تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     05-07-2014

خاموش… چمپک میاں!

میجر جنرل اطہر عباس کے انکشافات کے بعد جس طرح ایک دفعہ پھر پاکستانی سیاستدان اور کالم نگار ناراض ہوگئے ہیں‘ مجھے بھارتی اداکار شتروگھن سنہا یاد آگئے‘ جن کے دو فلمی ڈائیلاگ بہت مشہور ہوئے تھے: ''خاموش‘‘ اور ''چمپک میاں!‘‘ 
ہمارے ساتھ کیا پرابلم ہے؟ ہم کیوں خاموشی چاہتے ہیں؟ 
جب بعض لوگ اس خاموشی کے حق میں دلائل دیتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ چوہدری نثار کا بیان پڑھ کر تو دل شاد ہوگیا۔ فرماتے ہیں جنرل اطہر کو قومی راز باہر نہیں نکالنے چاہئیں تھے۔ سبحان اللہ ۔ میری کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ اٹھا کر پڑھ لیں‘ پتہ چل جائے گا‘ موصوف نے خود کتنے راز لیک کیے تھے اور کرتے ہی چلے گئے تھے۔ اس وقت کیوںیاد نہ رہا‘ رازوں کو راز رکھنا ہوتا ہے؟ 
جب اس طرح کے راز افشا ہوتے ہیں تو پھر سب پوچھتے ہیں اب ہی کیوں؟ پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اگر پہلے بھی وہ بتا دیتے تو آپ نے کیا کر لینا تھا جو اب نہیں ہوسکے گا؟ دوسرا اعتراض ہوتا ہے جرأت تھی تو اختلاف کر کے استعفیٰ دے دیتے۔ ایڈمرل فصیح بخاری نے جنرل مشرف سے اختلاف کر کے استعفیٰ دیا تھا تو میڈیا اور عوام نے کون سا تیر مار لیا تھا جو اب جنرل اطہر عباس کی باری چوک گیا ہے؟ جنرل شاہد عزیز کی کتاب چھپی تو طوفان مچ گیا تھا۔ طعنے ملنے شروع ہوگئے... کیا ضرورت تھی آپ کو بولنے کی؟ اب ہی کیوں؟ ہمت تھی تو اس وقت بولتے۔ میں جب ایسی شٹ اپ کالز پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں۔ 
دنیا بھر میں جب اہم لوگ کتابیں لکھتے ہیں یا راز کھولتے ہیں تو عوام یا میڈیا انہیں شٹ اپ کرانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ آج کل امریکہ میں ہلیری کلنٹن کی کتاب ہارڈ چوائسز نیویارک ٹائمز کی لسٹ پر سرفہرست جارہی ہے۔ اس کتاب میں اس نے کئی انکشافات کیے ہیں ۔ میڈیا نے ان انکشافات پر اپنی اپنی رائے ضرور دی لیکن امریکی اخبار یا ٹی وی پر کسی نے اسے یہ نہیں کہا کہ تم نے راز کھولنے کی جرات کیوں کی اور اس سے تو امریکہ کی سکیورٹی خطر ے میں پڑگئی تھی؟ 
دراصل ماضی میں کچھ اعلیٰ فوجی افسران صحافیوں کو بلا کر ان سے مشورے مانگتے تھے اور میں اکثر حیران ہوتا تھا کہ میرے جیسا صحافی کیسے کوئی مشورہ دے سکتا ہے اور میرے مشورے میں کتنا وزن ہوسکتا ہے؟ مقصد ان مشوروں پر عمل کرنا نہیں بلکہ میڈیا کے اندر اپنے چند حامی پیدا کرنا ہوتا ہے جو ان کی ہر غلط درست پالیسی پر بیانات داغتے رہیں اور ہر جگہ ان کے غیرسرکاری ترجمان بن کر ان کا دفاع کرتے رہیں ۔ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں میرے جیسے صحافی کا گائوں میں ایک سپاہی جاننے والا نکل آئے تو پورے گائوں کو آگے لگا لیتا ہے اور یہاں فور اسٹار جنرل اور وزیراعظم تک سے ہماری شناسائی ہوجاتی ہے۔ آپ بھی میرے جیسے صحافی کے نفسیاتی مسائل پر غور کریں ۔ آئی جی پولیس، وزیرداخلہ، وزیر، وزیراعظم اور پھر آرمی چیف بلا کر مجھے دیگر صحافیوں کے ساتھ بریفنگ دیتا ہے تو میں سمجھتا ہوں مجھ سے بڑا عقل مند اور کوئی نہیں۔ میں خود کو اہم سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے تعلقات اہم ہوتے ہیں نہ کہ ان تعلقات کو استعمال کر کے کوئی بڑی خبر نکلوانا۔ اس کے بعد میں اپنے اوپر لازم کرلیتا ہوں کہ اب ان صاحب کا میں نے عمر بھر دفاع کرنا ہے۔ 
جب جنرل کیانی ریٹائرڈ ہوئے تو ان کی شان میں ایسے قصیدے چھپے‘ شاید نپولین بھی اپنی قبر میں پچھتایا ہوگا کہ کاش وہ پاکستان کا جنرل ہوتا... امریکہ کے حوالے سے کہا گیا‘ جنرل کیانی سے بہتر کسی نے امریکیوں کو نہ سمجھا ۔ اس سے کیا ہوگیا ؟ کیا پاکستان دہشت گردی سے نکل گیا؟ ڈھونڈورا پیٹا گیا جنرل کیانی نے فوج کو سیاست سے دور کیا ۔ واقعی؟ پھر رات کے اندھیرے میں بعض سیاستدانوں سے چھ خفیہ ملاقاتیں کیوں ہوتی رہیں اور پیپلز پارٹی حکومت سے چھپ کر کیوں کی گئیں؟ دنیا بھر میں اہم پوسٹوں پر تعینات لوگ اپنی اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں ۔ اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں نیا کام شروع ہوچکا ہے۔ انکشاف ریٹائرڈ جنرل کے بارے میں ہوتا ہے تو صفائیاں دوسرے لوگ دیتے ہیں۔ 
اگر جنرل کیانی کسی وجہ سے گریزاں تھے تو پھر جنرل راحیل کو وہ اندیشہ کیوں نہ ہوا جو کمانڈر بنتے ہی آپریشن کے لیے نہ صرف تیار تھے بلکہ بائیس فوجیوں کی شہادت کے بعد پہلی دفعہ براہ راست شمالی وزیرستان میں ایف سولہ طیاروں سے بمباری کرائی۔ اگر جنرل کیانی زیادہ سمجھدار تھے تو موجود کمانڈر نے وہ سمجھداری کیوں نہ دکھائی اور کیوں یہ فیصلہ کر لیا کہ نہیں اب کافی ہوگیا ہے۔
ہم تو توقع رکھتے تھے جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا اور پچاس سے زیادہ مارے گئے تو شاید انتقام لیا جائے گا ۔ کچھ نہ ہوا ۔ پریڈ لائن مسجد میں فوجیوں کے بچوں کو درندوں کی طرح مارا گیا تو بھی یہی سوچا اب معافی نہیں ملے گی ۔ پشاور کورکمانڈر کا اکلوتا بیٹا شہید ہوا تو بھی کچھ نہ ہوا ۔ ایک طویل فہرست ہے جب خاموشی کا ورد چلتا رہا اور اس ملک پر تباہی نازل ہوتی رہی۔ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ نہیں جناب ہمارا کمانڈر بڑا سمجھدار ہے وہ امریکیوں کو ڈیل کررہا ہے۔ 
سوشل میڈیا پر ایک ہجوم ہے جو سمجھتا ہے آپریشن کا فیصلہ کرنا زرداری صاحب اور گیلانی صاحب کا کام تھا۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ زرداری صاحب فیصلے کی پوزیشن میں ہوتے تو فوج کے دبائو پر حسین حقانی سے استعفیٰ لیتے؟ گیلانی اصلی وزیراعظم ہوتے تو جنرل کیانی اور جنرل پاشا ان کے خلاف سپریم کورٹ میں میمو سکینڈل پر ان کی اجازت کے بغیر جوابات جمع کراتے اور گیلانی میرے دوست بابر اعوان کے ساتھ وزیراعظم ہائوس میں انتظار کرتے رہ جاتے کہ شام تک دونوں جرنیلوں کے جوابات ان تک پہنچ جائیں گے اور وہ خود ہی عدالت میں جمع کرائیں گے؟ گیلانی اور بابر اعوان صاحبان کو ٹی وی سے پتہ چلا کہ جن جوابات کا وہ انتظار کر رہے ہیں وہ تو سپریم کورٹ میں جمع ہو بھی چکے۔ 
بابر اعوان کسی دن یہ پوری کہانی کیوں نہیں لکھ دیتے؟
گیلانی صاحب اور جناب زرداری نے فیصلے کرنے ہوتے تو جنرل پاشا بغیر وزیراعظم سے پوچھے میمو سکینڈل پر حکومت کے خلاف ثبوت لینے منصور اعجاز سے ملنے لندن جاتے۔ 
گیلانی اور زرداری طاقتور ہوتے تو وہ جی ایچ کیو پر قبضے اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد مبارکبادیں دیتے یا کسی کو برطرف کرتے کہ اس سے زیادہ نااہلی کیا ہوسکتی تھی؟ گیلانی زرداری دور میں فوج کو تمام تر اختیارات تھے کہ آپریشن کرنا ہے یا نہیں یا کب کرنا ہے۔ جنرل اطہر عباس کا بیان اس بات کی تائید ہے کہ یہ فیصلہ فوج نے کرنا تھا۔ 
جہاں تک یہ دعویٰ ہے کہ جنرل کیانی نے مارشل لا نہ لگا کر احسان عظیم کیا تھا تو یاد رہے کہ جنرل کیانی ہی بینظیر بھٹو سے لندن میں این ار آو کے گارنٹر تھے اور بی بی کو پتہ تھا کہ جنرل کیانی نے ہی آرمی چیف بننا ہے۔ کونڈولیزا رائس کی آپ بیتی پڑھ لیں کہ امریکیوں نے کیسے مشرف اور بینظیر بھٹو کی ڈیل کرائی تھی ۔ جنرل کیانی کو بغیر مارشل لاء لگائے پہلے تین اور پھر مزید تین سال مل گئے تھے تو انہیں کیا ضرورت تھی کہ جمہوریت پر شب خون مارتے اور جنرل مشرف کی طرح گرفتار ہوتے؟ جنرل مشرف آٹھ سال آرمی چیف رہے اور کیانی چھ سال ۔ مشرف آج جیل میں اور کیانی شام کو گالف کھیلتے ہیں۔ کس نے گھاٹے کا سودا کیا؟
کیانی صاحب نے اگر جمہوریت بچائی تو امریکیوں کی طرح انہوں نے جمہوریت کا یہ لنچ مفت میں نہیں کرایا ۔ اس ہاتھ دے‘ اس ہاتھ لے والا کام ہوا تھا۔ اس لیے جنرل شاہد عزیز کے بعد آج کل بعض لوگ جنرل اطہر عباس کو خاموش کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر میں میڈیا اور عوام ماضی اور حال کے راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اہم موقعوں پر ان کے لیڈر اور جنرل کیا کررہے تھے تاکہ پتہ چلے ان کے فیصلوں سے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان لیکن پاکستانی میڈیا اور عوام شتروگھن سنہا کے مشہور زمانہ ڈائیلاگ کو دہراتے رہتے ہیں چمپک میاں...خ۔ خ...ا...مو...ش...ش...! خاموش! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved