوں دیا گیا؟ ان سے پوچھنا کہ ''پولیس کو یہ اختیار کب حاصل نہیں تھا؟‘‘ کل رات ایک ٹی وی پر بتائی گئی کہانی کے مطابق‘ پولیس نے ایک زیرحراست نوجوان کو گولی مارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے والد کو بتا دیا گیا کہ آج اس کے بیٹے کو مارا جائے گا۔ وہ ساری رات تھانے کے باہر بیٹھا رہا کہ جب اس کے بیٹے کو پولیس مقابلے میں مارنے کے لئے لے جایا جائے گا‘ تو وہ شور مچا دے گا۔ رات گزر گئی۔ وہ بیٹھا رہا اور صبح اسے بتایا گیا کہ اس کے بیٹے کو مار دیا گیا ہے۔ اس کی میت سنبھال لو۔ یہ کون لوگ ہیں؟جنہوں نے تحفظ پاکستان بل کی آڑ میں پولیس کو بلاجواز موقع پر ‘قتل کرنے کا اختیار دیا ہے؟ یہ وہی لوگ ہیں‘جو اپنی اپنی دنیا میں‘ یہی اختیار‘ بلاروک ٹوک استعمال کرتے ہیں۔ قانون سازی محض تکلف ہے۔ جتنے اختیارات حکومت کو قانون میں دیئے گئے ہیں‘ وہ اس کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔ شوروغوغا کرنے کا کیا فائدہ؟ جب کبھی جمہوریت آئی‘ پھر انسانی حقوق کے نخرے بھی کر لیں گے۔ جو چیز کبھی حاصل ہی نہیں ہوئی اور نہ دوردور تک حاصل ہونے کے امکان ہیں‘ اس کی خاطر سر کھپانے کا فائدہ؟