تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     05-07-2014

کچھ جانے پہچانے عراقی کردار

صدام حسین نے کویت پر فوج کشی کی ۔ یہ جدید دور میں مشرق وسطیٰ کے سیاسی جغرافیے کو بدلنے کی پہلی کوشش تھی ۔ میں نے عبدالرحمن العمودی سے انٹرویو کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ واشنگٹن میں امریکن مسلم کونسل کے بانی تھے اور ان کا خیال تھا کہ میرا ادارہ صدام کی حمایت کرتا ہے جب کہ وہ عراق کے صدر کے ناقد تھے ۔ میں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ صدام کے بارے میں جو کچھ کہیں گے اسے ان سے منسوب کرتے ہوئے من و عن نشر کیا جائے گا مگر وہ نہ مانے ۔ ان کے ذہن میں غالباً ایک عشرہ پہلے کی ایران عراق جنگ تھی جس میں امریکہ کاجھکاؤ بلا شبہ بغداد کی جانب تھا ۔
خلیج کی پہلی لڑائی میں فواد عجمی منظر عام پر آئے ۔وہ یہاں جا رج ٹاؤن یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے تھے اور ٹیلی وژن کے اینکروں میں بڑے مقبول تھے ۔بڑے بش نے ''عراقی جارحیت‘‘ کے خلاف جنگ چھیڑی تو وہ ہر ٹاک شو میں مشرق وسطیٰ کا موقف دیتے دکھائی دیے جوا مریکی اینکروں کو بہت بھاتا تھا۔ جب بڑے بش کے صاحبزادے جارج بش نے عراق پر غیر قانونی چڑھائی کی تو وہ کھل کر میدان میں آگئے اور وائٹ ہاؤس کے غیر سرکاری مشیر بن گئے۔ یہ جملہ انہی کا ہے: ''میرے خیال کے مطابق بغداد اور بصرہ میں ہمیں (رنگ رنگ کی) پتنگوں اور اونچی موسیقی سے (Kites & boom boxes)خوش آمدید کہا جائے گا‘‘۔ 
العمودی‘ جو اری ٹیریا میں پیدا ہوئے تھے‘ لیبیا سے پیسے لینے کے تسلیم کردہ جرم میں 2004ء سے 23سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان پر اس سازش میں شریک ہونے کا الزام بھی ہے جو لیبیا نے کی اور جس کا مقصد ایک عرب ملک کے شاہ‘ جو اس وقت ولی عہد تھے‘ کو قتل کرانا تھا۔ عجمی اگلے دنوں68سال کی عمر پا کر سرطان سے انتقال کر گئے ۔وہ بیروت کے مضافات میں پیدا ہوئے تھے۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف تھے ۔بیشتر تعارفی نوعیت کی ہیں اور امریکی قارئین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کرتی ہیں۔ 
ان دنوں ایک عراقی شخصیت بھی امریکہ میں مقیم تھی ۔جلال طالبانی واشنگٹن میں رہتے تھے اور غا لباًسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ راز لین میں ان کے ہوٹل کا بل ادا کرتا تھا ۔ایک دو دفعہ اسی ہوٹل میں ان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔وہ عراق کے کرد قبیلے کے سردار تھے۔ صدام حکومت ختم ہونے کے بعد عراق کے علامتی صدر بنے ۔ان کے خلاف قتل کے مقدمے ہیں اور وہ بغداد سے فرار ہو کر کر دستان میں پناہ گزین ہیں‘ جسے خود مختاری حا صل ہے ۔2003ء میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ نے شیعہ لیڈر نوری المالکی کو‘ جو سزائے موت سے فرار کے بعد شام میں پناہ گزین تھے‘ عراق کا وزیر اعظم بنایا‘ اسی طرح جیسے وہ پاکستان کے راستے حامد کرزئی کو افغانستان لے کر گئے تھے اور انہیں ملک کا صدر منتخب کرایا تھا ۔ نوری اور کر زئی دونوں آج امریکہ کی نکتہ چینی کی زد میں ہیں۔
نجم عبد الجبوری یہاں وڈ برج ورجینیا میں میرے ہمسائے ہیں۔ ان کے تین بچے بھی انہی سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے رہے جہاں سے ہمارے تین بیٹوں نے تعلیم حاصل کی۔ دوسری عراق جنگ میں وہ تل افعر کے امیر تھے اور شہر کے وسط میں سولہویں صدی کے ایک عثمانی قلعہ سے اپنے لڑاکوں کو ہدایات دیتے تھے۔ اب ان کا شہر ''ریاست اسلامیہ‘‘ کے محاصرے میں ہے اور وہ بذریعہ سیل فون (موبائل) شیعہ اور سنی شیخوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ آپس میں مت لڑیں‘ ڈٹ کر مشترکہ دشمن کا مقابلہ کریں جو شام اور عراق کی سرحدوں کو نہیں مانتا اور موصل سے تل تک شمالاً جنوباً تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے ۔
وزیر خارجہ جان کیری کہتے ہیں کہ عراق کو ہمہ گیر جمہوریت ہونا چاہیے ۔ ان کے خیال میں ایک متحدہ عراق‘ جس میں شیعہ‘ سنی اور کرد وغیرہ مل جل کر رہیں‘ اقتصادی لحاظ سے زیادہ طاقت ور ہو گا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر عراق‘ شام اور لبنان وجود میں لائے گئے تھے۔ آج دنیائے اسلام میں فرقہ واریت کی لہر چل رہی ہے جب کہ مغرب نے دو عالمی لڑائیوں اور کئی چھوٹی بڑی جنگوں کے بعد‘ جو یورپ سے شروع ہوئیں‘ باہمی منافرت پر قابو پا لیا ہے ۔مسعود برزانی‘ جو سانحہ 9/11تک اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہISNA کے سالانہ جلسے میں شرکت کے لئے امریکہ آتے رہے‘ ان دنوں کردستان کی خود مختار انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔وہ کہتے ہیں: ''ہمیں ایک نئے عراق اور ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے‘‘۔ جان کیری نے اپنے حالیہ دورے میں اربیل جا کر برزانی سے بھی ملاقات کی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ برزانی کے بیان کا کیا مطلب لیتے ہیں تو انہوں نے عراق کی سالمیت کا راگ دہرایا۔ برزانی کو معلوم ہو گاکہ صلیبی جنگوں کے ہیرو اور بیت المقدس کے انصاف پرور فاتح صلاح الدین ایوبی عرب نہیں کرد تھے ۔ وہ صدام کی جنم بھومی تکریت میں پیدا ہوئے تھے اور آج ایک شہر ان کے نام سے منسوب ہے۔ دونوں شہر کردستان سے باہر ہیں۔ 
عراق میں امریکی مہم جوئی کے سپہ سالار جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے‘ جو خوف اور صدمے Awe & Shockسے ملک کو فتح کرنا چاہتے تھے‘ بغداد میں داخل ہونے کے بعد ایک اخبار نویس سے پوچھا تھا: ''مجھے بتاؤ اس کا انجام کیا ہو گا؟‘‘ جنرل پیٹریاس افغانستان میں بھی بر سر پیکار رہے اور اپنی سوانح نگار سے عشق لڑانے کی بنا پر فوج سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ ایک عشرہ پہلے جو سوال انہوں نے ایک اخباری نمائندے سے کیا تھا اس کا جواب کیا ہے ؟ 
ہم نے دیکھا کہ دنیا ئے اسلام کی سرحدیں ازسر نو کھینچنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی‘ لیبیا اور مصر نے اتحاد کیا جو چند سال کے اندر پارہ پارہ ہو گیا۔ ڈیو رنڈ لائن کو بنے دو سو سال ہونے کو ہیں مگر کابل کی کسی حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا اور فسا د کی جڑ یہ پندرہ سو میل لمبا خیالی خط ہی ہے ۔ اس خط کے دونوں جانب عرب‘ چینی‘ چے چن‘ ازبک اور دوسرے غیر ملکی سرگرم عمل ہیں‘ جو اپنے ملکوں سے نکالے جانے پر پاسپورٹ اور ویزا کے بغیریہاں آئے ہیں‘ شادیاں کی ہیں‘ بچے پیدا کئے ہیں اور مرنے مارنے کے لئے تیار ہیں۔ ایسا ہی ایک خط عراق میں ہے جو شمال کو جنوب سے الگ کرتا ہے اور کردستان بناتا ہے ۔کردستان میں تیل کے چشمے ہیں اور وہ باقی عراق کی نسبت ایک ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ ISIS‘جس کا نام یکم رمضان کے بعد ''ریاست اسلامیہ‘‘ ہے‘ عالمی جنگوں کے بعد بننے والے ملکوں کی سر حدوں کو نہیں مانتی‘ شام اور عراق کی سرحد پامال کرنے کے بعد اس کی نظریں اُردن اور لبنان پر ہیں اور وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ ساتویں صدی عیسوی پر لے جانے کی مہم چلا رہے ہیں مگر افغانستان کے طالبان کی طرح ''خلیفہ‘‘ ابو بکر بغدادی کو بھی یہ یاد نہیں رہا کہ نسلی امتیاز‘ جس میں علاقائی اور انفرادی مفادات بھی شامل ہو جاتے ہیں‘ زیادہ طاقت ور ہے اور جو لوگ شہر شہر ان کا استقبال کر رہے ہیں وہی کل ان کے کئے دھرے پر پانی پھیر دیں گے۔ خلیجی ممالک پہلے ہی ان سے خائف ہیں ۔سعودی بادشاہ اور ایرانی صدر انہیں ''امیرالمومنین‘‘ کبھی نہیں مانیں گے ۔یہ اطاعت اور باجگزاری کا دور نہیں تعاون اور محبت کا زمانہ ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved