پیارے سیاست دانو!
اگرچہ آپ کسی صفحے وغیرہ کے محتاج نہیں ہیں بلکہ میڈیا کو آپ لوگوں نے ماشاء اللہ اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے جبکہ شیخ رشید صاحب تو جب تک اسے نیچے بچھا کر اوپر اوڑھ نہ لیں‘ انہیں نیند ہی نہیں آتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک پورا چینل انہوں نے اپنے گھر میں ہی کھول رکھا ہے اور جب جی چاہتا ہے مونچھیں سنوارتے ہوئے اُس پر جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم نے ہر طبقے کے لیے صفحہ جاری کرنے کا ا ہتمام کر رکھا ہے اس لیے انصاف کا تقاضا تھا کہ آپ کو بھی اس سے محروم نہ رکھا جائے کیونکہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق ہر کسی کو اُس کا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ آپ اس کا بُرا نہیں منائیں گے کیونکہ محاورہ ہم نے نہیں بلکہ کم بخت انگریزوں نے بنایا ہے۔ نیز‘ اگرچہ آپ خواتین و حضرات ہر لحاظ سے خودکفیل واقع ہوئے ہیں‘ اس لیے بھی آپ کو اس صفحے کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن آپ ہی کے درمیان کچھ افراد ایسے ہیں جو سیاست میں اتنے نہ بھی ہوں تو خبروں میں رہنا ضرور پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ آپ کے بھی مسائل ہوں گے اور ان کے لیے جتنے بھی وسائل مہیا ہوں‘ اتنے ہی کم ہوں گے۔ اس لیے اس عاجزانہ کوشش کو ،امید ہے کہ پذیرائی بخشتے ہوئے اس پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں گے اگرچہ آپ لوگ مفت کوئی بھی کام نہیں کرتے لیکن روپے پیسے کے حساب سے ہمارا ہاتھ بھی تنگ ہی رہتا ہے۔ اس لیے اپنے مسائل سے ہمیں بذریعہ ڈاک آگاہ کرتے رہیں‘ ہم چشم براہ رہیں گے‘ پیشگی شکریہ!
سبق آموز واقعات
٭... ایک سیاسی لیڈر انتخابی جلسے میں آزادیٔ اظہار کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
''اگر آپ آزادیٔ اظہار پر واقعی یقین رکھتے ہیں تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ آپ ایک پرلے درجے کے بددیانت‘ جھوٹے اور دغاباز شخص ہیں!‘‘
٭... ایک سیاستدان کسی دوسرے شہر کے دورے پر ایک ہوٹل میں مقیم‘ فائلوں پر غور کر رہا تھا جبکہ اس کی سیکرٹری اپنے انداز و ادا سے اُسے لبھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ آخر اس نے تنگ آ کر اسے کہا:
''کیسا رہے اگر آج کی رات ہم میاں بیوی کے طور پر بسر کر لیں‘‘۔
''اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے!‘‘ سیکرٹری نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے کہا۔
''تو پھر یہ بک بک بند کرو اور جا کر اپنے کمرے میں سو جائو!‘‘ سیاستدان بولا۔
٭... پارلیمنٹ میں وزیراعظم سرونسٹن چرچل کو حزب مخالف کی ایک خاتون رکن بہت ٹف ٹائم دیا کرتی تھیں۔ اپنی تقریر کے دوران ایک دن وہ بولیں:
''مسٹر چرچل‘ اگر میں آپ کی بیوی ہوتی تو آپ کو زہر دے دیتی!‘‘
''محترمہ‘‘ مسٹر چرچل بولے:'' اگر میں آپ کا شوہر ہوتا تو میں نے خود ہی زہر کھا لینا تھا!‘‘
٭... مسٹر کرشنا مینن جب اقوام متحدہ میں بھارت کی نمائندگی کر رہے تھے تو اس دوران وہاں ان کے حوالے سے ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا کہ اگر کرشنا مینن نہاتے ہوئے سمندر میں ڈوب جائیں تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ لیکن اگر انہیں زندہ باہر نکال لیا جائے تو یہ مکمل تباہی ہوگی۔
٭... پاکستان کا ایک وزیر زراعت ایک دفعہ کسی دوسرے ملک کے دورے پر گیا اور وہاں ایک باغ میں اس کے مالک کو مفید مشورے دیئے اور کہا کہ اگر اس سیب کے درخت کے لیے آپ فلاں کیمیکل استعمال کریں تو یہ دگنا پھل دے سکتا ہے!
''لیکن جناب‘ یہ تو ناشپاتی کا پیڑ ہے!‘‘ باغ کے مالک نے جواب دیا۔
٭... پاکستان کا وزیر حیوانات ایک دفعہ آسٹریلیا گیا اور وہاں بھیڑ بکریوں کے ایک گلے میں پہنچا اور گڈریے کو متعدد مفید ہدایات دیں جس پر گڈریے نے خوش ہو کر کہا کہ ان میں سے اپنا پسندیدہ بکرا آپ میری طرف سے تحفے میں لے سکتے ہیں‘ جس پر وزیر نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دیر بعد وزیر نے رخصت چاہی تو گڈریا بولا:
''براہ کرم جانے سے پہلے میرا کتا اپنی گاڑی سے نکال دیں!‘‘
پسندیدہ غزل
وہ جاگے ہوں کہ سوتے‘ کھا رہے ہیں
اِدھر ہم صرف غوطے کھا رہے ہیں
تمہارا نام ہر دم رٹنے والے
ہمارا رزق طوطے کھا رہے ہیں
چلو تم خود نہیں کھاتے ہو‘ پھر کیا
تمہارے ہوتے سوتے کھا رہے ہیں
بچا ہے حضرتِ والا سے جو بھی
وہ سب کچھ دادے پوتے کھا رہے ہیں
انہیں کچھ فرق ہی پڑتا نہیں ہے
کہ ہنستے ہوں کہ روتے‘ کھا رہے ہیں
سلیقہ دیکھیے سب سے الگ ہے
عجب موتی پروتے کھا رہے ہیں
ہیں اپنے واسطے فاقوں پہ فاقے
اور‘ اُن کے گھوڑے کھوتے کھا رہے ہیں
کیا تھا اوّل اوّل ہی تو پرہیز
مگر اب ہوتے ہوتے کھا رہے ہیں
نئے دھبے، ظفرؔ، مٹ جائیں گے خود
پرانے داغ دھوتے کھا رہے ہیں
آج کا مطلع
حقیقت میں ہماری آپ کی یک جائی والا ہے
دسمبر میں یہی موسم اگر جولائی والا ہے