انسانی حقوق کی پامالی کے اس دور میں اگر ہم یہ چاہیں کہ اپنے ملک میں مثالی معاشرہ قائم ہو جائے‘ تو یہ خام خیالی ہو گی۔ نام نہاد مہذب دنیا میں انسانی آزادیوں کے شعور میں اضافہ‘ لیکن حقیقی انسانی آزادیوں میں کمی رونما ہوئی۔ سائنسی ترقی کی رفتار تیز ہوتی گئی مگر اس کا رخ انسانی امن اور خوشحالی کی بجائے‘ ظلم و جبر کی قوتوں کو مضبوط کرنے کی جانب رہا۔ بڑی سرمایہ کاری‘ طاقت اور تباہی کی قوت میں اضافے پر کی گئی جبکہ انسانی فلاح و بہبود کی حیثیت ثانوی رہی۔ جتنی توجہ اور سرمایہ‘ تباہ کاری کی طاقت میں اضافے پر صرف کیا گیا‘ اس کے مقابلے میں ترقی و خوشحالی پر صرف ہونے والا سرمایہ انتہائی کم رہا۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ حکمرانی کرنے والے طبقوں نے اٹھایا۔ داخلی طور پر انہوں نے عوام کا استحصال کرنے والے نظام کے پنجے تیز کرنے پر توجہ دی۔ جو سائنسی ایجادات ظلم کی مشینری کا حصہ بننے کے بعد‘ ایک ہی ملک کی تحویل میں رہیں‘ انہیں خفیہ رکھا گیا اور جب حریف ملک یا ملکوں نے انہی ایجادات کی طرز پر‘ یا بالمقابل ہتھیار بنانے کی اہلیت حاصل کر لی اور ٹیکنالوجی کو خفیہ رکھنا مشکل ہو گیا تو پھر ان ایجادات کے کمرشل استعمال کی اجازت دے دی گئی اور اس کے فوائد سے عام شہری بھی مستفید ہونے لگے۔ جتنی سپیس انڈسٹری آپ کے سامنے ہے‘ اسے وجود میں لانے والی سائنسی ایجادات‘ انسانی سہولیات کے لئے استعمال ہونے لگیں۔ جنگی طیارے جارحانہ مقاصد کے لئے بنائے گئے۔ بعد میں شہریوں کے لئے ہوائی سفر ممکن ہوا اور فاصلے سمٹ گئے۔ آمدورفت میں اتنی آسانیاں پیدا ہو گئیں کہ آج ہوائی سفر کی سہولتوں کے بغیر‘ زندگی گزارنا ممکن نہیں رہا۔ کمپیوٹر عرصہ پہلے ایجاد کر لیا گیا تھا۔ اسے ڈیفنس انڈسٹری کے مصرف میں لایا جاتا رہا۔ جب اس ٹیکنالوجی کو خفیہ رکھنا ممکن نہ رہا تو اسے تجارتی مقاصد کے لئے عام کر دیا گیا۔ آج کوئی کاروبار‘ کوئی صنعت اور مارکیٹنگ کا کوئی نظام
کمپیوٹر کے بغیر ادھورا ہے۔ البتہ صحت کے شعبے میں ہونے والی ریسرچ سے‘ نوع انسانی کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے لیکن اگر جارحیت کے شعبے میں ہونے والی ایجادات سے‘ انسانی فلاح و بہبود کے لئے کی گئی ایجادات کا موازنہ کیا جائے تو دونوں پر ہونے والے اخراجات میں‘ زمین و آسمان کا فرق نکلے گا۔ یوں سمجھ لیں کہ انسانی زندگی بچانے کے لئے‘ اگر قوموں کے کل سرمائے کا پانچ سے دس فیصد حصہ‘ صرف کیا گیا تو انسانی زندگی بچانے کے لئے ہونے والی ایجادات پر‘ ایک فیصد بلکہ اس سے بھی کم خرچ کیا گیا۔ یہ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ زمانہ‘ قدیم تہذیب کا ہو یا جدید تہذیب کا‘ ٹیکنالوجی کا زمانہ بن چکا ہے۔ انسان نے موت اور تباہی کی مشینری پر زیادہ خرچ کیا اور زندگی بچانے پر بہت کم۔ گویا تاریخ میں طرز زندگی کے اندر جتنی بھی تبدیلیاں آتی رہی ہیں‘ ان میں ایک چیز مشترک رہی کہ زیادہ وسائل موت اور تباہ کاری کے وسائل مہیا کرنے پر خرچ ہوئے اور برائے نام‘ زندگی اور تہذیب کو بچانے پر۔ ہم نے پروٹیکشن آف پاکستان بل 2014ء یا تحفظ پاکستان بل‘ دو جولائی
کو کثرت رائے سے پاس کر کے‘ کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ ایسے کام ہر ملک اور ہر دور میں ہوئے۔ حالات اور موقع محل کے مطابق‘ قوانین کی شکلیں بدلتی رہیں۔ معاشرتی نظام بھی تبدیل ہوتے رہے لیکن جبر کے نظام کو بچانے‘ چلانے اور قائم رکھنے کے لئے‘ ہونے والی کوششوں میں‘ تسلسل رہا۔ ہمارے مجموعہ قوانین کی جڑیں‘ انگریز کے تیار کئے ہوئے 1935ء کے ایکٹ میں پائی جاتی ہیں۔ یاد رہے‘ قوانین کا یہ مجموعہ‘ غیر ملکی جارحیت کے نتائج کو تحفظ دینے کی خاطر تیار کیا گیا تھا۔ اس کی تدوین‘ انسانی آزادیوں کو تحفظ دینے کے لئے نہیں‘ انہیں کچلنے کے مقصد سے کی گئی تھی۔ جب انگریز نے برصغیر پر قبضہ کیا‘ تو قدیم جنگی اصول اور ضابطے‘ وحشت اور درندگی کی انہی بنیادوں پر کھڑے تھے‘ جو قرون اولیٰ کی جنگوں میں بروئے کار آتے رہے‘ حالانکہ انگریز تہذیب و تمدن کی نئی اقدار سے روشناس ہو رہا تھا۔ جنگوں کے لئے طرح طرح کے ضابطے اور قوانین بنائے جا رہے تھے‘ جن میں اس دور کے مطابق‘ انسانی حقوق کو ممکنہ حد تک تحفظ دیا جاتا تھا۔ یہ تمام قوانین مشترکہ ضروریات کی بنیاد پر مرتب کئے گئے جیسے جنگی قیدیوں کے حقوق‘ ہتھیار پھینکنے والوں کو تحفظ اور اسی قسم کی دوسری مراعات۔ اس کا فائدہ جنگ لڑنے والے دونوں فریقوں کو پہنچتا تھا لیکن جنگی قوانین کی یہ ''سہولت‘‘ برابر کی طاقت رکھنے والے دشمنوں کو حاصل تھی۔ طاقتور اور کمزور کے مابین ہونے والی جنگوں میں‘ قدیم وحشیانہ طور طریقے ہی رائج تھے۔ حکومت کرنے والے بادشاہوں کی فوجیں‘ حملہ آوروں کی تیکنیک اور ٹیکنالوجیوں سے محروم ہونے کی بنا پر‘ جدید اسلحہ اور جنگی حکمت عملیوں میں پسماندگی کی وجہ سے مقابلہ نہ کر سکیں۔ انگریز نے جدید اسلحہ‘ وسیع تر جنگی تجربات اور حریف کی صفوں میں سازشیوں کی مدد حاصل کر کے‘ ہر محاذ پر برتری حاصل کی اور ہر جگہ کی آبادیاں پکے ہوئے پھل کی طرح‘ ان کی جھولی میں گرتی رہیں۔ آج بین الاقوامی اخلاقی قوانین نافذ ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی
تنظیموں اور طاقتوں نے اثرورسوخ حاصل کر لیا ہے لیکن طاقتور اور کمزور کے مابین رشتوں کی نوعیت نہیں بدلی۔ طاقتور کے سامنے‘ سارے عالمی قوانین‘ بے بس ہیں۔ کمزور انہیں‘ اپنے حق کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومت‘ اخلاقی پوزیشن اور انصاف کے تصور سے‘ استفادہ کرنے کے قابل نہیں رہتی‘ وہ ظلم کی مشینری کا استعمال کرنے کا نام نہاد قانونی جواز پیدا کر لیتی ہے۔ جدید تاریخ میں جس کسی کا بس چلتا ہے‘ اخلاقی اور قانونی پابندیاں توڑ کر‘ اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔ یو این میں پانچ ویٹو پاورز کو‘ عالمی ضابطے نافذ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر کوئی قانون یا ضابطہ‘ ان کے مفاد کے منافی ہو‘ تو انہیں ویٹو پاور کا حق حاصل ہے۔ آج بھی انصاف کا مطلب‘ طاقتوں میں توازن ہے۔ جہاں یہ توازن کمزور کے خلاف چلا جائے‘ وہاں انصاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کی مثالیں جدید تاریخ میں بکثرت موجود ہیں۔ عرب اسرائیل تنازعہ‘ یو ایس اے اور لاطینی امریکہ کے تنازعات‘ دور کیوں جائیں‘ پاک بھارت کشمکش‘ ایک ہی کہانی کے مختلف روپ ہیں۔ قوموں کے باہمی رشتوں کو چھوڑ کر‘ عوام اور حکومتوں کے باہمی رشتوں کا جائزہ لینے پر بھی‘ یہی حقیقت منی ایچر کی شکل میں نظر آتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں عوام‘ تنظیم کا شعور اور صلاحیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ حکمران طبقوں میں ظلم و جبر کا استعمال‘ احتیاط اور نام نہاد اخلاقیات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس کی مثال یورپ اور امریکہ ہیں۔ باقی جہاں بھی حکمرانی کی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے‘ ظلم کا سہارا لیا جاتا ہے‘ ایسی احتیاطیں ملحوظ نہیں رکھی جاتیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے دانشور وکیل‘ محض امریکہ اور برطانیہ کی مثالوں پر قناعت کر لیتے ہیں ورنہ وہ‘ دنیا میں جس طرف بھی دیکھیں گے‘ وہاں کے حکمران‘ حتی المقدور طاقت کا‘ بے رحمانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ظلم و جبر کا نظام چلانے والے حکمران طبقوں نے‘ اپنے ہاتھوں میں اتنی طاقت جمع کر لی ہے اور اس کے استعمال کا جواز پیدا کرنے میں اتنے ماہر ہو گئے ہیں کہ اب انہیں کسی موثر مزاحمت اور احتجاج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ نیا پروٹیکشن آف پاکستان بل‘ ''پروٹیکشن آف رولنگ کلاس‘‘ بل ہے۔ پارلیمنٹ‘ معاشرتی طاقتیں‘ مختلف طبقات کے مفادات کا تحفظ کیا کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام کے اس سلسلے کو‘ اب ختم جانئے۔ جتنی آسانی کے ساتھ عوامی حقوق سلب کرنے کا یہ بل پاس کیا گیا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو ظلم و جبر کی مضبوطی پر‘ بھرپور اعتماد ہے۔ جب یہ حالت ہو جائے تو پھر تہذیبی اقدار اور قانونی تحفظات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس پوزیشن میں آنے کے لئے‘ قومی سکیورٹی کی آڑ لی جاتی ہے۔ یہ عوام سے کٹے ہوئے حکمرانوں کا‘ آخری سہارا ہوتا ہے لیکن تاریخ کا عمل بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ایک وقت تھا‘ جب سکیورٹی کا نعرہ لگا کر آمریت بھی چل جاتی تھی مگر آج اس نعرے میں وہ طاقت نہیں رہی۔ ایک بہت بڑا پاور گروپ‘ جو مذہبی تصورات پر یقین رکھتا ہے‘ سکیورٹی کے نعرے سے متاثر نہیں ہوا۔ اس نے واضح طور سے حکومتی فلسفے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے لوگوں کی قیادت جماعت اسلامی نے کی لیکن اس خیال کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد‘ سلیپرز کی شکل میں گھر گھر موجود ہے۔ میں اسے سواد اعظم کہوں گا اور
پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت نے حکمرانوں کے سلامتی کے تصور کو مسترد کر دیا ہے۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے رہ گئے ہیں‘ حکمران طبقوں کی آمریت یا مذہبی انتہا پسندوں کی آمریت۔ دوسری آمریت سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حکمران مذہبی جبر کے مقابلے میں انسانی حقوق اور آزادیوں پر مشتمل‘ متبادل نظام تشکیل دے کر عوامی طاقت کھڑی کر دیں‘ ورنہ سرکاری مشینری کو نان سٹیٹ ایکٹرز تہس نہس کرنے کے لئے تیار ہیں اور عام شہریوں میں انہیں قبول کرنے پر آمادگی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک محتاط تجزیے کے مطابق‘ دہشت گردوں میں جارحیت کی صلاحیت کا مرکزی دھارا ختم کرنے کے لئے کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ کیا ہمارا فرسودہ ریاستی ڈھانچہ‘ پانچ برس تک یہ پھیلی ہوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔