تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-07-2014

جنرل اطہر عباس لوٹ آئیں

سنجر کا سلطان پلٹ کر آیاتھا یا نہیں ، آرزو ہے کہ جنرل اطہر عباس اپنی کوتاہی کا ادراک کریں اور لوٹ آئیں ۔سب جانتے ہیں کہ غلطی سے نہیں ،غلطی پر اصرار سے تباہی آتی ہے ۔ 
گھر گھر، گلی گلی چرچے ہیں ،جنرل کو سوجھی کیا؟ عکّہ کی جنگ میں ساری صلیبی قوّتیں شامل تھیں ۔سمندر سمیت ،شہر کو تین طرف سے انہوں نے گھیر رکھا تھا۔ آبادی قلعہ بند تھی۔ صلاح الدین ایوبی کا مختصر سا لشکر پرلی جانب پڑا تھا۔ لڑائی طویل ہو گئی تو سنجر کا سلطان اپنی سپاہ کے ہمراہ رخصت ہوا ۔ راہ میں صلاح الدین کا خط اسے ملا ، صرف ایک شعر ''میں نہیں جانتا، اس شخص نے کیا حاصل کیا، جس نے مجھ ایسے دوست کو چھوڑ دیا‘‘۔ ایوبی کے وضع دار سوانح نگار نے ،عمر جس کی بادشاہ کے ساتھ بیتی ، وضاحت نہ کی کہ کیا وہ پلٹ کر آیا؟ فیصلہ کن فتح میں اس کا ذکر بہرحال نہیں ، جس نے بیت المقدس ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ سلطان کے بے پناہ عزم نے شکست کے جبڑوں سے ایک خیرہ کن ظفر مندی چھین لی، جس کی امید کسی کو نہیں تھی ۔ 
شہر کے وسط میں اپنے گھوڑے پر سوار سلطان نے اپنی سپاہ کو حکم دیا کہ ہر اس شخص کو نکل جانے کی اجازت ہے ، جو دس دینار فدیہ ادا کرے... اور جو نہ کر سکے ؟ ان کا سلطان اور اس کے ساتھیوں نے ادا کیا۔ آج طالبان کے لیے دلائل تراشنے والے معلّم بہت ہیں ۔ کبھی یہ ہمارا اسلام تھا ۔ وہ اسلام ، جس کی بنیاد سرکارؐ کے اس فرمان پر تھی ''الدین نصیحہ‘‘ دین تو بس خیر خواہی ہے۔ 
پانچ برس ہوتے ہیں ، آئی ایس پی آر کے صدر دفتر میں جنرل نے ایک کتاب میری طرف بڑھائی "The Reason"۔ غیر ضروری بے تابی کے ساتھ ملاقاتی نے کہا : جی ہاں ، عقلِ سلیم ہی ۔ بس ایک چیز اس سے بڑھ کر ہے، وحی ء الٰہی۔ وہ اصول جو رب العالمین کے فرمان اوررحمتہ اللعالمینؐ کی زبان اور عمل سے مجسّم ہو کر بابرکت اور دائمی ہو گئے۔ تعجب سے انہوں نے میری طرف دیکھا ۔ اس پر مجھے حیرت ہوئی ۔ 
ایک طریق یہ ہے کہ ہر چیز کو عقلِ عام کی کسوٹی پہ پرکھا جائے۔ دوسرا یہ کہ طویل تاریخی تجربات بھی ملحوظ رکھے جائیں۔ اقبالؔ نے کہاتھا : وحی ء الٰہی بہترین انسانی تجربے کا اختصار ہے ۔ ہزاروں برس میں جوکچھ آدمی سیکھتا ہے ، وہ ایک آ ٓیت اور ایک حدیث میں مضمر ہوتاہے ۔ حدیثِ رسولؐ کا ذکر ہوا ''الدین نصیحہ‘‘ مثبت اندازِ فکر کا سارا جمال ان الفاظ میں سمٹ آیا ہے۔ 
آسودہ وہ ہے ، جو معاف کر سکتا ہے ۔ تعصبات سے بھی اوپر اٹھ سکے ، حسنِ ظن سے کام لے ۔ صوفی نے کہا تھا : معاملہ جب اللہ کے ساتھ ہو تو مخلوق کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ مخلوق کے ساتھ ہو تو اپنی ذات کو اٹھا رکھنا چاہیے۔ محمد علی جناح ، ٹیپو سلطان، ابرہام لنکن اور صلاح الدین اور عمر ابن عبد العزیز یونہی جگمگائے نہیں تھے ۔ فاتح تو اٹیلا بھی بہت بڑا تھا۔ کس دلیری سے رومیوں کو اس نے تھامے رکھا تھا مگر دیو جانس کلبی !حکمران بھلے بھی ہوں تو متنازعہ ہوتے ہیں مگر جنیدِ بغدادؒ ، سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ!
دو واقعات ہیں ، جن پر بات کرنے کاجنرل اطہر عباس کو حق ہے ۔ اوّل یہ کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے لیے پر امید بہت تھے۔ یہ اندازِ فکر کی خامی تھی ۔ عہدے کم اور امیدوار زیادہ ۔ جو سرفراز نہیں ہو پاتے ، لازم نہیں کہ نالائق ہوں ۔ کیا اس لیے وہ رجائیت کا شکار تھے کہ چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ پیہم تھا؟ جنرل شجاع پاشا نے مجھ سے کہا : صدر زرداری مجھے دوبرس کی توسیع دینے پر آمادہ تھے مگر جنرل کیانی نے ایک برس پہ محدود کی۔ ایک برس کا اضافہ بھی انعام تھا۔ اچھے، محبِ وطن اور محنتی آدمی ۔ کارنامہ لیکن ایک بھی نہ تھا۔ جنرل اطہر عباس کا بھی یہی عالم تھا۔ اخبار نویس متفق ہیں کہ ان کے جانشین جنرل عاصم باجوہ کے دور میں کارکردگی بہتر ہو ئی، بہت بہتر ۔ جنرل اطہر عباس نالائق نہیں تھے ۔ تعلقاتِ عامہ ان کا میدان نہ تھا۔ عاصم باجوہ اس قدر الفت اور انس کے ساتھ اخبار نویسوں سے پیش آتے ہیں کہ مزاحمت ٹوٹنے لگتی ہے ۔ دلیل اطہر عباس بھی دیا کرتے لیکن عسکری اور فلسفیانہ ۔جنرل عاصم باجوہ تردید اورتنقید سے بد مزہ نہیں ہوتے ، دو گنا محنتی بھی ۔ 
جنرل اطہر عباس کے زمانے میں بحث چھڑی کہ افواج پر اس قدر تنقید کیوں ہے ؟ بڑا سبب تو دہلی اور واشنگٹن کے خفیہ سیل تھے ۔ ان کے کارندے اور مشکوک میڈیا گروپ کا سربراہ ۔ فوج بھی اپنا موقف کبھی ڈھنگ سے پیش نہ کر سکی۔ جنرل کیانی کو مشورہ دیا گیا کہ جنرل اطہر عباس کو دوسری کوئی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ وہ خاموش رہے ۔ ان کے سبکدوش ہونے کا انتظار کیا۔ اس کا انہیں غم تھا۔ چاہیے نہ تھا۔ میجر جنرل کا منصب معمولی نہیں ،جو اپنی ریاضت سے انہوں نے پایا تھا۔ سبکدوشی پہ خود کو تھامے رکھنا مشکل بھی ہوتاہے مگر ایسا کیا مشکل ؟ ایک دن آدمی کا سفرتمام ہوتاہے ۔ تب وہ نئی منزلوںکا قصد کر سکتا ، نئی دنیائوں کے خواب دیکھ سکتا ہے۔ رنج کیسا اور ملال کیوں؟ اللہ نے انسانوںکو پیدا ہی اس لیے کیا کہ آزمائے جائیں۔ ستمبر 1965ء کی جنگ سے ذرا پہلے ائیر مارشل نور خان سربراہ بنے اور پاک فضائیہ کے معمار ائیر مارشل اصغر خان سبکدوش ہو گئے۔ تحسین نور خان کے حصے میں زیادہ آئی ؛حالانکہ تربیت تو اصغر خان کے دور میں ہوئی تھی۔
بیت المقدس کی جنگ جاری تھی ۔ فاروقِ اعظمؓ کا فرمان پہنچا کہ خالد بن ولید ؓ امین الامّت عبیدہ بن ابی جراحؓ کے حق میں سبکدوش ہو جائیں ۔ اوّل یہ خط امین الامّت کو ملا۔شہر کی تسخیر کے بعد سیف اللہؓ کو انہوں نے مطلع کیا۔ قصور کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں ۔ عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا،خالدؓمیں جارحیت زیادہ ہے۔ زندگیاں زیادہ خطرے میں پڑتی ہیں ۔ عبیدہ بن ابی جراحؓ محتاط ہیں... ہمارا جنرل رنج پالتا رہا۔ 
کہا جاتاہے کہ سبکدوشی کے بعد وہ اپنے اخبار نویس بھائی کے ساتھ صدر زرداری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سفیر بنانے کی استدعا کی۔ جی ایچ کیو سے پوچھا گیا تو جواب آیا کہ ضابطہ حائل ہے ۔ دو برس انتظار کرنا ہوگا۔ کیا اس کا قلق بھی ہوا؟ وضاحت انہیں فرمانی چاہیے۔ 
برطانوی ادارے سے انکشاف کیوں فرمایا؟ جس کا وطن، وطن کے حلیف اور سرپرست امریکہ جنرل کیانی سے نالاں تھے؟ سمیع ابراہیم، طلعت حسین یا کاشف عباسی کو انٹرویو دیا ہوتا کہ بال کی کھال اتار سکتے ۔ ایبٹ آباد ، سلالہ، نیٹو کے لیے سپلائی کی بندش۔ جنرل مائیکل ملن، پیٹریاس، ہالبروک ، ہلیری اور اوباما ، سبھی ان سے ناراض تھے۔ اس کے باوجود کسی ایک مغربی اخبار ، کسی جنرل، کسی انٹیلی جنس ایجنسی ، کسی لیڈر ، کسی دانشور نے یہ سوال کیوں نہ اٹھایا ؟ جنگ کے فیصلہ کن مرحلے پر یہ ایک حملہ ہے، جو سابق اور محترم سپہ سالار پر کیا گیا ۔ مشکوک میڈیا گروپ نے اسے سکینڈل میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ خیر، پنجابی محاورے کے مطابق ، اب یہ لوگ ''کلّرکے سانپ‘‘ ہیں۔ ڈنگ سے محروم۔ جنرل راحیل کی ڈٹ کر خوشامد کی، بے ثمر ۔ ان کے لیے جنرل کیانی کی حیثیت ایک استاد کی ہے۔ 
سنجر کا سلطان پلٹ کر آیاتھا یا نہیں ، آرزو ہے کہ جنرل اطہر عباس اپنی کوتاہی کا ادراک کریں اور لوٹ آئیں ۔سب جانتے ہیں کہ غلطی سے نہیں ،غلطی پر اصرار سے تباہی آتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved