تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     04-07-2014

حسن اور سلیقے کا مہینہ ہم کیسے گزارتے ہیں

یقینا ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں ایک اور رمضان المبارک دیکھ رہے ہیں۔ نیکیوں کا موسمِ بہار ہمارے درمیان موجود ہے۔ جس کی جو توفیق ہے وہ اپنا دامن ان رحمتوں اور برکتوں سے بھر لے۔ سحر و افطار کی گھڑیاں‘ نماز کی پابندی‘ تراویح‘ قرآن پاک کی تلاوت‘ بھوک اور پیاس کا احساس‘ دراصل رمضان المبارک میں پورا ایک ماہ‘ عبادت کے یہ مختلف رنگ‘ تربیت کی ایک بھٹی ہے جس سے انسان کو گزارا جاتا ہے تاکہ وہ سال کے باقی گیارہ مہینے‘ ایک بہتر مسلمان کی زندگی گزارے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ایک قلعی گر کی طرح سے دلوں اور روحوں پر جمے رنگ کو صاف کر کے‘ روحوں کو چمکا دیتا ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی روح پر جمی جھوٹ اور بددیانتی کی کائی کو صاف کر کے سچائی‘ دیانت‘ تقویٰ اور ایمان کو مضبوط کیا جائے اور یہ تربیت بڑے سادہ اور خوبصورت انداز میں ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے روزہ رکھا ہے اور وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولنے کا عادی ہے جبکہ روزہ رکھ کر جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے میں وہ شخص ضرور جھوٹ بولنے سے گریز کرے گا اور صرف اسی ایک عادت پر کاربند رہنے سے اس کی زندگی میں شاندار تبدیلی آ جائے گی کیونکہ جھوٹ بہت سی برائیوں کی ماں ہے۔ 
رمضان المبارک بنیادی طور پر انسان کی کردار سازی کرتا ہے۔ یہ کردار سازی وہیں ممکن ہے جہاں روزے کو اس کی اصل روح کے ساتھ رکھا جائے۔ بھوک اور پیاس کا مقصد اس احساس کو بیدار کرنا ہے کہ غربا اور مساکین کے لیے جذبہ ہمدردی پیدا ہو۔ امراء کو معاشرے کے ضرورت مند طبقے کا احساس ہو اور وہ اپنی خیرات‘ زکوٰۃ دل کھول کر مساکین پر خرچ کریں اور اس طرح کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ جب ایک معاشرے میں دولت مند طبقے کا ضرورت مند اور سفید پوش طبقے کے ساتھ ربط
گہرا ہو جاتا ہے‘ وہاں امراء بھی نمودو نمائش اور اسراف سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان میں یہ احساس جاگزیں ہو جاتا ہے کہ ان کے مال میں ضرور تمندوں کا حصہ موجود ہے اور اپنے مال کی بے جا نمودو نمائش معاشرے کے ضرورت مند طبقے پر گراں گزرے گی۔ اس طرح معاشرے میں مثبت رجحانات فروغ پاتے ہیں۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب رمضان المبارک کی روح کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق یہ ماہِ مبارک گزارا جائے۔ ہمارے ہاں بھی صورت حال کچھ برعکس ہی دکھائی دیتی ہے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ زندگی میں جو حُسن‘ سلیقہ اور ٹھہرائو پیدا ہونا چاہیے‘ اُس کی بجائے ہمارے ہاں ایک عجیب افراتفری کا سا عالم ہوتا ہے۔ ٹھہرائو اور صبر تو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہر طرف ایک بھاگ دوڑ نظر آتی ہے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اِدھر حکومت سستے بازاروں کا اعلان کرتی ہے‘ اُدھر ہر شے کی قیمت دو گنی ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں تہواروں پر‘ تاجر خودبخود انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں تاکہ کم وسیلہ اور ضرورت مند لوگ خوشی سے محروم نہ رہیں۔ دنیا کے بیشتر اسلامی ملکوں میں رمضان المبارک میں تاجر منافع کمانے کی بجائے‘ اللہ کی خوشنودی کمانے کی فکر کرتے ہیں اور کپڑوں سے لے کر کھانے پینے کی اشیا تک‘ سب کچھ سستے داموں فروخت کرتے ہیں اور اسے ایک طرح سے صدقہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سفید پوش لوگ بھی خوشیاں خریدنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ 
مسلم ملک انڈونیشیا میں رمضان سے ایک مہینہ پہلے یعنی ماہِ شعبان میں‘ کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے کی تمام ضروری اشیا پر مارکیٹوں میں قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ اسے پروموشن سیزن بھی کہتے ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مال اپنی تمام پروڈکٹس پر کمی کے اعلان کرتے ہیں۔ یوں وہاں رمضان المبارک کا استقبال اس انداز سے ہوتا ہے کہ لوگ پہلے ہی خریداری کر لیں‘ اور رمضان میں آرام سے روزے رکھیں۔ پورا رمضان بھی کھانے پینے کی اشیا پر خاص رعایت ملتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم طریقے سے ہوتا ہے۔ ایک باقاعدہ سسٹم بنایا گیا ہے جسے پوری دیانت داری سے نافذ کروایا جاتا ہے۔ ہماری طرح کا حال نہیں کہ رمضان کی آمد پر رمضان پیکیج تو انائونس ہو جاتے ہیں‘ یوٹیلیٹی سٹورز پر قیمتوں میں کمی کے دعوے بھی حکومت کرتی ہے لیکن پہلے روزے ہی یوٹیلیٹی سٹور عوام الناس کو بند ملتے ہیں اور جہاں کہیں یوٹیلیٹی سٹورز کھلے ہوتے ہیں وہاں لوگ مطلوبہ اشیا کی کمی اور معیار کا رونا روتے رہتے ہیں۔ سستے رمضان بازاروں کا حال اس سے بھی بُرا ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق 10 کلو آٹے کا تھیلا 310 روپے میں فروخت ہورہا ہے لیکن یہ آٹا اس قدر کم تر معیار کا ہے کہ کھانے کے قابل نہیں۔ پنجاب حکومت اگر قومی سرمایہ اشیا کے معیار کو بہتر بنانے پر لگاتی تو شاید غریب روزے دار دعا ہی دیتے۔ اس وقت غریب لوگ رمضان بازاروں میں خوار بھی ہو رہے ہیں اور انہیں معیاری اشیائے ضروریہ 
دستیاب بھی نہیں ہیں۔ عام بازاروں میں منافع خوری عروج پر ہے اور حکومت اس پر بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعلیٰ پُرعزم لہجے میں فرماتے ہیں کہ ''قیمتوں کی نگرانی میں خود کروں گا‘‘۔ ایسا کیسے ممکن ہے۔ جب تک قاعدے قانون اور ضابطے نافذ نہ ہوں۔جہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہو اور رشوت خوری کو کھلی چھٹی ہو‘ وہاں حالات کیسے سدھر سکتے ہیں؟ ہر سال رمضان میں یہ ڈرامہ بازی ہوتی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک عوام کے لیے مہنگائی کا طوفان لے کر آتا ہے۔ ہر سال حکمران سستی اور معیاری اشیا کی فراہمی کے کھوکھلے دعوے کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ہمارے حکمران‘ پالیسی ساز‘ حکومتوں کے مشیر کبھی اس حوالے سے اپنی تجاویز حکومت کے گوش گزار نہیں کرا سکے کہ ہم برکتوں اور رحمتوں کا ماہِ مبارک ڈھنگ اور سلیقے سے گزار سکیں۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی شہر میں پیشہ ور گداگروں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں جیب کاٹنے اور پرس چھیننے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ راشن اکٹھا کرنے والے پیشہ ور لوگوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں‘ رہائشی علاقوں میں حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ پچھلے برس رمضان المبارک میں‘ افطار سے کوئی تین گھنٹے پہلے بیل ہوئی‘ گیٹ پر تین بھکاری خواتین کھڑی تھیں۔ میں نے اپنی ملازمہ کو کچھ پیسے دیئے اور کہا کہ ان تینوں کو دے آئو۔ وہ تینوں تو چلی گئیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازے کی گھنٹی بجنے لگی۔ گھبرا کر جلدی سے باہر دیکھا تو گیٹ پر پیشہ ور مانگنے والوں کا ایک جلوس کھڑا تھا۔ میں تو اس صورت حال میں گھبرا گئی‘ دیکھا تو بہت سی خواتین گیٹ پر جمع تھیں، بچے بھی ساتھ تھے اور ان کے مرد رکشوں اور موٹر سائیکلوں 
پر سڑک پر ڈیرہ جمائے کھڑے تھے۔ میں حیران پریشان تھی کہ آخر اتنے لوگ اچانک کہاں سے آ گئے۔ ان پیشہ ور بھکاریوں کے جلوس سے کیسے جان چھوٹی یہ الگ کہانی ہے لیکن یہ بات سوچنے کی ہے کہ ایسے لوگوں کی شہر میں آمد امن و امان کے لیے بھی خطرہ ہو سکتی ہے۔ یہ پیشہ ور مانگنے والے پورا رمضان لوگوں کے گھروں سے قطاروں میں لگ کر راشن اکٹھا کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سے سفید پوش اور حقیقی ضرورت مندوں کا حق مارتے ہیں جو عزت نفس مجروح ہونے کے ڈر سے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اللہ کی راہ میں خوب صورت انداز سے دینا چاہیے۔ سلیقے سے بانٹنا چاہیے۔ اس طرح کہ سفید پوش ضرورت مندوں کے گھروں تک امداد اور خیرات پہنچ جائے اور ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے۔ ہر برس ہی ایسی خبریں آتی ہیں کہ راشن کی تقسیم کے موقع پر بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس کی مدد طلب کرنا پڑی۔ یوں پیشہ ور مانگنے والوں کے ساتھ اصل ضرورت مند ہی پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہیں۔ اس حُسن اور سلیقے والے مہینے میں ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ خیرات اور راشن کی تقسیم کو منظم طریقے سے سرانجام دیا جائے۔ ہر شہر کی یونین کونسل مزید چھوٹے چھوٹے وارڈز میں تقسیم کر کے ضرورت مند سفید پوش لوگوں کا اندراج ہو۔ بیوائوں‘ یتیموں‘ معذوروں کا اندراج ہو۔ اسی طرح مخیر حضرات بھی اپنا اندراج وہاں کروائیں اور پھر دیانت اور انصاف کے تقاضوں پر مبنی ایک سسٹم کے تحت ہر ضرورت مند کو راشن اور خیرات تقسیم کی جائے۔ بیت المال بھی اپنا تعاون اور مدد پیش کرے۔ یہ ایک تجویز ہے جس سے کروڑوں روپے کی خیرات و زکوٰۃ پیشہ ور گداگروں کے ہاتھ لگنے کی بجائے حقداروں تک پہنچ سکے گی اور ہم رحمتوں کا یہ مہینہ صحیح معنوں میں حُسن اور سلیقے سے گزار سکیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved